جمہوریت کے حسین نظارے

پاکستان کی تاریخ جمہوریت کے بے مثال حسین نظار وں سے بھری پڑی ہے۔ یہ ہمارے ملک کا لمحہ فکریہ ہے کہ مادر ملت جیسی عظیم ہستی کو بھی اس ملک کے نام نہاد لیڈورں نے صرف اقتدار کے لئے الزامات کی سیاست کے بھینٹ چڑ ھایا۔پاکستان کی تاریخ کے ادوار میں جہاں آمروں نے اپنے اقدار میں رہنے کیلئے آئین و قانون کو پامال کیا وہاں عدالتوں نے بھی نظریہ ضرورت کے تحت آمروں کے اقدامات کودرست قرار دیا۔

ملک کے سیاستد انوں نے حکومت میں آکر خوب مال بنایا، جس کا جتنا داؤ لگا ا س نے کرپشن،لوٹ کھسوٹ، رشوت، بدیانتی، مالی بے ضا بتگی کے پرانے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ پاکستان کے معرض وجود کے آنے کے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہے اور پتا نہیں نئی آنے والی کئی نسلیں اس بے سودا اوربے کار نظام میں پلے بڑھیں گئیں۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں بڑی جماعتیں کئی دھائیوں سے اس ملک پر مختلف اتحاد ی پارٹیوں سے مل کر حکمران رہیں ہیں۔ ماضی میں ایک پارٹی کے حکومت میں آجانے کے بعد دو سری جماعت اس کی ٹانگیں کھنچنے میں مگن نظر آئیں۔

مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں نے لمبے عرصے تک اقدار کے مزے لوٹے ہیں۔ یہ بھی جمہوری حسن ہے کہ مسلم لیگ نے گرگٹ کی طرح اپنارُوپ کے ساتھ رنگ بھی بدلا اور ہمیشہ آمروں کو اپنے سروسز فراہم کیں ان کے ساتھ لمبے عرصے تک شامل اقدار رہے۔ یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی دو جماعتوں نے حکومت آنے پر کرپشن، لوٹ کھسوٹ،بددیانتی اور پیسہ باہر بھیجنے کی مہارت بھی سمجھائی۔ دونوں مخالف جماعتوں نے اپنے دور حکومت میں عوام الناس کے سامنے ایک دوسرے کی کرپشن کے ثبوت پیش کئے اور کئی کیس فائل کرکے احتساب کا نعرہ لگایا۔لمبے عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا بعد میں تمام کیس ختم ہو گئے اور جمہوریت کے حمام میں سب پاک وصاف ہو گئے۔ یہ بھی جمہوری حسن ہے کہ دونوں پارٹیوں نے مفاہتی پالیسی کے تحت ایک دوسرے کی کرپشن کو نہ اچھالنے کے لئے چارٹر آف ڈیمو گریسی پر دستخط کیے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے کھٹے چھٹے سے بہت اچھی طرح واقفیت رکھتی ہیں،دونوں جماعتوں کے قائدین اپنے کئے ہوئے سیاہ کارناموں کی مہارت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ پارٹی قائدین نے مک مکا کی پالیسی کی باعث تمام پارٹی ممبرین کوہونٹ بند کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔دونوں پارٹی قائدین ایک دوسرے کے سیاہ کارناموں کے رازدان ہیں لیکن کبھی کبھی ان کارناموں کی بازگشت آپس کے اختلاف ہونے کی وجہ سے سننے کوملتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان (وفاقی وزیر داخلہ) اور پیپلزپارٹی کے قائدچوہدری اعتزاز احسن کی نوک جھوک بہت مقبول ہوئی،یہ دو تگھڈے چوہدریوں کا شو آف پاور تھا، اسمبلی اجلاس کے اندر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بحث کے دوران دونوں مخالف لیڈروں کا پارہ ہائی ہوگیا۔پہلے چوہدری نثار علی خان نے LPG کوٹے کی کرپشن کا الزام چوہدری اعتزاز احسن پر لگایا۔ چوہدری اعتزاز احسن بھی عدالتی امور کے منجے ہوئے کھلاڑی ہیں انہوں وزیر اعظم کے سامنے پہلے تو چوہدری نثار علی خان کو اچھی طرح لا تھڑااور پھر پیو پٹواری اور دوسرے کرداروں کا پردہ چاک کیا۔ چوہدری اعتزاز احسن کی بیان کردہ حقیقت کا سننا تھا تو چوہدری نثارعلی خان نے پریس کانفرنس میں تمام ثبوت کے ساتھ میڈیا کے سامنے رکھنا کا عندیہ دیا پھر بعد میں وزیر اعظم کی مداخلت پر چوہدر ی نثار علی خان کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا اور ایک چھوٹی سی تقریر کرکے موصوف بھی سیاسی مفاہتی پالیسی کے تحت چپ ہوگئے۔

بلال بھٹو زرداری جو آج عوامی رابطہ مہم کو جاری رکھے ہوئے اور پیپلز پارٹی کودوبارہ اجاگر کرنے میں سر گرم نظر آتے ہیں انھوں نے اپنے جلسوں میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کو آڑے ہاتھ لیا، پانامہ لیکس کے ایشو کے ساتھ حکومتی پالیسوں پر سخت تنقید کی ہے۔

پیپلزپارٹی کی قیادت کا یہ شروع سے وطیرہ رہا ہے کہ پہلے بیان دیتے ہیں پھر بیانات کا مفعوم کو بدل دیتے ہیں۔ متحرم شہباز شریف، وزیر اعلٰی پنجاب جوش خطابت میں ان کی زبان پھسل کر سچ بول جاتی ہے اور بعض دفعہ ان کو یہ سچ مہنگا پڑجا تا ہے۔ ماضی میں انھوں نے پیپلزپارٹی کی قیادت کے اوپر پائے جانے والے کرپشن کے الزامات کے بارے میں کئی عوامی اجتماعات کے اندر انتہائی نازیبا الفاظ فرما ئے جن پر بعد میں معذرت کرنی پڑی۔ انھوں نے ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پیپلزپارٹی دور کے سیاہ کارنامے کا خوب رچ گج کر ذکر کیا اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو سوئز بینک، سرے محل، اینایل سی، رینٹ پاور، جیسے بڑے بڑے کرپشن سکینڈل کی یاد کرائی۔ یہ بھی جمہوری روایات کا حسن ہے کہ دو سری پارٹی کو اس کی اصلیت دیکھا کر چپ کرا دیا جائے۔ دو نوں پارٹیاں ایک دوسری کی کریشن کو بچانے لئے اکٹھی ہیں کبھی کبھی اپنا دباؤ اور پریشر قائم رکھنے کے لئے یہ فرمولہ اپنایا جاتا ہے۔

جمہوریت کے حسن کی تازہ ترین مثال اسمبلی اجلاس میں وفاقی وزیر خواجہ آصف کے وہ مشہور چٹکلے ہیں جو وہ اکثر اوقات تحریک انصاف کے قائد کیلئے بولتے ہیں۔ بعض اوقات انہی کی چٹکلے ان کی پارٹی کے اوپر فٹ ہوئے۔ یہ بھی جمہوریت کا ہی حسن ہے پارٹیوں کے اندر الزامات کی سیاست اب رواج بن چکا ہے۔ اپنی ساخت،شہرت اور پارٹی کے اندر اپنا قد کاٹھ بڑھانے کے لئے ایک دوسرے کی عزت تک کو پامال کر دیاجاتا ہے۔جمہوریت کے حسن میں لوٹے اور لوٹی کی فیکٹری کا وجود چھانگا مانگلہ کے دور سے بھی پہلے کا ہے۔ ارکان اسمبلی کو اس کی اثرو رسواخ کی بنا ء پر خریدا جاتارہا ہے۔ پارٹی ارکان اقدار حکومت اور ذاتی مفادات کے لئے کسی دوسری پارٹی میں جاکر الزمات کی سیاست کرتے رہے ہیں۔آج کے دُور میں لوٹی اور لوٹے کا وجود عام ہے۔

چوہدری سرور(سابق گورنر پنجاب) جب تک مسلم لیگ ن کا حصہ رہے۔ تحریک انصاف ان کی عزت کی دھجیاں تک اڑتی رہی جب انھوں نے تحریک انصاف کو جائن کیا تو تمام الزامات سے بری ہو گئے۔ اسی طرح دانیال عزیز، ماروی میمن، زاہد حامداور امیر مقام یہ وہ افراد ہیں جو جنرل مشرف کے رائٹ وینگ میں رہے جن کا کام میڈیا کے ٹاک شو ز میں نواز شریف وفیملی کے ساتھ مسلم لیگ ن کی پالیسی کے اوپر تنقید کرنا رہا،یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے آج وہ نواز شریف اور اس حکومت کی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکے ہیں۔ ہر ٹی وی شو میں یہ حضرات حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اگرمیڈیا ان کے ماضی کے بیانات کے متعلق سوال کر لئے تو اس کی شامت لے آتے ہیں۔

پیپلزپارٹی سے کئی افرادٹوٹ کر تحریک انصاف میں آئے ان چیدہ افراد میں شاہ محمود قریشی،پرویز خٹک کے ساتھ حال ہی میں شامل ہو نیوالے راجہ ریاض جو لمبے عرصے تک تحریک انصاف کے مخالف رہے ہیں۔ اسی طرح مشرف دور کے اندر جہانگیر خان ترین، علیم خان جو مبینہ طور تحریک انصاف کے اندر ایک بڑے دھڑے کے مالک ہیں ان کی وجہ شہرت ان کا پیسہ ہے۔یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے کہ جس فرد کے پاس جتنا پیسہ ہو گا وہ پارٹی میں اتنی ہی بااثر ہو گا۔ جلسے جلسوں میں خرچہ کرنا، پارٹی کو فنڈ دینا آج جمہوریت کے اندر سب کھیل ہی پیسہ ہے۔

نظریاتی اور وفادارکارکن کی کوئی ویلیونہیں ہے، پارٹیوں کے اندر تمام فیصلے و ن مین شو کی سطح پر ہوتے ہیں،پارٹیاں اپنے سیاسی کارکن،ورکرز کو الیکشن کمپین، احتجاج اور دھرنے کے وقت یاد رکھتی ہیں، حکومت آنے کے بعد پارٹی منشور، عوام سے کئے وعدے سب ہوا میں اڑدئیے جاتے ہیں۔ کرپشن،لوٹ کھسوٹ،بددیانتی کے ساتھ رشوت کا اصول عمل پیرا نظر آتا رہا ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل (صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی، بے روزگاری، سرکاری سکولوں میں تعلیم کی سہولتوں کافقدان،عدالتوں میں انصاف کا ناپید ہونا) بھی جمہوریت کے حسن کا نمونہ ہیں۔

ملک کے اندر موسم کے شدت کے ساتھ ساتھ سیاسی پارہ بھی ہائی ہوتا جا رہا ہے حکومت نے بل آخر سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں اپوزیشن کے ساتھ مل کر(TRO) کے لئے پارلیمنٹ کے اندر کمیٹی قائم کر دی ہے۔ اپوزیشن کی نو جماعتوں کے اتحاد میں ایم کیو ایم کی دوبارہ شمولیت ہوگئی۔ یہ بھی حسن جمہوریت ہے کہ کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دوست کل کے دشمن۔ مسلم لیگ ن کے منحرف شدہ رکن مخدوم جاوید ہاشمی دوبارہ حکمران جماعت کا حصہ بن گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے