حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ کے چند اہم ادوار

اللہ تعالی نے اپنے لطف و احسان کے ذریعے اپنے حبیب، صادق و امین نبی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری ہدایت رہنمائی کے لیے ہماری طرف بھیجا۔ اس عظیم الشان و بابرکت ہستی نے اپنی مختصر مدتِ رسالت میں عالم انسانیت کو وحی الہٰی اور عمل صالح کے ذریعے بے مثال پیغام پہنچایا۔ خلق عظیم کی بدولت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی محبت ، الفت اور رحمت کے پیغام سے سرشار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو ہمیشہ وحدت و الفت کی تاکید فرمائی۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے؛

” امت مسلمہ ایک جسم واحد کی مانند ہے کہ جب کسی ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے ”

ولادت با سعادت اور برکات
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں لیکن اس بات پر متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ایک عام الفیل سن 570ء میں ربیع الاول کے مبارک مہنیے میں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے ۔ مسلمان آج بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے عظیم اصولوں کو اپنے ساتھ رکھ کر اتحاد کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں۔ اپل تشیع اور اہل تسنن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے موقع پر ہفتہ وحدت مناتے ہیں کیونکہ اکثر اہل تسنن علماء و مورخین کے نزدیک آپ کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول ہے جبکہ اکثر اہل تشیع علماء کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت 17 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔ ان دونوں تاریخ کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا یہ نام اس سے پہلے کسی نے نہیں رکھا تھا۔

بچپن اور آپ کی تربیت
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں گذرا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پاچکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔اس وقت عرب کا رواج تھا کہ جو بھی بچہ پیدا ہو اسے کسی اور قبیلے کے حوالہ کردیتے تاکہ وہ اس ماحول سے فصیح عربی سیکھے اور کھلی آب وہوا میں صحت مند بن جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ مدت ایک قبیلہ کےساتھ بسرکی-جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔

چھ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا بھی وفات پاگئے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت ابوطالب نے لے لیا۔

کامیاب تجارت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی گئی تھیں۔ اس نے حضرت ابو طالب کو بتایا گیا کہ اگر شام کے یہود و نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے تو حضرت ابو طالب نے سفر متوی کر دیا اور واپس مکہ آگئے

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حجاز سے شام کی جانب لوگوں کا مال تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تقریباً 25 سال کی عمرمیں شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے آپ کو ایک ایماندار اور کامیاب تاجر ثابت کیا۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ یہ باتیں سن کر حضرت خدیجہ بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے مشورے سے قبول کرلیا ۔

بعثت اور وحی کا سلسلہ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی۔ پہلی وحی میں قرآن مجید کے سورہ علق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئی۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً چالیس برس تھی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ظاہری طور پر بھی تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے پہلے تو مخالفت کی مگر بعد میں کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔

شعب ابی طالب اور عام الحزن
[pullquote]جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مختلف قبائل نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لیئے خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ چونکہ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جائے گااس خوف سے قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ اللہ کے علاوہ تمام حروف دیمک کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ اس معاشرتی حصار بندی کے عالم میں619ء کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب ؑ انتقال فرما گئے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔
[/pullquote]

معراج
27 رجب المرجب 620ء میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے اس سفرکے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ سے مسجد اقصی تک لے جایا گیا۔ معراج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کا عروج و کمال ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ ا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجدِ اَقصیٰ تک بلکہ بلند مقاماتِ جلیلہ تک لے جایا گیا اور مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔ معراج کا عظیم سفر قرآن کریم کے سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں یوں بیان ہوا ہے۔

پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) بعض نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے(۔سورۃ بنی اسرائیل آیت1)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے