داعش نیٹ ورک کی حقیقت کیا ہے؟

امریکہ نے افغان صوبہ ننگرہار کے ضلع اچن پر غیرمعمولی قوت والا بم (مدر آف آل بمبز)گرا کر وہاں موجود داعش کے مبینہ زیر زمین نیٹ ورک ہی پر قیامت نہیں ڈھائی، بلکہ اس پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کارروائی سے پہلے خطے کے ممالک اورعسکری ماہرین افغانستان ،خاص کر امریکہ کے بعد کے افغانستان کو ایک اور زاویے سے دیکھ رہے تھے۔روس، چین اور پاکستان مل کر افغان طالبان کے ساتھ مستقبل کے کسی قابل قبول منظرنامے پر کام کر رہے تھے، ایران اور افغان طالبان کے مابین تعلقات بھی خاصے بہتر ہوگئے،معاملات ایک خاص رفتار سے بڑھ رہے تھے ۔ اب امریکی صدر ٹرمپ نے یہ غیر متوقع اور ایک اعتبار سے بولڈاقدام کر کے کئی اطراف میں بڑا واضح پیغام بھیجا ہے۔ اس حملے کو اسی لئے مبصرین گیم چینجر کا نام دے رہے ہیں کہ اب کھیل ایک نیا رخ لیتا محسوس ہو رہا ہے۔ اسے افغانستان میں ایک نئی گریٹ گیم کا آغاز بھی سمجھ لیں۔

اس گریٹ گیم کو سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ داعش کے پس منظر اور اس کے نیٹ ورک کو اچھی طرح جان لیا جائے۔ داعش دراصل چار حروف دال الف ع ش(داع ش)کا مجموعہ ہے۔ دولت اسلامیہ شام وعراق یعنی داعش۔ نام ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر اس کا تعلق شام اور عراق سے ہے۔ داعش دراصل ان دونوں ممالک کے سخت گیر متشدد سلفی خیالات رکھنے والے مختلف جنگجوﺅں کا مجموعہ ہے۔ انتہائی شدت کی فکر رکھنے والے عسکریت پسند جو امریکہ اور مغرب سے شدید نفرت کرتے اور دوسری طرف شیعہ فکر اور ایران وغیرہ کو ناپسند کرتے ہیں۔ عراق میں داعش کا ایک طرح سے بانی القاعدہ عراق کا سربراہ ابو مصعب الزرقاوی ہے۔ ابومصعب الزرقاری نے عراق میں القاعدہ کو منظم کیا اور بہت سی منظم دہشت گردی کی وارداتیں کیں۔ زرقاوی نے شیعہ آبادی اور مقدس مزارات کو خاص طور سے نشانہ بنایا، جس سے عراق میں شدید قسم کی شیعہ سنی تقسیم پیدا ہوئی۔ 2004ءمیں زرقاوی کا نام عالمی پریس میں آیا۔ زرقاوی کی کارروائیوں میں اس قدر شدت اور نفرت موجود تھی کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے بھی اس کی سرزنش کی اور ایک بار تو اسے القاعدہ عراق کی قیادت سے ہٹا نے کا عندیہ بھی دیا۔ بعد میں زرقاوی ایک امریکی میزائل حملے میں مارا گیا۔ زرقاوی کے بعض ساتھیوں نے اس وقت الزام لگایا تھا کہ القاعدہ کے اندر سے زرقاوی کی مخبری کی گئی کیونکہ اسے برداشت کرنا قیادت کے لئے ممکن نہیں رہا تھا۔

عراق کے سنی علاقہ اور شام کے کچھ حصے میں داعش چند سال پہلے منظم ہونا شروع ہوئی۔داعش کا موصل اور دیگر شہروں پر قبضہ اور شام، عراق کے سرحدی قصبات حاصل کرلینا،ابوبکر البغدادی کی خلافت ،عراقی فوج کی جوابی مزاحمت اور پچھلے کئی برسوں کی لڑائیوں کے حوالے سے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ بہت کچھ میڈیا میں آتا رہا ہے۔اس وقت داعش عراق میں کمزور ہوچکی، کئی علاقے اس کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں،مگرآج بھی کوئی عسکری ماہر یہ نہیں کہہ سکتا کہ داعش ختم ہوگئی۔ داعش ایک نظریے کے طور پر تو ٹھیک ٹھاک قوت اور اثرونفوذ رکھتی ہے۔ یورپ اور امریکہ سے سینکڑوں مسلمان نوجوان شام اور عراق آ کر داعش کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ مغرب میں اس پر سوچا جا رہا ہے کہ جب یہ شدت پسند نوجوان واپس مغرب آئیں گے ،تب کیا ہوگا؟اسی طرح ایک اور بڑا خطرہ یہ ہے سنٹرل ایشیائی ریاستوں کے متعدد نوجوان عراق میں لڑ رہے ہیں۔ آگے کسی مرحلے پران کی واپسی پورے خطے میں شدت پسندی اور جنگجوئی کو ہوا دے سکتی ہے۔

افغانستان کا داعش کے ساتھ براہ راست تعلق اورنظریاتی رشتہ نظر نہیں آتا۔ داعش کی ہارڈ کور عرب اور شدت پسند سلفی عقائد کی حامل ہے۔ افغانستان کی سرحد عرب ممالک سے نہیں ملتی اور یہاں چونکہ ایک اینٹی امریکہ وار تھیٹر موجود تھا ، اس لئے مقامی جنگجوﺅں کو عراق جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ افغان طالبان قیادت کے تحت امریکی فوج کے خلاف نبردآزما رہے ۔ ویسے بھی افغانستان میں سنی آبادی کی بہت بڑی اکثریت کا تعلق فقہ حنفی سے ہے۔افغانستان میں داعش کا ذکر 2015ءمیں سنا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان سے الگ ہونے والے ایک کمانڈر ملا عبدالرﺅف خادم یا عبدالرﺅف علی زا نے عراق کا دورہ کیا اور وہاںداعش سے انسپائریشن لی اور وطن واپسی پر داعش افغانستان کا ڈول ڈال دیا۔ ممکن ہے یہ کہانی غلط ہو، بہرحال اسی ملا عبدالرﺅف نے بارہ جنوری2015کو مفتی سعید کے ساتھ مل کر داعش افغانستان چیپٹر بنانے کا اعلان کیا۔ مفتی سعید اس کے امیر اور ملا عبدالرﺅف نائب امیر مقرر ہوئے۔ چند دنوں بعد ، پچیس جنوری 2015ءکو داعش عراق کے ترجمان ابو محمد العدنانی کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی جس میں اس نے داعش افغانستان کو داعش کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے الدولتہ الاسلامیہ فی العراق وشام ، ولایہ خراسان کا نام دیا۔

داعش میں زیادہ تر افغان طالبان سے الگ ہونے والے ناراض کمانڈر اور ان کے ساتھی ہی شامل ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان کے بعض دھڑے بھی اس میں جا ملے۔ کچھ عرصہ بعد اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو)نے بھی داعش کا حصہ بننے کا اعلان کیا۔ افغان کمانڈروں کے داعش کا حصہ بننے کی دو تین وجوہات تھیں۔ سب سے بڑی وجہ تو شناخت کا بحران تھا۔ افغان طالبان خطے کی نمایاں قوت سمجھے جاتے تھے، ان سے الگ ہونے والوں کو کوئی تگڑا پلیٹ فارم چاہیے تھا۔ داعش اور مغربی دنیا میں اس کی دہشت کو دیکھتے ہوئے ان افغانیوں نے داعش کا سہارا لیا۔ دوسری وجہ پیسہ تھا۔ داعش نے عراق میں تیل کے کچھ کنوﺅں پر قبضہ کر رکھا تھا اور تیل بیچ کر لاکھوں ڈالر کمائے جارہے تھے۔ اس اندھادھند کمائی کا ایک حصہ داعش افغانستان کی طرف آنا فطری بات ہے۔ تیسرا یہ کہ افغان طالبان چونکہ افغانستان کی سرحد سے باہر کسی قسم کی کارروائی کرنے کے حق میں نہیںرہے ، ایران کے ساتھ بھی ان کے مراسم خوشگوار ہورہے تھے، جبکہ داعش والے شدید قسم کا اینٹی شیعہ، اینٹی ایران موقف رکھتے ہیں۔ اس لئے انہیں بعض حلقوں میں پذیرائی ملی۔

وجوہات جو بھی ہوں، داعش افغانستان کو شروع میںچند صوبوں میں سہی، مگرقبولیت ملی ۔ انہوں نے ننگرہار، زابل، فرح، لوگر، کنڑ وغیرہ میں جگہ بنا لی۔ پہلے تو افغان طالبان قیادت نے انہیں قدرے ایزی لیا، ملا منصور نے ابو بکر البغدادی کے نام ایک خط لکھا، جس میں درخواست کی کہ چونکہ افغانستان میں طالبان امریکہ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، اس لئے یہاں داعش کی تنظیم نہ قائم کی جائے۔ بعد میں افغان طالبان نے بڑے منظم اور بھرپور اندازمیں داعش افغانستان کے خلاف اپریشن شروع کیا اور بیشتر علاقوں سے انہیں بے دخل کر ڈالا۔ داعش کا صرف ننگرہار صوبے کے بعض اضلاع میں کنٹرول رہا کیونکہ وہاں مقامی آبادی پر سلفی اثرات تھے اور داعش کے کمانڈروں کا وہ آبائی علاقہ تھا۔ طالبان اور داعش کے مابین پچھلے سال ڈیڑھ سے خونریز جنگ جاری ہے۔ ننگرہار کے علاقہ خوگیانی میں بھی یہ دونوں فریق نبردآزما رہے۔( برسبیل تذکرہ بتاتاچلوں کہ اسی خوگیانی سے پٹھانوں کے ایک قبیلہ نے اڑھائی تین سو سال پہلے ہندوستان ہجرت کی ، ان میں سے کچھ احمد شاہ ابدالی سے پہلے اور بہت سے اس کے ساتھ آئے۔ یہ لوگ خوگیانی کی مناسبت سے خوگانی کہلائے ، جو بعد میں بگڑ کر خاکوانی ہوگیا۔ خاکسار کا تعلق خاکوانی پٹھانوں کے اسی قبیلے سے ہے۔)

داعش نے اپنا سکہ جمانے کے لئے کابل اور دوسرے شہروں میں کئی بڑی دہشت گردی کی کارروائیاں کیں ۔ امریکی فوج کو بھی نشانہ بنایا اور پچھلے سال کئی حملوں میںافغان شیعہ آبادی کو نشانہ بنایا۔ داعش افغانستان خود کو اینٹی امریکی اور اینٹی شیعہ جذبات رکھنے والوں کے لئے پرکشش بنانا چاہتی تھی۔ یاد رہے کہ افغان طالبان نے اپنی کئی برسوں کی گوریلا جنگ میں شیعہ آبادی کو کبھی نشانہ نہیں بنایا۔ داعش نے البتہ عراق کی طرح کی مسلکی تقسیم افغانستان میں بھی پھیلانے کی کوشش کی۔امریکیوں نے بھی داعش پر کئی موثر ڈرون حملے کئے، اس کا بانی اور نائب امیر ملاعبدالرﺅف بھی مارا گیا، جبکہ اس کے امیر کے مارے جانے کی بھی متضاد اطلاعات عالمی میڈیا پر آتی رہی ہیں۔ اچن ضلع جہاں پر امریکیوں نے مدر آف آل بمبز پھینکا، وہ داعش کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ سال ڈیڑھ پہلے داعش نے ایک ویڈیو جاری کی، جس میں درجن بھر لوگوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کرایسے گڑھوں میں بیٹھنے پر مجبور کیا گیا، جہاں نیچے بم نصب تھے، ان غریبوں کے پرخچے اڑ گئے۔ عراق ہی کی طرز پر بچوں اور عورتوں کی گردنیں اڑانے کی ویڈیوز اور تصاویر بھی جاری ہوتی رہیں۔ داعش نے اسی اچن ، ننگرہار میں ایک ایف ایم ریڈیو سٹیشن بھی قائم کر رکھا تھا۔ امریکی حملے میںوہ تباہ ہوگیا۔

افغانستان میں داعش خاصی کمزور ہوچکی۔ ننگرہاراور کنٹر کا کچھ علاقہ اس کا آخری مستقر ہے۔ اگر امریکی منظم آپریشن کریں تو داعش کا مکمل صفایا ہوسکتا ہے، تاہم ایسا شاید ہو نہ پائے۔ یہ اس وقت ایک سازشی تھیوری محسوس ہوگی، مگرلگ یوں رہا ہے کہ داعش کو اس سلگتی چنگاری کی صورت میں ضرور رہنے دیا جائے گی، جسے پھینک کر دیہات میں دشمنوں کی فصلوں میں آگ لگائی جاتی ہے۔ داعش کا فتنہ جلد ختم ہوگا نہ ہی اس کے” تعاقب“ کا سلسلہ رک پائے گا۔ پاکستا نی اداروں کو اس حوالے سے انتہائی مستعد اور ہوشیار رہنا ہوگا۔

بشکریہ :روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے