جمہوری کیچڑ تو اچھا ہوتا ہے

اگرچہ بلدیاتی اداروں کو تین منزلہ جمہوری ڈھانچے کی بنیاد کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہ کسی بھی جمہوری نظام میں اختیارات و ترقی کے ثمرات تب تک عام آدمی تک نہیں پہنچ سکتے جب تک مرکز سے صوبے اور صوبے سے شہر اور گاؤں تک اختیارات و وسائل کی تقسیم کا کام مکمل نہ ہو۔

مگر پاکستان میں اب تک جمہوریت کا مطلب قومی و صوبائی انتخابات کو ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔

یہ ہے نیا روشن پاکستان

کوئی مدد کو نہیں آئے گا

پاکستانی سماج سے کچھ چھن گیا ہے

پچھلے 68 برس میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات دس بار مگر بلدیاتی انتخابات پانچ بار ہو سکے۔
یہ بلدیاتی انتخابات بھی فوجی آمریتوں نے فروغِ جمہوریت کے لیے نہیں اپنا متبادل سیاسی ایجنڈہ بڑھانے کے لیے کروائے جبکہ سویلین حکومتوں نے جمہوریت کے تیسرے ستون کو ہمیشہ اپنی سوکن سمجھا۔

مگر گذشتہ ڈھائی برس میں پاکستانی جمہوریت پہلی بار دو اہم سنگِ میل عبور کرنے میں کامیاب ہوئی۔

یعنی ایک سیاسی حکومت نے اپنی مدتِ اقتدار مکمل کرکے بذریعہ انتخابی عمل اقتدار دوسری سیاسی حکومت کے حوالے کیا اور یہ سال ختم ہونے تک پہلی بار کسی سویلین حکومت کے تحت پاکستان کے چاروں صوبوں میں منتخب بلدیاتی اداروں کے قیام کا عمل مکمل ہو چکا ہوگا۔

(یہ الگ بات کہ بلدیاتی انتخابات سویلین حکومتیں خوشی خوشی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے دباؤ میں کروا رہی ہیں)۔

اگر کوئی کیچڑ یا گدلے پانی سے گھبرا کے نلکہ ہی بند کر دے تو صاف پانی کیسے آئے گا ؟

رہا یہ مباحثہ کہ اس جمہوری عمل کا معیار کیسا ہے ؟

اختیارات کی ایک منزل سے دوسری اور پھر تیسری منزل تک منتقلی کتنی تیز یا سست ہے اور اس سفر کے دوران روایتی سیاسی خانوادوں کا تسلط کتنا کمزور یا مستحکم ہوا۔ تو یہ مباحثہ لمبا چلےگا مگر اس بحث کو نظام کے سفر میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔

ہاں ان تینوں ڈھانچوں کی تشکیل کے انتخابی مرحلوں میں بد انتظامی بھی ہوئی، تشدد بھی پھوٹا، جس کا جہاں بس چلا اس نے نتائج پر اثرانداز ہونے کی بھی کوشش کی، سرکاری مشینری بھی استعمال ہوئی، ووٹروں کو ترغیب و دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

کیا یاد نہیں کہ ہم بھی ایسے ہی بچے سے بڑے ہوتے ہیں۔ ڈانٹ بھی کھاتے ہیں، چوٹیں بھی لگواتے ہیں، بے وقوفیاں بھی کرتے ہیں، شاباشی بھی لیتے ہیں، مار پیٹ بھی کرتے ہیں، کھلونوں سے خوش بھی ہوتے ہیں، چھینتے ہیں، توڑتے ہیں۔

گالی بھی نکل جاتی ہے اور بڑے کان بھی کھینچتے ہیں، تب کہیں جا کے بالغ ہوتے ہیں اور پھر ہمیں لگتا ہے کہ ہم تو ہمیشہ سے ہی بالغ تھے۔

نظام کا قیام اولاد کی نگہداشت و تربیت سے بھی زیادہ صبر آزما ہے۔ والدین بدتمیز بچوں کو عاق نہیں کر دیتے بلکہ ان پر اور زیادہ محنت کرتے اور پہلے سے بہتر ماحول فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پچھلے 68 برس میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات دس بار مگر بلدیاتی انتخابات پانچ بار ہو سکے
نوابزادہ نصراللہ خان کہا کرتے تھے کہ آمریت تو راتوں رات آ جاتی ہے مگر جمہوریت راتوں رات نہیں آیا کرتی۔ ہم چونکہ من حیث القوم بے صبرے ہیں لہذا جمہوریت کا پودا لگانے کے بعد روزانہ بہانے بہانے اکھاڑ کے دیکھتے ہیں کہ اب تک جڑ کیوں نہیں پکڑی، اور جب وہ مرجھا جاتا ہے تو ہم یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اسے یہ زمین ہی راس نہیں۔

ولی خان سے یہ بات منسوب ہے کہ جب جنرل ضیا الحق نے ایک ملاقات میں ان سے کہا کہ سیاستدانوں کو جمہوریت کی اے بی سی بھی نہیں معلوم تو ولی خان نے کہا کہ جب سیاستدان اے بی سی سیکھنے لگتے ہیں تو سامنے جی ایچ کیو آجاتا ہے۔

جب آپ زمین میں بورنگ کر کے نلکا لگواتے ہیں تو شروع کا آدھا گھنٹہ اس میں سے کیچڑ نکلتا ہے، پھرگدلا پانی شروع ہوجاتا ہے۔ کہیں گھنٹے بھر بعد صاف پانی گرنا شروع ہوتا ہے۔

اگر کوئی کیچڑ یا گدلے پانی سے گھبرا کے نلکا ہی بند کر دے تو صاف پانی کیسے آئے گا؟

اگلے دو، تین، چار قومی و بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں کیچڑ اورگدلا پانی برآمد ہو تو گھبرانے کی بات نہیں۔ بس یہ دیکھتے رہیں کہ نلکا کھلا رہے مگر نلکے کو زنگ بھی تو لگتا ہے، وہ ایک مدت بعد ریپئیرنگ بھی تو مانگتا ہے۔ کاش نلکا یہ کام بھی خود کر لیتا۔

(بشکریہ بی بی سی اردو)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے