خوابوں کی دنیااور حقائق

فرمایا نَح±نُ نَقُصُّ عَلَی±کَ اَح±سَنَ ال±قَصَصَِ۔۔۔ (یوسف:3) فرمایا ہم آپ پر بہت خوبصورت قصہ بیان فرماتے ہیں اس لئے کہ یہ قرآن ہم نے بذریعہ وحی آپ ﷺ پر بھیجا اس قصے میں حسن بھی ہے ،خوبصورتی بھی ہے اور یہ آپ ﷺ کی نبوت پہ دلیل بھی ہے اس لےے کہ نزول وحی سے پہلے توآپ ﷺاس کو نہیں جانتے تھے جوسوال کرنے والے ہیں ان کے پاس تو اس کے چند اشارات پہلے سے موجود تھے جو تورات میں پڑھ لیتے لیکن آپﷺ نے تو نہ توریت پڑھی نہ قصہ گو کی کوئی بات سنی نہ آپﷺ نے تاریخ پڑھی نہ کسی انسان سے کچھ سیکھا تو اس واقعہ کے بارے آپﷺ کے علم میں توکوئی چیز نہیں تھی آپ ﷺاس سے واقف نہیں تھے یہ بذریعہ وحی مفصل اور بہترین خوبصورت قصہ اپنی پوری تفصیل کے ساتھ آپ ﷺپرنازل فرما دیا گیا یہ تفصیل سوال کرنے والوں کے پاس بھی نہیں ہے کہ بغیر کسی انسان سے سنے جب یہ اس قدر خوبصورت بات ہے اور اس طرح آپ ﷺ پر نازل ہو گئی یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ آپ ﷺ پر اﷲ کی وحی نازل ہوتی ہے اور آپ ﷺ اﷲکے سچے نبی او ر رسولﷺ ہیں مفسرین کرام نے اس پربڑی خوبصورت بحث فرمائی ہے کہ احسن القصص ہے قصوں میں سے بہت خوبصورت قصہ ، کہانیوں میں بہت خوبصورت کہانی ،واقعات میں بہت خوبصورت واقعہ۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ا ﷲ کے دو نبی ؑ آزمائش میں ڈالے گئے حضرت یعقوب ؑ بھی اور حضرت یوسف ؑ بھی حضرت یعقوب ؑ سے بیٹا بچھڑ گیا اس کی جدائی کا غم اور برسوں ا نہوں نے اتنا غم کھایا کہ رو رو کے ان کی آنکھیں سفید ہو گئیں وَاب±یَضَّت± عَی±نٰہُ مِنَ ال±حُز±ن(یوسف:84µµµ) دکھ اور پریشانی میں رو رو کر ان کی بینائی جاتی رہی۔

حضرت یوسف ؑ کو بھائیو ں نے کنویں میں ڈال دیا و ہ مصیبت الگ، جنہوں نے نکالاانہوں نے غلام بنا کر بازاروں میں جا بیچا جنہوں نے خریدا انہوں نے پالا پھرانہوں نے الزام لگا کر جیل بھیج دیا قید وبند کی مصیبتیں الگ جبکہ اﷲ کریم فرما رہے ہیںکہ خوبصورت قصہ ہے اَح±سَنَ ال±قَصَصِ اس میں حسن کس بات کا ہے ؟ دو اﷲ کے مقبول بندے ،دو اﷲ کے نبی ؑ آزمائش میں ڈالے گئے دونوں نے برسوں تکلیفیںاور بہت دکھ اٹھائے ۔فرماتے ہیں اﷲ کا کلام بااعتبارانجام اور نتیجے کے بات کرتا ہے اور کرنی بھی چاہےے واقعہ کیا گزرا اس کو چھوڑدیں اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ تو جس نبی ؑ کا آپ ذکر کر رہے ہیں یعنی حضرت یعقوب ؑ کا وہ دکھی ہوئے لیکن کیااتنے برسوں میںانہوں نے اپنا دکھ کسی انسان کے سامنے پش کیا ؟ہر لمحہ اِنَّمَآ اَش±کُو±ا بَثِّی± وَحُز±نِیٓ± اِلَی اللّٰہ (یوسف:86µµµ)میں اپنے دکھ اپنے اﷲ سے بیان کرتا ہوں تمہیں تو کچھ نہیں کہہ رہا میرے پریشان ہونے سے تمہیں تو کوئی پریشانی نہیںمیں کسی انسان کو تو نہیں کہہ رہا اور دوسری طرف حضر ت یوسف ؑ کنویں میں رہے یا بازار میں بکے یا جیل میں گئے ان کا سارا تعلق اﷲ کریم سے رہا نتیجہ یہ ہوا جتنے دکھ آئے اتنا تعلق بااﷲاور واضح اور روشن ہوتا چلا گیا اس اعتبار سے فرمایا کہ یہ بہت خوبصورت کہانی ہے اس کا نتیجہ بہت خوبصورت ہے نَح±نُ نَقُصُّ عَلَی±کَ اَح±سَنَ ال±قَصَصِ ہم آپ پر کہانیو ں میں سے، قصوں میں سے ایک قصہ بااعتبار نتائج کے۔آپ بہت خوبصورت لباس پہنتے ہیں، بڑا قیمتی لباس پہنتے ہیں اس لباس سے پورے جسم پر خارش شروع ہوجاتی ہے اسے آپ اتار کر بلکہ اتارنے کی بھی دیر نہیں لگائیں گے پھاڑکر پھینک دیںگے قیمت میں کم سہی خوبصورتی میں کم سہی ایسا لباس پہنتے ہیں جوجسم کو آرام دیتا ہے تو وہ آپ کو اچھالگے گا پسند آئے گا تو پھربااعتبار نتیجے کے توحسن اسی میں ہوا کہ اس نے جسم کو راحت دی تو واقعات کو قرآن کریم نتیجے کے اعتبار سے خوبصورت اور حسین کہتا ہے کہ جس کے نتیجے میں وصال الہٰی نصیب ہو گیا تو وہ توبہت خوبصورت واقعہ ہے اِذ± قَالَ یُو±سُفُ لِاَبِی±ہِ یٰٓاَبَتِ اِنِّی± رَاَی±تُ۔۔۔(یوسف:4) حضرت یوسف ؑ کم عمر تھے حضرت یعقوب ؑ کے دو بیویوں میں سے بارہ بیٹے تھے دس بھائی پہلی بیوی میں سے تھے پھر ان کا وصال ہوگیا انہوں نے انہی کی دوسری بہن سے شادی کی جس میں سے دو بیٹے ہوئے حضرت یوسف ؑ اور حضرت بنیامینؑ اورحضرت بنیامینؑ کی ولادت پر دوسری بیوی کا بھی انتقال ہوگیا اب وہ جو پہلی شادی سے بچے تھے وہ جوان ہو گئے، بالغ ہوگئے۔

جب حضرت یوسف ؑ کے ساتھ جب یہ حادثہ ہوا ، مفسرین کرام نے ان کی عمرسات سال لکھی ہے ظاہر ہے بنیامین ؑاس سے بھی چھوٹے تھے ایک تو وہ دونوں بچپن میں ماں کی طرف سے یتیم ہو گئے اس وجہ سے بھی حضرت یعقوبؑ کو پیار تھا پھر حضرت یوسف ؑ کو جو اﷲ نے حسن دیا تھا معراج شریف کی احادیثوںمیں ان کا ذکر موجود ہے حضور ﷺ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ سفر معراج شریف میں حضرت یوسف ؑ سے میری ملاقات ہوئی آدھا حسن اﷲ نے حضرت یوسف ؑ کا عطا کیا اور آدھاحسن ساری مخلوق کو بانٹا اس قدرحسین بھی تھے پھر ان کی پیشانی میں نور نبوت بھی تھاتو بہت سی باتیں ایسی مل گئیں کہ حضرت یعقوب ؑ ان سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے ظاہری بھی اور باطنی بھی دونوں طرف سے اسباب ایسے مل گئے کہ بچپن میں والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو بھی پدری تقاضا تھا کہ جوان اور بالغ بیٹے تو اپنی سمجھ والے اپنے کام والے ہیں تواس ننھے بچوں سے زیادہ پیار کیا جائے ان کی پیشانی میں نور نبوت تھا انبیاؑ ءمیں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم مسلسل چار پشت نبوت ہے حضرت یوسف ؑ ،حضرت یعقوبؑ،حضرت اسحٰقؑ اور حضرت ابراھیم ؑ چاروں اﷲ کے نبی ؑہیںحضرت ابراھیم ؑ اﷲ کے نبی ؑان کے بیٹے حضرت اسحٰق ؑاﷲ کے نبی ؑ ان کے بیٹے حضرت یعقوب ؑاﷲ کے نبی ؑ ان کے بیٹے حضرت یوسف ؑ اﷲ کے نبی ؑ تو حضورﷺ نے فرمایا کریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم او ر غیر انبیاءمیں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو یہ فضلیت حاصل ہے کہ باپ صحابی ؓ خود صحابیؓ ،بیٹے صحابی ؓ ،پوتے صحابی ؓ چار پشت صحبت رسولﷺ اکیلے ابوبکر صدیق ؓ کو حاصل ہے آپ کے والد بھی مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے وہ بھی صحابی ؓ تھے ،خود بھی صحابیؓ تھے بیٹے بھی حضور ﷺ کے رفیق کار تھے بیٹے بھی صحابی ؓ تھے جنگوں میں ہمرکاب رہے اور ان کی اولاد پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بھی صحابی ؓ چار پشت صحبت رسول ﷺ انہیں نصیب ہوئی۔

حضرت یوسف ؑنے اس بچپن کی حالت میں خواب دیکھا خواب کیا ہوتے ہیں ؟ خوا ب کی تین قسمیں ہیں جب آدمی سو جاتا ہے اس کا بدن کام نہیں کرتا بلکہ آرام کرتا ہے اور جو کچھ ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے از خود اس کی مرمت کرتا ہے جتنی ہڈیاں گھس چکی ہیں پھر سالم ہوجاتی ہیں اور جتنے پھٹے کمزور ہوجاتے ہیں پھر طاقت پکڑلیتے ہیں توجتنی دیر بندہ سوتار ہے روح بدن کے انتظام ونصرام ،اہتمام سے فارغ ہوتی ہے جب وہ فارغ ہوتی ہے تو اپنے اصل کی طرف رجوع کرتی ہے جو عالم امر ہے عالم بالا میں ایک عالم مثال ہے اسے عالم مثال اس لےے کہتے ہیں کہ جو کچھ دنیا میں ہوچکا ہے جوہورہاہے اورجوہوگا ہے اس کی مثالی صورتیں وہاں پہلے موجود ہوتی ہیں جوہوچکا ہے وہ بھی عالم امثال میں موجود ہے جو ہو رہا ہے وہ بھی عالم امثال میں موجود ہے جو ہونے والا ہے وہ بھی وہاں موجود ہے توبعض ارواح جومضبوط ہوتی ہیں ایماندار ہوتی ہیں ان میں روحانی قوت ہوتی ہے تووہ کوئی حقیقت عالم امثال سے دیکھ لیتی ہیں بعض اوقات گزشتہ واقعات کی یا حالیہ واقعات کی یا آئندہ ہونے والے کسی واقعے کی کوئی صورت ان کے سامنے آجاتی ہے جب بندہ جاگتا ہے تو وہ اس کے ذہن میں موجودہوتی ہے لیکن یاد رکھیں ہر خواب تعبیر کا محتاج ہوتاہے عالم امثال سے جو انہیں سمجھ آتی ہے وہ اشاراتی زبان ہوتی ہے اب اشارے کی تعبیر کیا ہے ؟ یہ ایک الگ علم ہے جو انبیاءؑ کو عطا کیا گیا حضرت ابراہیم ؑ کے پاس بھی یہ علم تھا ،حضرت اسحٰقؑ کے پاس بھی تھا ،حضرت یعقوب ؑ کے پاس بھی یہ علم تھا خواب کی دوسری قسم یہ ہے کہ جب روح جسمانی ضروریات سے فارغ ہوتی ہے تو اپنا انسانی نفس جو ہے اس میں بھی سب ریکارڈ ہوتا رہتا ہے جو ہم کرتے ہیں جو ہم سوچتے ہیں وہ مختلف شکلیں اسے دکھا دیتا ہے کبھی تو جو کام خود کرتے رہتے ہیں وہ خواب میں نظر آ جاتا ہے کبھی جو سوچیں دل میں ہوتی ہیںکہ میں اس طرح کروں گا، خواب میں اس طرح دیکھ لیتے ہیں ۔

تیسرا خواب ہوتاہے جو شیطان صورتیں متشکل کرکے دکھا دیتا ہے خوابوں کی یہ تین قسمیں ہیں اب ان کی تمیز کرنا مشکل ہے کہ یہ صورت کیا شیطان نے دکھا دی یا نفس نے دکھا دی یا عالم امثال سے ہے؟ کیونکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ یہ تینوں الگ الگ ہی نظر آئیںیہ گڈ مڈ بھی ہوجاتے ہیں کوئی تصویر عالم امثال کی نظر آ رہی ہے اور اس میں اپنا نفس کوئی بات داخل کردے یا شیطان کوئی اپنی بات داخل کر دے تو خواب کی تعبیر ایک باقاعدہ علم ہے جسے علم تعبیر کہتے ہیں جو حضرت یوسف ؑ کو بھی عطا ہوا اور انہی حضرات کی تعبیروں کو لے کر علامہ ابن سرین ؓ کو اﷲ نے یہ وسیع علم عطا فرمایا تھااور بے شمار تعبیرات انہوں نے فرمائیں جو بہت سچ نکلیں لیکن یہ قطعی نہیں ہوتیں علم تعبیر، سوائے نبی ؑ کے کسی دوسرے کا خواب قطعی نہیں ہوتاتو یہ تین قسم کے خواب ہیں کبھی تینوں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں کبھی ایک ہوتا ہے کھبی دوسرااور کبھی تیسرا۔

خواب کی حیثیت کیا ہے ؟ اور شرعی طورپراس پر عمل کس طرح کرنا چاہےے؟ آج کل تو میں ان خوابوں سے بہت پریشان ہوں لوگ پریشان ہیں پریشانی کے عالم میں خواب بھی زیادہ آتے ہیں ذہن الجھا ہوا ہوتا ہے اوراسی طرح سو جاتے ہیں جو الجھنیں ہوتی ہیں وہی خواب میں نظر آتی ہیں ہر بندہ دو صفحہ خط لکھتا ہے کہ یہ ضرور پڑھےے گا یار تم کوئی امام مہدی ہو ،تم کوئی نبی ہو تم کوئی رسول ہو کیوں تمہار ا خواب پڑھیں ؟ ساتھ تاکید، پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ یہ سارا ضرور پڑھےے گا آگے ساری خرافات ہوتی ہیں میں نے گدھے کو دیکھا وہ لتی جھاڑ رہا تھا تو کیا گدھا ڈانس کرے گا وہ لتی ہی جھاڑے گا تو اس طرح کے خواب ہوتے ہیں شرعی قاعدہ جو حضورﷺ نے فرمایا وہ بہت خوبصور ت ہے فرمایا اگر اچھا خواب دیکھو آنکھ کھلے تو کہو الحمداﷲ اور بھول جاو¿ اگر خواب برا، ڈراﺅنا یاخراب ہوتو آنکھ کھلے تو لاحول پڑھو اور بائیں طرف تھوک دو اور بھول جاو¿ اسے لےے لےے نہ پھروہ لوگوں کو نہ بتاتے رہو جب اسے بیان کرو گے اور لوگ سنیں گے تو شاید اس کا کوئی عجیب اثر بھی ہوجائے تو بجائے لمبی لمبی چھٹیاں لکھنے کے خوبصورت خواب ہوتو الحمد اﷲ کہہ کر بھول جاو¿ خراب خواب ہوتو ولاحول پڑھ کر بھول جاو¿ اور عملی اور حقیقی زندگی جو ہے اس میں اپنے آپ کو رکھو خوابوں کی دنیا کے و ہ حقائق کام نہیں آتے ان حقائق پر یقین رکھو کہ حساب کتاب ہو گااس عملی اور اصلی زندگی پر نتائج مرتب ہوں گے اپنے آپ کو اس میں مصروف رکھو سادہ سی بات ہے خواب آیا اچھا تھا الحمد اﷲتو بھلا دو خواب آیا برا تھا ولاحول پڑھ لو اور بھول جاو¿چھ چھ صفحے لکھ کر ایک عالم کو مبتلائے عذاب نہ کروخود بھی پریشان ہوتے ہو اتنی سیاہی بھی خرچ کی اتنے کاغذ بھی اور لگتا ہے اخبار پڑھنا پڑھ گیا ہے چارچار صفحے کیا دیکھا تم نے؟ تمہاری حیثیت کیا ہے ؟تم کیا ہو؟وہ جی میری بیوی نے خواب دیکھ لیا اسے خواب میںسانپ نظر آیا بیوی تیری کوئی نبی ہے یارتیری بیوی ہے تیرے لےے تو بڑی عظیم شے ہے لیکن ایک خاتون ہی ہے نبی تو نہیں ہے اب اس کے خواب کا پیچھا کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے لوگوں کو؟ اب تو اکثر خوابوں میں جیتے ہیں ظاہری زندگی کا ناتکا تو حکمرانوں نے بند کردیا ہے دو چوڑیاں روز ٹائٹ کردیتے ہیں اور خوابوں میں موجیں کرتے ہیں پھر انہی حکمرانوںکو باربارووٹ دیتے ہیں وہ پھر آتے ہیں اوردو چوڑیاں اور کس جاتے ہیں پھر دوسرا آتا ہے وہ تین اور کس جاتا ہے پھر چیختے چلاتے ہیں پھر جب ہوش آتا ہے تو پھر ووٹ انہی کو دیتے ہیں ۔

توخواب کی حقیقت یہ ہے کہ جب آپ تعبیر پوچھیں گے تو ممکن ہے ا س پہ عمل بھی ہو جائے لہٰذااسے بیان نہ کریں اچھا ہے تو الحمد اﷲ اچھا خواب بیان کرو گے تو ممکن ہے کوئی حاسد پیدا ہوجائے ممکن ہے وہ تمہیں تکلیف پہنچا دے خراب خواب بیان کرو گے ممکن ہے اس کی تعبیر بن جائے تومصیبت میںپڑجاو¿خوابوں کو لکھنا پڑھنا اوربیان کرناچھوڑدوخوا ب، خواب ہے سوائے نبی ؑ کے خواب کے۔ اﷲ کے نبی ؑاوررسول کی روح تخلیقی طور پر اتنی مضبوط، اتنی قوی ہوتی ہے کہ جب نبی ؑ مبعوث ہوتا ہے اورنبی ؑ جو خواب دیکھتا ہے تو نبی ؑ کا خواب بھی وحی ہوتا ہے نبی ؑ کو نہ دیکھنے میں غلطی لگتی ہے نہ سمجھنے میں غلطی لگتی ہے حضرت ابراھیم ؑ نے خواب میں دیکھا کہ بیٹے کو ذبح کر رہاہوں جان گئے اﷲ کا حکم ہے ایسا کرنا پڑے گا جب حضرت ابراھیم ؑکو بیٹے کی خوشخبر ی ملی تھی آپ ؑکی عمر مبار ک ایک سو بیس برس تھی اور مائی صاحبہ کی عمر نوے برس تھی اس عمر میں انہیں اولاد عطا ہوئی پھر ذبیح اﷲ جیسا بیٹا جس کی پیشانی میں نور نبوت اپنا بھی ہو اور نور محمد یﷺ کا امین بھی ہو ،خواب دیکھا کہ اسی بیٹے کو ذبح کررہا ہوں اب عجیب بات ہے انبیاءؑ کی باتیں انبیاءؑ تو سمجھ لیتے ہیں غیر نبی کو جب تک نبی ؑ نہ بتائے سمجھ نہیں آتی مائی صاحبہ اﷲ کی مقبول بندی تھیں آپ ؑ نے ان سے خواب نہیں بیان فرمایا کہ وہ تو نبی نہیں تھیںحضرت اسمٰعیل ؑ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّع±ی جب وہ دوڑنے کی عمر کو پہنچے، بچہ دوتین سال کا بھی دوڑ لیتا ہے چار پانچ سال کا بھی دوڑ لیتا ہے اس بچے کو تیار کرکے کہ سیر کوجاتے ہیں، ساتھ لے کر منیٰ کے طرف چلے ا س سے بیان فرمایا :کہ بیٹا میں نے خواب دیکھا ہے میں تجھے ذبح کررہا ہوں حضرت ابراھیم ؑ خواب کی بات کررہے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا ہے میں تجھے ذبح کررہا ہوںجواب میں حضرت اسمعٰیل، ؑ جن کابچپن تھا کہا یٰٓاَبَتِ اف±عَل± مَا تُ¶±مَر ابو جی وہ کر گزرےے جس کے کرنے کا حکم دیا جارہا ہے تو نبی ؑ کی بات نبی ؑ نے سمجھی ابھی ان کا بچپن بھی تھاانہوں نے سمجھا کہ خواب وحی الہٰی ہے میرے والد کو حکم دیا جا رہا ہے اور مجھے خواب سنا رہے ہیں خواب میں ہی دیکھا تو نبی ؑ کا خواب وحی الہٰی ہے تو انہوں نے عرض کی یٰٓاَبَتِ اف±عَل± مَا تُ¶±مَرآپ کر گزرےے آپ کو یہ ڈر ہے کہ میں بچہ ہوں تو نبی ؑ تو ہوں سَتَجِدُنِی±ٓ اِن± شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِی±نَ (37:102 ) آپ مجھے بھی صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
یہ اﷲ کے نبی ؑکا خواب تھا جو نبی ؑ مبعوث ہونے والا تھا انہوں نے خواب میں دیکھا گیارہ ستارے سورج اور چاند مجھے سجدہ کررہے ہیں حضرت یوسف ؑ پانچ چھ سال کے بچے تھے حضرت یعقوب ؑ سے والد گرامی سے عرض کیا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے انہوں نے پہلی بات جو فرمائی فرمایا قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَق±صُص± رُئ± یَاکَ عَلٰٓی اِخ±وَتِکَ میرے بیٹے خواب کو بھول جاو¿ بھائیوں تک کسی سے بیان نہ کرنا جو کچھ آپؑ نے دیکھا ہے تعبیر بعد میں بتائی پہلے یہ نصیحت کی کہ اب اس بات کو بھلا دو گویا تم نے دیکھا ہی نہیں ہے تمہارے سگے بھائیوں کو بھی اس بات کی بھنک نہیں پڑنی چاہےے فَیَکِی±دُو±ا لَکَ کَی±دًا ممکن ہے تمہارے خلاف ہو جائیں،تمہیں تکلیف پہچانے کی کوشش کریں تمہارے لئے کوئی خرابی پیدا کریں کہ اچھا خواب ہوگا تو حاسد پیدا کرے گا برا ہوگا تو لوگ مذاق اڑائیں گے پھر بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ پھر خواب میں ایک یہ خصوصیت بھی ہے کہ جب بیان کردیا جاتا ہے تو ممکن ہے من جانب اﷲوہ واقع ہوجائے تو آپ ؑ نے تاکید فرمائی کہ بیٹایہ خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بھی بیان نہ کرنا ممکن ہے وہ تمہارے خلاف کوئی حیلہ سازی کریں اِنَّ الشَّی±طٰنَ لِل±اِن±سَانِ عَدُوّµ مُّبِی±نµ (یوسف:5) کہ یقیناشیطا ن انسان کا بہت بڑا دشمن ہے وہ انہیں بہکا دے ان کو غلط سوچ دے دے غلط راستے پر لگا دے اور آپ کے لےے بھی تکلیف کا سبب بن جائے اس لئے خوابوں کو لےے لےے نہیں پھرنا چاہےے اور خواہ مخواہ نہیں لکھنا چاہےے حقائق کی دنیا میں زندہ رہنا چاہےے انیباءؑ کے خواب وحی الہٰی ہوتے ہیں ان کی حیثیت اور ہے اور ماوشما کے خوابوں کی حیثیت اور ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے