ماں !آپ کی خوشی میری خوشی ہے

"یار تمھیں کتنی بار کہا ہے کام دھیان سے کیا کرو
کبھی کوئی غلطی کبھی کچہ گڑ بڑ…”

وہ بری طرح سے چلا رہا تھا… اس کا آج کوئی کام بھی سیدھا نہیں ہوا…ابھی کچہ دیر پہلے ہی آفس کے باہر کچہ لڑکوں سے پھڈا ہوا… چائے والے کو کھری کھری سنادی… دماغ اور زبان قابو میں نہیں تھے… دل بھی منہ کو آرہا تھا…

"گھبراہٹ کو ذہنی انتشار کانام دے کر زبان کے ذریعے دوسروں پر نکال دیں تو کیا سکوں ملتا ہے؟؟؟ انسان مطمئن ہوتا ہے…”

اس نے خود سے سوال کیا اور ایک کونے میں الگ جابیٹھا… دوست کہاں آرام سے بیٹھنے دیتے ہیں… سوال در سوال … پر جواب کچہ نہیں…

"جا بھی جا … گهر جا آرام کر… چائے پی… سکون سے ہولے … کل بات کرتے ہیں… بلکہ ٹهہر میں ہی چهوڑ آتا ہوں… آنٹی سے ملے کئی دن ہوگئے …”
ایک دوست نے ہاته پکڑ کر اسے چلنے کو کہا …دوسرے نے پانی پلا کر تسلی دی…
بائیک دوڑی گهر کی جانب …ٹهنڈی ہوا بدن کو تسکین دینے لگی …لیکن روح کی بےتابی اور آگ… اوہ خدا
"پهول … ہائے میری کمزوری”
دوست نے پهول والے کی دکان کے سامنے بائیک روکتے ہوئے کہا اور بالوں کے گجرے خرید لیے …کچه آگے بڑه کر فروٹ اور جوس بهی لیا…
"کیا ہوگیا یار…تو مجهے گهر چهوڑنے نکلا ہے یا شاپنگ کرنے، بیوی کے نخرے بعدمیں اٹها لینا”… اس نے خفگی سے کہا اور دوسری طرف منہ کرلیا…
"اوئے چل منہ نہ بسور… یہ سامان پکڑ… دماغ گهوم رہاہے ہاته تو سلامت ہیں… چل یہ لے ”
وہ ایک بار بائیک ہوا کے دوش پر اڑا رہا تها
گهر کے دروازے پر رک کر گهنٹی بچائی… لمحے بهر میں ہی دروازہ کهلا اور وہ اندر…
"ابے یار گهر میرا ہے اور اندر تو گهسا چلا آرہا ہے، طبیعت میری ٹهیک نہیں ”
دوست کو اپنی ماں سے چمٹا دیکه کر اس کا خون جیسے کهول گیا…وہ قدرے چلایا… اور اپنے کمرے کی طرف بڑها…بستر پر چت لیٹا آنکهیں موند لیں..
دنیا سے بیزار … آزادی کا خواہاں

تهوڑی دیر میں نحیف اور مسحور کردینے والی آواز نے روح پر مرہم کا پهایا رکها…
"نمیر … بیٹا کچه کهالو… تم نے صبح انڈا بهی پورا نہیں کهایا دوده نہیں پیا …
اخبار بهی یونہی پڑا ہے کهانے کی میز پر…
لو سیب کاٹ دیا… کهالو…
یہ دیکهو عالی میرے لیے کیا لایا ہے… کتنے پیارے ہیں یہ”
کچه دیر بول کر وہ کمرے سے اداس چہرہ لیے باہر آگئی…

"نمیر سو گیا … کل رات دیر تک جاگا صبح دیر سے اٹها ناشتا بهی نہیں کیا…میں نے کہا صحت خراب ہو جائے گی تو غصے میں اٹه کر چلا گیا… میں بهی عادت سے مجبور ہوں ہر وقت پیچهے ہی پڑی رہتی ہوں… مر جاوں تو اس کو بهی سکون ہو اور مجهے بهی ”
ماں کے منہ سے یہ الفاظ سن کر اور نمیر کی حرکتیں، حالت دیکه کر عالی سب سمجه گیا

ماں کے قدموں میں بیٹه کر خاموشی سے ہر بات سننے لگا…”نمیر کو بچپن سے ہی ناشتے میں انڈا کهانا پسند ہے کبهی مجهے دیر ہوجاتی تو اسے وین میں کهانے کو دیتی لنچ بنا کر برگر میں رکه دیتی… تاکہ بهوک بهی مٹ جائے اور خوش بهی رہے…”
عالی … ماں کی گود میں سر رکه چکا تها… ایک ماں بیٹے کی محبت اور یادیں سنتا رہا… اچانک ماں نے زانو پر نمی محسوس کی تو پوچه بیٹهی… "تو کیوں روتا ہے، میں ہوں تیری ماں، کچن سے جوس لے کر آو، ہم دونوں ماں بیٹے پیتے ہیں”

عالی کے چہرے پر خوشہ دیکه کر ماں بهی کهل اٹهی، اس کی آنکه سے آنسو چهلک رہے تهے…صبح سے شام ہو چلی… جوانی بوڑهاپے میں ڈهل گئی لیکن سگا بیٹا اس قربت شفقت محبت کو نہ سمجه سکا…
ماں تو صرف دو لفظ محبت اور تمهارے ساته کچه فرصت کے لمحات چاہتی ہے… تمهاری خوشی و سکون چاہتی ہے…
جوس پیتے ہوئے ماں نے یادوں کا پٹارا کهول دیا کچه پرانی تصویریں دکهانے لگی…
ادهر بستر پر زبردستی لیٹا اور آنکهیں بند کرکے بهی اسے بے چینی کهائی جارہی تهی…
نمیر اٹها … یخ پانی سے نہایا دو رکعت صلوت التوبہ ادا کی… اور باہر ڈائننگ روم میں ایا…
نئے کپڑے پہن کر سلیقے سے بندهے بالوں میں گجرے سجائے ماں اور عالی باتیں کررہے تهے…
ماں نے آہٹ پر نمیر کی طرف دیکها … بیٹا تم اٹه گئے..
بوڑهی آنکهیں جیسے جگمگا گئیں.. آنسو ستاروں کی مانند آنکهوں میں دمکنے لگے

نمیر … عالی کی قسمت پر رشک کر رہا تها کہ اسے ماں کے ساته وقت گزارنے شفقت پانے کا موقع ملا… ماں کے لیے پهول خریدنے کی سوچ اور تربیت… ماں کو اس پیار سے تیار کیاخیال کیا…
"میں کتنا بدنصیب ہوں کہ محبت سمجه نہیں سکتا وقت دے نہیں سکتا چڑتا ہوں غصہ ہوتا ہوں چیختا ہوں اور جواب میں کبهی تسلی اور کبهی خاموشی ملتی ہے… میری ماں مجهے اتنی توجہ کیوں نہیں دیتی…”
آخری جملہ اس کے ذہن مین کهنکتے ہی نمیر ماں کے قدموں میں تها … معافی تلافی کرتارہا… زور زور سے رو کر التجائیں کررہا تها…

مجھے معاف کردیں امی جان، میں اس قابل نہیں کہ آپ کے سامنے نظر اٹها سکوں اک لفظ کہہ سکوں لیکن میں نے بد تمیزی کی… اب سے نہیں ہمیشہ سے کرتا آیا ہوں مجھے معاف کردیں… میں آپ کے بغیر نہ اس نیا میں آسکتا تها نہ رہ سکتا تھا… میں کچہ بھی نہیں آپ کے بغیر… ہر وہ دن عزاب بن کر گزرتاہے اور گزرا ہے کہ جس میں آپ کی دعا میرے ساته نہ تهی…آپ ہی میری جنت ہو ، سکون ہو دل کاقرار آنکھوں کا نور ہو… آپ کا لمس میرے جینے کا حوصلہ ہے… آپ کی خوشی میری خوشی ہے ..
سدا سلامت رہیں…
عالی نے بھی نمیر کی ہاں میں ہاں ملائی جو ایک حادثے میں والدیں کھو بیٹھاتھا اور اس کا کل اثاثہ نمیر اور ماں تھے…
اللہ ہماری ماں کو سلامت رکهے… امین ثمہ آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے