حالانکہ میں تو مسافر تھا

میں ایک مسافر ہوں اور میرا کام ہی بس چلتے رہنا ہے ، اپنی چشم تصور سے ہی میں بہت سی مسافت طے کر لیتا ہوں ۔ میری منزل تو بہت دور ہے لیکن میرے راستے میں کئی ایسے مقام آئے ہیں جن پر میں رک بھی سکتا تھا لیکن وہ کیا ہے ناں کہ میں بےحس ہوں ، میں اس معاشرے کا ایک مردہ مسافر ہوں ۔۔ایک مردہ معاشرے کا ایک ایسا مردہ فرد ہوں جو مکالمے پر یقین تو رکھتا ہے لیکن مکالمے کی اجازت نہیں رکھتا ۔

میں صرف تبدیلی چاہتا ہوں لیکن تبدیلی کے لئے ماحول سازگار نہیں بناتا ، تبدیلی قبول نہیں کرتا ، میں ٹریفک حادثوں کو دیکھتا ہوں ، قتل و غارت دیکھتا ہوں لیکن اخبارکے ساتھ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہوں ۔ خیر ذکر ہے میرے سفر کا ،میرے سامنے والی گلی میں ایک فرقہ دوسرے کے خلاف نعرہ بازی کر رہا ہے ، پولیس بے بس سی نظر آرہی ہے ، میرا بچہ مجھے کہہ رہا ہے کہ بابا آپ باہر نہ جانا کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچا دے ، معصوم نادان ہے میرا بیٹا اسے کیا پتہ کچھ دیر کے بعد گلی سنسان ہو جائے گی کوئی کچھ نہیں کہے گا دو چار بندے مریں گے اور بس ختم ۔۔

کچھ دیر کے بعد آگے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جوڑے کو غیرت پر قتل کے نام پر مارا جا رہا تھا گولی چل رہی تھی ، اب میں اتنا بھی غیرت مند نہیں ہوں کہ اسکی مدد کرتا ، بھئی اپنی مرضی سے شادی اس معاشرے میں کی ہے تو اب بگھتو بھی ۔۔اب میرا وہاں کیا کام رہ جاتا تھا ؟ سو میں چلتا ہی رہا ۔

میرا قصور یہ ہے کہ میں اس معاشرے کی تو شکایت کرتا ہوں لیکن خود کو تبدیل نہیں کرتا ، مسافروں کی طرح ہر نئے اسٹیشن پر چند لمحے انتظار کر کے چلا جاتا ہوں ۔۔لیکن دو واقعات میرے رونگھٹے اڑا دینے کے لئے کافی ہیں ایک معصوم آٹھ سال بچی کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی میری ریڑھ کی ہڈی میں فورا سنساہٹ سی ہو رہی تھی ، سو فورا وہاں سے نظریں چرا کر دوسری جانب نگاہ کی تو بہت سے شامی معصوم بچے گولیوں اور میزائلوں کی زد میں تھے ۔۔۔میں ہوں تو بے حس ہی لیکن اب تک شاید آپ یہ نہیں جان پائے کہ اب میری آنکھوں کے کونوں سے کہیں دو آنسو آکر ٹھہر سے گئے ہیں اورمیں یہیں رک گیا ہوں ۔۔۔حالانکہ میں تو مسافر تھا ناں ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے