جھوٹ بےنقاب،جھوٹےبھی

سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو جعلی نکلی، سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کیس نمٹا دیا۔ سپریم کورٹ میں یہ کارروائی گزشتہ روز (13 جنوری) ہوئی لیکن عمومی طور پر میڈیا نے یا توشرماتے شرماتے اس خبر کو نشر شائع کیایا یہی بہتر سمجھا کہ اس خبر کو پی ہی لیا جائے۔ کچھ بڑے بڑے اخبارات نے اس کو شائع کرنا ہی گوارا نہ سمجھا۔اس خبر کے ساتھ میڈیا کے ایسے رویّے کی وجہ صحافتی اصول تو یقیناً نہیں ہوسکتے لیکن شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا اُس وڈیو کو آج جھوٹا کس طرح لکھے یا بتائے جس کو کئی ہفتوں تک ایک سچ کے طور پر وہ پیٹ پیٹ کر پوری دنیا کے سامنے پیش کرتا رہا اور جس کے نتیجے میں سوات میں ملٹری آپریشن کا رستہ ہموار ہوا۔

ایک وڈیو جس نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا، ایک وڈیو جس نے سوات کے امن معاہدے کو تباہ وبرباد کیا، ایک وڈیو جس کے بہانے مغرب زدہ موم بتی بریگیڈ نے اسلامی سزائوں کو ہی نشانہ بنایا، ایک وڈیو جس نے کئی این جی اوز کو مالامال کر دیا، ایک وڈیو جس کی بنا پر ریٹنگ کے بھوکے ٹی وی چینلز اور اینکرز کو ایک لمبے عرصہ تک قوم کو بے وقوف بناتے رہے، وہ جعلی نکلی۔ وہ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئی۔ لیکن نہ کسی اخبار میں شہ سرخی چھپی اور نہ ہی کسی چینل میں اس کو lead اسٹوری کے طور پر لیا گیا۔

[pullquote] خبر ایسے دی گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ کسی اینکر نے اس خبر پر ٹاک شو بھی نہ کیا۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سے اُس شرمندگی سے بچنا چاہتےہوں جس کا اُن کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سامنا ہے۔ وجہ جو بھی ہو، یہ خبر جتنی بھی چھوٹی شائع کی گئی لیکن اس خبر نے میڈیا کے کھوکھلے پن کو بےنقاب کر دیا۔ ایسا بھی نہیں کہ پہلے اس ویڈیو کے جعلی ہونے کا کسی کو علم نہ تھا۔
[/pullquote]

2009 میں جب یہ ویڈیو سامنے آئی تو اُسی وقت اس کے جعلی ہونے کے بارے میں بھی شواہد آنے لگے بلکہ اُس وقت کی صوبائی حکومت کے چیف سیکرٹری نے سپریم کورٹ میں پیش ہوکر بھی اس ویڈیو کے جعلی ہونے کی بات کی لیکن اس بات کو دبایا گیا اور اُس جھوٹ کو مسلسل اچھالا گیا جس نے پرامن ذرائع سے سوات کا مسئلہ حل کرنےکی سنجیدہ کوشش کوسبوتاژ کیا۔یہ کوئی غیر ملکی سازش تھی یا نہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن کتنا اچھا ہوتا کہ اس جھوٹ کا پول کھلنے کے بعد سپریم کورٹ یہ حکم صادر فرما دیتی کہ حکومت کھوج لگائے کہ اس جعلی وڈیو کے پیچھے کون کون شامل تھا اور اُن کے مقاصد کیا تھے۔ کس نے کتنا پیسہ بنایا۔

[pullquote] جمعرات کو جنگ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سوات میں طالبان کی جانب سے ایک خاتون کو بغیر محرم گھر سے نکلنے کی پاداش میں کوڑے مارنےسے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سوات پولیس کی جانب سے وڈیو فلم کو جعلی اور بے بنیاد قرار دیے جانے کی بنا پر کیس کو نمٹا دیا۔خبر کے مطابق ڈی پی او سوات نے اپنی رپورٹ میں مبینہ واقع پر تفتیش سے آگاہ کیا جس میں بتایاگیا کہ چاند بی بی نامی خاتون اور اس کے خاوند کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ164 کے تحت بیان بھی قلمبند کروایا گیا جس میں انہوں نے ایسے کسی بھی واقعہ کے رونما ہونے کی تردید کی ہے جبکہ اس حوالے سے پولیس کو اور بھی کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیں ملا، جس پر ایف آئی آر ختم کر دی گئی ہے۔
[/pullquote]

2009 میں جب اس وڈیو کو نشر کیا گیا تو ٹی وی چینلز نے بغیر کسی تحقیق کے اس جھوٹ کو ایک سچ کے طور پر نہ صرف پیش کیا بلکہ اس کے بہانے موم بتی بریگیڈ کے کچھ نمائندوں کو ٹی وی پر آکر اسلامی سزائوں کو ہی نشانہ بنانے کا موقع فراہم کیا۔ کچھ ایسے ہی تبصروں کو سن کر میں نے اُس وقت جیو نیوزپر اپنی بات کی، اس وڈیو کے اصل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ سوال اٹھایا کہ کیا واقعی یہ سزا سوات میں قائم نئے نظام کا نتیجہ تھی یا نہیں، کیا سزا کےلیے متعین اسلامی شرائط کو پورا کیا گیا یا نہیں؟ میں نےاپنے تبصرہ میں کہا کہ اگر تمام اسلامی اصولوں اور شرائط کو پورا کیا گیا تو پھر اسلامی سزائوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس موقع پر میں نے سورۃ النور کی ابتدائی چند آیات کا اردو ترجمہ سنایا جن میں بدکاری کرنے والے مرد اور عورت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کوڑوں کی سزا کا حکم دیا اور شہادت کے بارے میں اصول وضع فرمائے۔ میرا نکتہ یہ تھا کہ اس وڈیو جس کی حقیقت سے ہم واقف نہیں اُس کے بہانے اسلامی سزائوں کو بُرا بھلا مت کہیں۔ جیسے ہی میں نے یہ کہا مجھے انتہائی سخت ردعمل ملا۔ مجھے گالیاں دی گئی، مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں نے سوات میں طالبان کی طرف سے خاتون کو کوڑے مارنے والے ظلم کی حمایت کی حالاں کہ میں نے اُس شدید اور یک طرفہ پروپیگنڈہ کے بیچ صرف اللہ کی بات کی جس پر مجھے تمام تر مخالفت ، گالیوںکے باوجود اُس وقت بھی ٖفخر تھا اور آج بھی میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے میرے رب نے وہ بات کرنے کی توفیق دی ۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے