جی کا جانا ٹھہر گیا

اُن کے آنے کی سرگوشیاں ، میاں صاحب کے جانے کی باتیں ، کوئی سوچ تو کوئی خواہش کے مطابق کڑیوں سے کڑیاں ملا تا ہوا، آپریشن ضرب عضب جنگ سے بڑ ھ کر نظریہ بن گیا تومیاں صاحب کا پارہ بھی چڑھ گیا۔پانامہ کے ہنگامے نے وزیر اعظم کا اشتعال عروج پہنچایا تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔

میاں صاحب کے قوم سے سرکاری ٹی وی پرپہ در پہ خطاب، جو حساب مانگنے نکلے ہیں ان سے حساب کتاب کی بات ،،عسکری ادارے کی جانب سے فوراً سے پہلے عملی جواب، گیارہ فوجی افسران کو کرپشن میں ملوث ہونے پر گھر بھیج دیا گیا۔ وزیر اعظم نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا یادوستوں نے مشورہ دیا ، ایک بار پھر لڑ کرجانے کی ٹھان لی۔ اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے جلسوں کا سہارا لے لیا اور جذبات سے مغلوب خطابات ، مانسہرہ میں تو لگتا تھا میاں صاحب کی آواز ہی بھر آئی ،اور بناء کہے بہت کچھ کہہ دیا ،کس طرح انہیں بند گلی میں دھکیلا جا رہا ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یعنی انہیں ایک بار پھر وقت سے پہلے گھر بھیجا جا رہاہے۔ لیکن ملین ڈالرسوال یہ ہے کہ کیا میاں صاحب کوواقعی بھیجا جا رہا ہے یا وہ خود جانے کی ٹھوس منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟؟

اقتدار سے بڑھ کر کوئی نشہ نہیں،لیکن پانالیکس کے انکشافات کی اگر شفاف تحقیقات ہوں تو میاں صاحب اور ان کے خاندان کا بچنا نہ ممکن نہ سہی تو مشکل ضرور ، مگر تحقیقات شفاف ؟ موجودہ حالات میں جن کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ آف شور کمپنی بنانا جرم ہے نہ یہ کام ناجائز ،میاں صاحب اور ان کے خاندان سے بھی بس ایک سادہ ساسوال پوچھا جا رہا ہے ،آف شور کمپنیوں میں لگایا گیا سرمایہ پاکستان سے منتقل کس ذریعے سے کیا، ذریعہ اگرجائز ہے تو بات ختم،، فارنزک آڈٹ ٹیم اسی کا سراغ لگائے گی مگر میاں صاحب فرانزک آڈٹ سے صاف انکاری ۔صورتحا ل عمران خان کے لیے تو قدرت کا تحفہ تھی ہی پیپلز پارٹی بھی کسی قدر ہچکچاہٹ کے ساتھ اس میں کود پڑی ، کودنے کے سوا چارہ بھی کوئی نہ تھا۔پنجاب ہاتھ سے مکمل نکل جاتا اور میاں صاحب سے تعاون کے باوجود مشکل وقت میں ساتھ نہ دینے کا حساب بھی چکانا تھا۔بی بی شہید اس دنیا میں رہییں نہیں اور رحمان ملک کی قربانی پیپلز پارٹی کی نئی قیادت کو منظور۔آصف زرداری کا نام فی الوقت آف شور کمپنیوں میں نہیں،تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو جو ملے وہ حاصل ہوگا میاں صاحب بھی مگر اناڑی نہیں، اقتدار ایک با رپھر ہار لیں گے مگر اپنی اولاد کی سیاست اور ان کاسیاسی مستقبل ہر گز نہیں۔تین بار وزیر اعظم بننے کے بعد اب نواز شریف کی نظریں مریم نواز پر ہیں باوجود خادم اعلی اور بھتیجے کے تحفظات کے،مریم نواز کے سیاسی وارث کی حیثیت سے نمودار ہونے کے بعد سے ہی جن کے تیور بدلے بدلے سے ہیں۔

ایسے میں مستقبل کا منظر نامہ ہر گزرتے دن کے ساتھ واضح ہوتا جا رہا ہے،میاں صاحب عوامی رابطہ مہم پر نکل پڑے ہیں ۔ تقریریں بتا رہی ہیں میاں صاحب نے اگر بوٹوں کی چاپ نہ بھی سنی ہو قبل از انتخابات میں جانے کی تیاری جان بوجھ کر ہی کر لی ہے۔ توانائی بحران پر قابو پانے کی ہر سال نئی تاریخ اور اب تک بجلی کا کوئی بھی بڑا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچنا جنوبی پنجاب میں اربوں روپے کے سولر منصوبے کی مکمل ناکامی، نندی پورپاور پراجیکٹ کا حال اور لوٹی ہوئی دولت واپس لاکرقوم کے قدموں پر نچھاور کرنے کا وعدہ ۔بیرون ملک پڑا اربوں روپیہ تو واپس نہ لایا جا سکا ہاں مگر پانامہ لیکس نے لے جانے والوں کی فہرست میں شریف خاندان کو سب سے آگے ضرور لاکھڑا کیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ہونے والے انکشاف نے تو قوم کے ہوش ہی اڑا دئیے، جولائی انیس بانوے میں وزیر اعظم نواز شریف کے دور حکومت میں قانون بنایا گیا کہ ملک سے پیسہ باہر لے جانا ہے تو صرف ایک فارن کرنسی اکاونٹ کھولیں، اس اکاونٹ میں اربوں روپیہ ڈالیں اور چپ چاپ بیرون ملک ٹرانسفر کر دیں لیکن اگر آپ اسٹیٹ بینک سے اجازت لیکرکریں گے تو پھرپانچ لاکھ ڈالر تک۔ اس سے اندازہ خود کرلیجیے کہ انیس سو ترانوے میں لندن کے مے فئیر اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے ایک سال پہلے منصوبہ بندی کس چالاکی سے کی گئی۔ ہر روز گرتی برآمدات اور محصولات میں کمی بتا رہی ہے کہ تین سالوں کے ریکارڈ قرضوں اور پٹرول مصنوعات پر فی لیٹر تیس سے پینتیس روپے ٹیکس عوام کی جیبوں سے نکالنے سے یہ ملک نہیں چلے گا۔اسپتالوں میں مریض دوا کے بغیر اور بچے کبھی وینٹی لیٹرتو کبھی آکسیجن کے مر رہے ہیں مگر ڈیڑھ سو ارب روپے کا اورنج ٹرین منصوبہ صرف ایک شہر لاہور کے لیے ضرور بنے گا۔

تیز رفتار ترقی کے لیے بہت سے شعبوں کامساوی ترقی کرنا ضروری ہے مگر ترجیحات لازم ۔ گھرمیں کھانے کو دانے نہ ہوں اور آپ گلی پکی کرنے نکل جائیں تویہ خود کشی ہوگی،، انتخابی مہم کے دعووں کی فہرست عوام بھول بھی جائیں تو میڈیا چینلز الیکشن سے پہلے صبح شام ضرور یاد دلا دیں گے،،دو سال اور گزر گئے تو قوم سب وعدوں سب دعووں کاحساب مانگے گی مگر تین سال بعد ہی میاں صاحب ایک با رپھرسیاسی شہید ہوں گے تو مظلوم کہلائیں گے اور پھر ملک کے کونے کونے میں ان نوحہ ہوگا جس پر مریم نواز کے اقتدار کی عمارت تعمیر ہو سکے گی، بے شک اس بار نہ سہی اگلی بار ، میاں صاحب کو یہ بھی قبول۔لیکن اگر یہ سب ناکامیاں اور پانامہ کی شفاف تحقیقات شریف خاندان کے گلے پڑ گئیں توق لیگ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔

دوسری جانب یا رلوگ بھی براہ راست اقتدار پر قبضے کی غلطی کبھی نہیں کریں کیونکہ کچھ سبق ماضی سے وہ بھی سیکھ چکے، کتنے برس ، زیادہ سے زیادہ ایک اور پھر وہی مسائل کے انبا ر ،ہاتھ پاوں مارتے ہیں اور بالآخرموقع کی طاق میں بیٹھے ناکام سیاست دان ہی بروئے کار آتے ہیں ۔چند سال گزرتے ہیں توآئین توڑنے کا داغ ماتھے پر سجا کر اور آنے کے دہائیوں پر محیط اثرات چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

ضرب عضب کی کامیابی اور قربانیاں لائق تحسین،کراچی میں سیاست ،جرم اور راء کا گٹھ جوڑ بے نقاب کرنا قابل تعریف مگر یہ بھی سچ کہ ملک میں انتہاپسندی کے بیچ نواز شریف نے بوئے نہ بے نظیر بھٹو شہید نے،ایم کیو ایم سے لیکر طالبان تک یہ دین مختلف ادوار میں آنے والے ہمارے انہی مالکوں کی ہے جن کی فلم ،،مالک،، میں سیاستدانوں کو تمام مسائل کا ذمہ دار دکھایا گیاہے۔ اس ساری صورتحال میں فوج کبھی بھی براہ راست مداخلت کی غلطی نہیں کرے گی لیکن حکومت پر دباو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جائے گا۔ حکومت نے گورننس کو بہتر بنانے کے بجائے توجہ صرف میٹرو اور اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبوں پر مرکوز رکھی جہاں چار چھ ارب روپے ریٹ دو چار روپے اوپر کرنے سے ہی اندر ہوجاتے ہیں تو جنرل راحیل شریف ،جنرل پرویزمشرف نہ بھی بنے تو جنرل وحید کاکڑ ضرور بن سکتے ہیں اور وزیر اعظم نواز شریف اس کام کے لیے تما م تر منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ ہوا نے اپنا رخ نہ بدلا تو2017 پاکستان میں عام انتخابات کا سال ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے