خیبر پختونخوا: غگ کی فرسودہ قبائلی روایت

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں اب بھی مقامی افراد قبائلی رسم و روایات اپنائے ہوئے ہیں اور حال ہی میں پشاور میں ایک شہری نے اپنی بیٹی کی شادی روکنے کے الزام میں ’غگ‘ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کروایا ہے۔

پشاور کے علاقہ بڈھ بیڑ تھانہ پولیس کے مطابق مدعی عبد الرحیم نے عدالت میں درخواست دی ہے کہ ملزم خان اصغر گذشتہ آٹھ برس سے ان کی بیٹی ناہید کی شادی نہیں ہونے دے رہا اور اس نے مقامی روایت ’غگ‘ کے مطابق ان کے خاندان کو اس رسم میں پابند کر رکھا ہے۔

پولیس کے مطابق ناہید کی عمر اٹھائیس برس ہے اور ملزم خان اصغر نے مقامی روایت ’غگ‘ کے تحت یہ اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ناہید سے شادی کرے گا اور کوئی اور شخص اس خاتون سے شادی کے لیے رشتہ نہیں بھیجے گا۔

[pullquote]’غگ‘ کی رسم کیا ہے؟[/pullquote]

غگ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آواز لگانے یا اعلان کرنے کے ہیں۔ مگر بیشتر قبائلی علاقوں میں اس لفظ کو یعنی غگ کو ایک روایت کے طور پر اپنا لیا گیا تھا۔

اس کے تحت اگر برادری کا کوئی شخص کسی خاتون سے شادی کا اعلان کرتا ہے تو برادری کا کوئی اور شخص اس خاتون کے لیے رشتہ نہیں بھجواتا اور اس خاتون کے لیے شادی کے رشتے آنا بند ہو جاتے۔

اس روایت کے تحت اس میں خاتون، اس کے والدین یا رشتہ داورں کی رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی۔

اس فرسودہ روایت کے تحت بعض اوقات لوگوں کا مقصد خاتون سے شادی کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس روایت کے ذریعے خاتون کے خاندان کو تنگ کرنا یا اپنی شرائط پر ان سے معاملات طے کرنا ہوتا تھا۔

اس بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ رسم بنیادی طور پر جنوبی وزیرستان سے شروع ہوئی اور پھر صوبے کے دیگر علاقوں تک پھیل گئی۔

مدعی کا مؤقف
پولیس کے مطابق مدعی عبدالرحیم نے مقدمے میں مؤقف اپنایا ہے کہ غگ کی اس رسم کی وجہ سے ان کی بیٹی کی شادی نہیں ہو رہی اور اگر کوئی رشتہ آتا ہے تو اس میں رکاوٹیں پڑ جاتی ہیں۔ عدالت نے پولیس کو فوری طور پر مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔

بڈھ بیر تھانے کے اہلکار نے بتایا کہ پولیس نے اس ضمن میں غگ ایکٹ خیبر پختونخوا کی دفعہ چار اور پاکستان پینل کورٹ کی دفعہ 506 کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔

[pullquote]’غگ‘ ایکٹ کب منظور ہوا؟[/pullquote]

سنہ 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اس فرسودہ روایت کے خلاف قانون سازی کی اور صوبائی اسمبلی سے یہ قانون منظور کروایا تھا۔

اس قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ سات سال اور کم سے کم تین سال قید اور ہانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

غگ ایکٹ کے قانون کی منظوری میں عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رکن صوبائی اسمبلی ستارہ ایاز نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس فرسودہ رسم کے بارے میں بہت شکایات آ رہی تھیں جس پر سنہ 2012 میں اس کے خلاف قانون سازی پر کام شروع کیا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا ’ان دنوں عدالت میں اس بارے میں بہت سی شکایت موصول ہوئی تھی لیکن یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ اس بارے میں کیا کیا جائے۔‘

ستارہ ایاز نے بتایا کہ غگ کے بارے میں زیادہ شکایات صوبے کے جنوبی علاقوں سے سامنے آ رہی تھیں۔ انھوں نے کہا اب بھی اس بارے میں آگاہی نہیں ہے اور اس پر حکومت کو کام کرنا چاہیے تاکہ پولیس تھانوں اور متعلقہ محکموں کو معلومات ہونی چاہییں کہ یہ اب ایک قابل گرفت جرم ہے۔

سابق صوبائی رکن اسمبلی ستارہ ایاز کا کہنا ہے ’عوام میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اب بھی اس بارے میں بہت کم واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے