خیال – سائیڈ پہ رکھو

بات حقوق کی ہے، اور جنگ بھی، لیکن جنگ لڑنے کے لئے ہتھیار تو تیر تلوار نہیں ہوسکتے، صدیاں بیت گئیں، توپیں اور پھر بندوق میں سور کی چربی والے کارتوس بھی ڈالے گئے، بحری جہاز اور کارتوس سے نکل کے تلواریں پگھلا کر گولیاں بنا لی گئیں۔ اور گولیوں کے خول اکھٹے کرکے قلم بنائی گئی۔ سیاہی کے لئے کپڑے دھونےوالا نیل استعمال کیا گیا۔ غصہ آیا تو کالک سے بھی کام چلا لیا گیا۔ اور پھر کیمرے ایجاد ہوئے تو بازی پلٹ گئی۔

جنگ اب کیمروں سے لڑی جارہی ہے۔ اپنی مرضی کے مواد پر روشنی ڈال کر عکاس دکھا رہے ہیں۔ اپنے مطلب کا مطلب نکالا جارہا ہے۔ ایسے میں ڈھال کوئی نہیں۔ تو کیا کان اور آنکھیں بند کرلیں، یا اس سے بھی کام نہ بنے تو کیا کان میں سیسہ ڈال لیں ۔ آنکھیں پھوڑ لیں۔

نہیں، نہیں !!! اب ایسا بھی نہیں ۔ حقوق کی جنگ لڑیں ۔ لیکن حقوق کس کے، عورت کے ۔۔۔ بھائی۔ عورت مظلوم ہے۔ عورت پِس رہی ہے۔ عورت کے بھائی ۔۔۔ جی ۔۔۔ جی ہاں ! عورت کے۔

مرد تو ظالم ہے۔ باپ ہے تو بیوی اور بچوں کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے، اور بے جاحکم چلاتاہے۔ بیٹا ہے تو لاڈ کے نام پر ماں کا استحصال کرتا ہے، اور بھائی ہے تو اس کی غیرت ہی نہیں سنبھالی جاتی۔
ہاں جی! بالکل

لیکن رکئیے۔ مسلمان معاشرے میں مغربی طرز پر عورتوں کے حقوق مانگنا تو غلط ہے۔ لیکن حقوق مانگنا بھی تو ضروری ہیں۔ مغرب کی تحریک سہی، اس میں سے اچھی باتیں لے لیں اور باقی رد کردیں ۔ یہ تو حقیقت ہے۔ سچ بات ہے، ہونا بھی یوں ہی چاہیے۔

اسلام میں عورت کے حقوق کا تصور ہے تو پھر مغرب کی تقلید کی ضرورت کیا ہے۔ اسلام نے جہاں مرد کو نظر جھکانے کا کہا، عورت کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کا کہا، وہاں عورت کو پردے کا بھی حکم دیا۔ بس یہی بحث ،،، ہر وقت آگے سے یہی دلیل، وہی پرانے عقائد۔ لیکن بات تو یوں ہے نا کہ اسلام کو کلمہ پڑھ کر مانتے ہو، اور پھر بات کرنے سے پہلے کہتے ہو "اسلام کو سائیڈ پررکھو” خود کو مسلمان کہتے ہو اور طرز عمل کے لئے مغرب کی سمت دیکھتے ہو۔ قرآن مجید اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ عورت کے حقوق کیا ہیں۔ تو پھر مغرب کی تقلید کی کیا ضرورت ہے، عورت کو حقوق دینے کا مطالبہ کرنے والے اور ان کے مخالفین اس بحث میں عورت کا ہی استحصال کئے جارہے ہیں۔ حقوق کا مطلب اپنی مرضی تو نہیں، اسلام کو مان لیا ہے تو اب اس کی مان بھی لو۔

یہ ضابطہ حیات ہے، کلمہ اور توحید آغاز ہیں، صرف اسی پہ بس نہیں ہے۔ بلکہ کلمہ تو صرف دروازہ ہے، اس کے بعد اسلام زندگی کے ایک ایک پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔ بتاتا ہے کہ کیا ہو؟ مجھے لکھنے کے ڈھنگ بھی بتاتا ہے، کہ لکھتے ہوئے دھیان رہے، کہ سچ ہو، کسی کی بدخوئی نہ ہو، میرے ایک ایک لفظ کی رہنمائی کرتا ہے اسلام، رہنے سہنے کے اصول بتاتا ہے، پھر میں مغرب کی تقلید کیوں کرلوں؟ یا میں یہ مان لوں کہ اسلام میں عورت کے حقوق اور مرد کے فرائض لکھے نہیں گئے۔ اگر لکھے گئے ہیں تو میرے لئے مغرب کی دی ہوئی تماشا نواز سوچ کیوں اہم ہے۔ میرے لئے حقوق کی جنگ میں پیمانہ چودہ سو برس قبل کی مدینہ کی خواتین مثال ہیں ۔ اور میرے لئے مثال بھی تبہی کے مرد۔

تو عورت کے حقوق کا مطالبہ کرنے والی کوئی بھی خاتون، اپنے شوہر کا دوسرا نکاح کسی مطلقہ سے کراکر اسے حقوق دیں گی؟ یا کوئی خواتین کے حقوق کا علمبردار بیوہ سے نکاح کرکے اسے دلدل سے نکالے گا ۔ کوئی ہے جو سادگی سے نکاح کرکے، گھر میں موجود رقم سے کھانا پکا کر ولیمہ کی رسم انجام دے؟ کوئی عورت ہے جو شرعی حق مہر رکھے اور کسی ایسے شخص سے شادی کرلے جس کی شادی اس لئے نہیں ہورہی کیوں کہ اس کے پاس رقم نہیں، عہدہ نہیں، یا وہ معمولی نوکری پیشہ ہے۔ کوئی خاتون دکھ سے مجبور کسی بے کَس سے اپنے شوہر کی دوسری شادی کرادے؟

کوئی خاتون ہے اتنی سخی جو کسی کنگلے سے رشتہ کرلے، یقنینا نہیں! کیوں کہ مدینے کی ریاست میں نکاح رزق بڑھاتے ہیں اور یہاں نکاح کے لئے رزق اکھٹا کرنے کی مشقت ہوتی ہے۔ معاشرہ "اسلام کو سائیڈ” پر رکھ کر سوچ رہا ہے، اور اسی لئے کبھی مغرب کی راہ دیکھتا ہے جو خود دیکھ رہا ہے کہ ہم اس کا منہ لال دیکھ کر اپنے منہ پر تھپڑ رسید کئے جارہے ہیں۔ اور عورت پستی ہی جارہی ہے۔ لیکن اس کے حقوق کے لئے آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ اور یقین جانئیے
زور بازو بھی آزمانا ضروری ہے یہاں
سبطر آوازوں سے پتھر نہیں سرکائے جاتے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے