جنسی تسکین کو معاشرتی حدود سے مقید کئے بغیر جائز قرار دینے کے حوالے سےمسلمان متکلمین کی بحث

عقل وشرع کا باہمی تعلق اور عقل حاکم وعقل خادم کا امتیاز

زنا یعنی جنسی تسکین کو معاشرتی حدود وقیود سے مقید کیے بغیر جائز قرار دینے کے حوالے سے مسلمان متکلمین کے ہاں یہ دلچسپ بحث پائی جاتی ہے کہ شرعی ممانعت سے قطع نظر کر کے، کیا یہ عمل عقلا بھی قبیح اور قابل ممانعت ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں حنفی فقیہ امام جصاص اور شافعی فقیہ امام الکیا الہراسی کے منسلکہ اقتباسات میں دو مخالف زاویہ ہائے نگاہ پیش کیے گئے ہیں۔

جصاص کا کہنا ہے کہ زنا عقلا قبیح ہے، کیونکہ اس کی زد بچے کے نسب اور کفالت وغیرہ کے معاملات پر پڑنا ناگزیر ہے، اس لیے ان سوالات سے مجرد کر کے مرد وعورت کے باہمی جنسی استمتاع کو درست قرار دینا انسانی معاشرے کے مصالح کے لحاظ سے عقلا بھی درست نہیں۔

الکیا الہراسی اس پر سوال اٹھاتے ہیں کہ نسب کے ثبوت کی ضرورت کچھ شرعی احکام پر عمل کے لیے پیش آتی ہے، اگر وہ نہ ہوں تو محض عقلا نسب کی پہچان لازم نہیں۔ رہا یہ سوال کہ پھر بچے کی پرورش اور کفالت کا کون ذمہ دار ہوگا تو الکیا الہراسی کہتے ہیں کہ اگر بچے کا باپ معلوم ہو تو بھی اس کے نطفے سے بچے کی پیدائش ہونے سے عقلا یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی کفالت کا بھی وہی ذمہ دار ہو۔ یہ ذمہ داری بھی شرعا ہی لازم ہے، جبکہ شرعی حکم نہ ہونے کی صورت میں لوگ دوسرے عقلی طریقوں سے اس کی تدبیر کرنے کے پابند ہوتے کہ نسل انسانی کے بقا کو کیسے یقینی بنائیں۔ اس استدلال کی روشنی میں الکیا الہراسی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر شرعی حکم نہ ہو تو زنا عقلا قبیح نہیں، بلکہ بالکل جائز ہے، کیونکہ عورت کی رضامندی سے اس سے جنسی استمتاع کرنے میں نہ تو دونوں میں سے کسی کا نقصان ہے اور نہ یہ ظلم ہے۔ اس کی تائید میں الہراسی اہل عرب کے عرف کا حوالہ بھی دیتے ہیں جن کے ہاں زمانہ جاہلیت میں زنا اور اس سے حصول اولاد کی مختلف صورتیں رائج تھیں۔

جصاص اور الکیا الہراسی کے مذکورہ اختلاف سے ہمارے سامنے عقل کی ان دو نوعیتوں کے امتیاز کو سمجھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے جس کا ذکر معاصر عرب فلسفی عابد الجابری نے اپنی معروف کتاب ’’تکوین العقل العربی’’ میں فرانسیسی فلسفی آندرے لالاند کے حوالے سے کیا ہے۔ لالاند نے عقل کی ان دو صورتوں کو فرانسیسی میں La raison constituante اور La raison constituee کا عنوان دیا ہے جس کا ترجمہ عابد الجابری عربی میں ’’العقل السائد’’ اور ’’العقل الفاعل’’ سے کرتے ہیں۔ اردو میں ہم انھیں ’’تشکیل شدہ عقل’’ (یا ’’طے کنندہ عقل’’) اور ’’متحرک عقل’’ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ’’تشکیل شدہ عقل’’ سے مراد وہ تمام اساسی تصورات، عقائد اور اصول وقواعد ہوتے ہیں جو کسی قوم میں عمومی طور پر مانے جاتے ہیں، جبکہ ان کی روشنی میں زندگی کے روز مرہ امور میں جس عقل کو استعمال کرتے ہوئے مخصوص نتائج تک پہنچا جاتا ہے، وہ ’’متحرک عقل’’ ہوتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں ’’متحرک عقل’’ صرف اخذ نتائج کی صلاحیت کا عنوان ہے جو انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اور یہ صلاحیت تمام انسانوں میں ایک جیسی اور مشترک ہوتی ہے، جبکہ ’’تشکیل شدہ عقل’’ کائنات، زندگی اور معاشرت وغیرہ سے متعلق ان بنیادی تصورات کا مجموعہ ہوتی ہے جنھیں کوئی قوم یا تہذیب مختلف اسباب سے اختیار کر لیتی ہے اور پھر انھی کے تحت تمام جزوی نتائج اخذ کرتی چلی جاتی ہے۔ متحرک عقل کے برعکس، تشکیل شدہ عقل سارے انسانوں میں مشترک نہیں ہوتی، بلکہ مختلف قوموں اور تہذیبوں کی ’’تشکیل شدہ عقل’’ مختلف ہوتی ہے۔ جب ہم ’’یونانی عقل’’، ’’مسلم عقل’’ اور ’’مغربی عقل’’ جیسی تعبیرات استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد یہی تشکیل شدہ عقل ہوتی ہے، کیونکہ عقل متحرک کی سطح پر ایسے کسی قومی یا تہذیبی امتیاز کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

اس تنقیح کی روشنی میں زنا کے عقلی جواز یا عدم جواز کے حوالے سے جصاص اور الکیا الہراسی کے اختلاف کو سمجھیے تو جصاص دراصل ’’عقل متحرک’’ کی سطح پر زنا کی عقلی قباحت کو واضح کرنا چاہ رہے ہیں جس میں نسب کی حفاظت، رشتوں کی حرمت اور صلہ رحمی وغیرہ کی ذمہ داریاں پہلے سے تسلیم شدہ ہیں یعنی ’’تشکیل شدہ عقل’’ کا حصہ ہیں اور ان کو مان لینے کے بعد زنا کی قباحت واقعتا عقلی طور پر ثابت ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف الکیا الہراسی سوال کو عقل متحرک سے اٹھا کر ’’تشکیل شدہ عقل’’ کی سطح پر لے جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس سطح پر اگر شریعت کے حکم کو فیصلہ کن حیثیت میں نہ مانا جائے تو بتائیے، کون سی چیز ہے جو صرف عقل کی بنیاد پر ایک اساسی اصول کے طور پر یہ طے کرتی ہو کہ نسل انسانی کی بقا کے لیے نسب کی حفاظت اور خاندان کی تشکیل کا طریقہ ہی واحد اور لازم طریقہ ہے؟

لالاند نے ’’عقل سائد’’ اور ’’عقل فاعل’’ کا فرق واضح کرتے ہوئے ایک بہت اہم بات یہ بھی کہی ہے کہ ’’عقل سائد’’ کی تشکیل بھی ’’عقل فاعل’’ ہی کے ذریعے سے ہوتی ہے، یعنی کوئی قوم مشاہدہ اور استنتاج واستنباط کی مشترک انسانی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے حیات وکائنات سے متعلق کچھ بنیادی نتائج تک پہنچتی ہے۔ پھر اصول وتصورات کا یہ مجموعہ اس کے لیے ’’عقل سائد’’ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور بعد کے مراحل میں اس کی ’’عقل فاعل’’ خود اپنی ہی تشکیل دی ہوئی ’’عقل سائد’’ کے تحت اور اسی کے دائرے میں مسائل واحکام اخذ کرنے کا وظیفہ انجام دیتی رہتی ہے۔ تفہیم کے لیے، عقل کے اس دوہرے عمل کو دستوری زبان میں آئین وضع کرنے اور پھر اس کی روشنی میں قانون سازی کے عمل سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ ایک خود مختار پارلیمان کسی نئے ملک کی تشکیل کے مرحلے میں ملک کے نظم ونسق سے متعلق ایک بنیادی دستوری ڈھانچہ وضع کرتی ہے جو اس کی اپنی ہی تخلیق ہوتا ہے، اور پھر اس کے بعد وہی پارلیمان انھی دستوری حدود وقیود کے دائرے میں قانون سازی کے عمل کو جاری رکھتی ہے۔

یہاں دو سوال اہم ہیں۔

ایک یہ کہ اگر عقل فاعل کسی بھی مرحلے میں معطل نہیں ہوتی اور ’’عقل سائد’’ کی تشکیل بھی اسی کی مرہون منت ہوتی ہے تو پھر عقل سائد اور عقل فاعل کے امتیاز کی سرے سے ضرورت اور معنویت ہی کیا ہے؟ یعنی اس سارے عمل کو ہم ’’عقل فاعل’’ ہی کی سرگرمی سے کیوں تعبیر نہیں کر دیتے؟

دوسرا یہ کہ عقل فاعل کی تعریف اگر یہ ہے کہ یہ ’’مانے ہوئے’’ مفروضات سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کا نام ہے تو سوال یہ ہے کہ ’’عقل سائد’’ کی تشکیل کے بعد تو ’’عقل فاعل’’ کے لیے نقطہ حوالہ (یعنی پوائنٹ آف ریفرنس) ’’عقل سائد’’ بن جاتی ہے، لیکن عقل سائد کی تشکیل کرتے ہوئے عقل کن بنیادوں پر انحصار کرتی ہے، یعنی خود عقل سائد کی تشکیل کا عمل، عقل فاعل کن اصولوں کی روشنی میں انجام دے پاتی ہے؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ عقل فاعل، ان دونوں مرحلوں میں کام کر رہی ہوتی ہے، لیکن دونوں صورتوں میں اس کے تحرک کی نوعیت جوہری طور پر مختلف ہوتی ہے۔ عقل سائد کے دائرے میں آنے والے سوالات کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

ایک حصہ وہ ہے جس میں عقلی تحرک کی غایت درپیش سوالات کو once and for all طے کرنا ہوتا ہے اور یہ سرگرمی وجودی سطح پر اور urgent ہوتی ہے۔ عقلی سرگرمی کا یہ ہنگامی پن انسانی شعور کی ساخت اور اس کے وجودی احوال، دونوں سے پیدا ہوتا ہے۔ انسانی شعور زندگی کی معنویت سے متعلق کچھ بنیادی سوالات کا فوری اور فیصلہ کن جواب چاہتا ہے اور اسے زیادہ لمبے عرصے تک موخر رکھنے کا تحمل نہیں کر سکتا۔ تاخر کا یہ مرحلہ وجودی بے چینی کا مرحلہ ہوتا ہے جسے مستقل طور پر برداشت کرنا شعور انسانی کی طاقت سے باہر ہے۔ پھر اپنے وجودی احوال کے لحاظ سے انسان کو ٹھوس مادی نوعیت کے مطالبات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اور ان کے روبرو اپنی سعی وکاوش کو رو بہ عمل کرنے کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے کہ بنیادی سوالات کا ایک متعین جواب طے کیا جا چکا ہو۔

پس ایک تارک الدنیا سادھو یا ایک محو تفکر فلسفی تو یہ کر سکتا ہے کہ ہمیشہ ان سوالات پر مراقبے کی کیفیت میں رہے، لیکن معاشرت کی سطح پر زندگی کا تسلسل قائم رکھنے کے تقاضے بنیادی سوالات کے حوالے سے indeterminacy کی کیفیت میں پورے نہیں کیے جا سکتے۔ چنانچہ اس مرحلے پر عقل فاعل مجبور ہوتی ہے کہ سوالات کا ایک جواب طے کرے اور پھر اسے ’’مفروغ عنہ’’ قرار دے کر اگلے مراحل کی طرف متوجہ ہو جائے جو لامتناہی اور تسلسل وتغیر سے عبارت ہیں۔ جوابات کا یہ مجموعہ ’’عقل سائد’’ کا وہ بنیادی حصہ قرار پاتا ہے جو اگرچہ عقل فاعل ہی کی سرگرمی سے وجود پذیر ہوتا ہے، لیکن خود عقل فاعل انھیں ایک دفعہ طے کر کے اور مابعد کی ساری سرگرمیوں کے لیے بنیاد کا درجہ دے کر آگے بڑھ جانا چاہتی ہے، اس لیے اسے ایک الگ کیٹگری شمار کرنا منطقی اصولوں کا ایک لازمی مقتضا ہے۔

عقل سائد کے دائرے میں تصورات ومسلمات کا دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جس کی تشکیل پہلے حصے کی طرح urgent نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے ایک طویل تاریخی سفر طے کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثال کے طور پر عالم غیب پر یقین، انسانی معاملات کا کسی ماورا ہستی کے ارادہ ومنشا کے تابع ہونا اور موت کے بعد کسی نہ کسی صورت میں زندگی کے تسلسل وغیرہ جیسے تصورات اگر عقل سائد کے پہلے دائرے سے متعلق ہیں تو انسانی معاشرت کی تنظیم کی بنیاد بننے والے مختلف تصورات اور اصول واقدار کو ہم عقل سائد کے دوسرے دائرے میں شمار کر سکتے ہیں جنھوں نے معاشرت کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ خاص شکل اختیار کی ہے اور بسا اوقات صدیوں کے سفر کے بعد ان تصورات کے مجموعے نے وہ خاص سانچہ بنا دیا جسے کسی قوم یا تہذیب کا امتیازی انداز فکر یا طرز زندگی سمجھا جاتا ہے۔

دوسرا سوال جو ہماری موجودہ گفتگو کے سیاق میں بہت بنیادی اہمیت کا حامل ہے، یہ ہے کہ ’’عقل سائد’’ کی تشکیل کے لیے وہ کون سے شعوری وسائل ہیں جو عقل فاعل کو دستیاب ہوتے ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جو ان شعوری وسائل کی مدد سے متعین جوابات تک پہنچنے کے عمل کو ایک خاص رخ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں؟ خاص طور پر یہ کہ انسانی شعور کے عمومی وسائل وآلات (وجدانی احساسات، جذبات، منطقی تصورات، محسوسات وتجربات) کے علاوہ مذہبی علم یا وحی کا اس میں کیا کردار ہو سکتا ہے یا تاریخی طور پر رہا ہے اور اس خاص ذریعہ علم کی، عام انسانی ذرائع علم کے ساتھ تعامل کی نوعیت کیا ہے؟

اس سوال کا جواب ٹھیک طریقے سے سمجھ لینا ہماری رائے میں اس اختلاف کے ممکنہ حل کی بھی ایک کلید فراہم کرتا ہے جو عقل وشرع کے باہمی تعلق کے حوالے سے مسلمان متکلمین کے مابین پایا جاتا ہے۔ ہماری رائے میں اس بحث میں عقل سائد اور عقل فاعل کا امتیاز بہت بنیادی ہے اور اس نکتے پر کماحقہ توجہ نہ دیے جانے کے باعث یہ سوال اسلامی علمیات میں کافی الجھ سا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے