داعش ہینڈلنگ

پاکستان میں داعش کے فتنے کو اچھے طریقے سے ہینڈل کرنا سب سے اہم ایشو بن چکا ہے۔ کائونٹر ٹیررازم ادارے اس حوالے سے یقیناً ایک جامع حکمت عملی بنا چکے ہوں گے۔ جو قارئین اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہیں، ان کو دو باتیں سمجھنی چاہئیں۔ راقم نے اپنے پچھلے دونوں کالموں (پیر، منگل ) میں بڑی وضاحت سے داعش کے بنیادی اجزا کا جائزہ لیا اور یہ دیکھا کہ پاکستان میں اس کے لیے کتنا پوٹینشل موجود ہے۔ ہمارے ہاں جو لوگ داعش کا نام لے رہے ہیں یا اس سے جڑنے اور تعلق قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، دو قسم کے ہیں۔ سب سے اہم اور نمایاں وہ عسکریت پسند گروہ ہیں جو ماضی میں ٹی ٹی پی، القاعدہ اوراس قبیل کی دیگر تنظیموں کا حصہ رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد ان سب کا نیٹ ورک بری طرح ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ ٹی ٹی پی کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تباہ ہونے کے ساتھ شہروں میں اس کے سہولت کاروں کا نیٹ ورک اور سلیپنگ سیل نہ صرف بری طرح متاثر ہوئے، بلکہ ان کے جنگجوئوں کی بڑی تعداد کیفرکردار کو پہنچ گئی۔ فرقہ وارانہ کالعدم تنظیموں، جیسے لشکر جھنگوی کے مختلف گروپ، سابق کشمیری تنظیموں کے وہ سپلنٹر سیل جو اپنی تنظیمیں چھوڑ کر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ساتھ جا ملے تھے، کا بھی بڑی حد تک صفایا ہوگیا۔ وہی باقی بچے ہیں جنہوں نے ہتھیار ڈال کر امن کا راستہ اختیار کیا یا جو بھاگ کر افغانستان جا چھپے۔

آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد دہشت گردوں کے اکا دکا گروپ یا ان کے بچے کچھے لوگ اب اپنے لیے کسی نئے برانڈ کی تلاش میں ہیں۔ ایسا نام جو ان کے پست حوصلوں کو بلند کرسکے، ان کے لیے نئے فنانسر پیدا کرے اور میڈیا میں خبریں بھی لگیں۔ایک طرح سے یہ گروپ فرنچائز کی طرح ہیں، پیسہ کمانے کے لیے ان کے اپنے ذرائع ہوتے ہیں، خرچ بھی آزادی سے کرتے ہیں، مگر انہیں کسی چھتری کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کوئی ڈھیلا ڈھالا پلیٹ فارم ملے اور ”باہروالے‘‘ فنانسروں کے لیے کشش بھی پیدا ہو۔ یہ ترکیب بنیادی طور پر بیت اللہ محسود کی تھی۔ اس نے تحریک طالبان پاکستان کے نام کا پلیٹ فارم بنایا، جس کا بڑا حصہ اس کے اپنے محسود جنگجوئوں پر مشتمل تھا۔ غیر ملکی ازبک، چیچن گوریلوں کی اسے حمایت حاصل تھی، مگر بیت اللہ نے ملک گیر سطح پر حمایت لینے کے لیے ہر گروپ اور دھڑے کو اپنے ساتھ شامل کر لیا، چاہے وہ براہ راست اس کی کمانڈ میں نہیں رہتے تھے۔ ٹی ٹی پی کے لچکدار، ڈھیلے ڈھالے سیٹ اپ کی وجہ سے ملا فضل اللہ کے ساتھ لشکر جھنگوی کے کئی چھوٹے بڑے گروپ ٹی ٹی پی کا حصہ بنے۔ اب ٹی ٹی پی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ القاعدہ پاکستان کا تقریباً صفایا ہو چکا۔ اس کے بہت سے لوگ پہلے ہی مشرق وسطیٰ اور یمن وغیرہ چلے گئے تھے۔ آپریشن ضرب عضب نے اس کی جڑیں کاٹ ڈالیں، لہٰذا القاعدہ عملی طور پر بہت کمزور پوزیشن میں جا چکی ہے۔

داعش ان حالات میں نیا نام ہے، جسے انٹرنیشنل برانڈ کی حیثیت مل چکی ہے۔ مغربی دنیا، میڈیا کے علاوہ پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک میں حکومتیں اور انتظامیہ بھی داعش کے نام سے خوفزدہ ہیں۔ اس صورت حال میں فرنچائز ڈھونڈنے والے لاوارث اور ٹوٹے پھوٹے گروپوںکو سب سے آسان اور بہتر راستہ یہی سوجھاکہ اپنے ساتھ داعش کا نام لگا لیں یا خود کو داعش قرار دے دیں۔ افغانستان میں بھی یہی ہوا ہے۔ صوبہ ننگرہار میں طالبان مخالف بعض کمانڈروں اور ان کے حامی لڑاکوں نے خود کو داعش قرار دے دیا اور طالبان کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا۔ ‘افغان داعش‘ ایک طرح سے’داعش کی افغان فرنچائز‘ ہے، ورنہ مسلکی اعتبار سے افغانستان میں سلفی پاکٹس بہت کم ہیں۔ ادھر پاکستان میں بھی اطلاعات ہیں کہ منگل باغ اور لشکر جھنگوی العالمی نے خود کو داعش قرار دے دیا ہے۔ اسی طرح بعض دوسرے مقامات پر جن میں گوجرانوالہ ڈویژن، اوکاڑہ ریجن شامل ہیں، کے علاوہ کراچی میں کچھ لوگ جو القاعدہ سے تربیت یافتہ یا اس کے ساتھ منسلک تھے، وہ داعش کی طرف چلے گئے ہیں۔ ان کی تعداد مگر بہت ہی کم ہے۔ ان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور امکان یہی ہے کہ کچھ ہی عرصے میں ان کا حشر دیگر تباہ شدہ گروپوں والا ہوجائے گا۔

داعش کی طرف جانے والا دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو شدت پسند نظریات سے متاثر ہوکر داعش سے منسلک ہونا چاہتے ہیں۔ یہ اس عالمی ٹرینڈکاحصہ ہے جس کے تحت مغربی ممالک سے سیکڑوں لوگ داعش میں جا چکے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ سو کے قریب لوگ شام بھی گئے ہیں۔ یہ امر تشویشناک تو ہے، لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان بیس کروڑ آبادی کا ملک ہے اور صرف لاہورکی آبادی کروڑ کے لگ بھگ ہوچکی ہے، تو اتنی آبادی میں سے سو ڈیڑھ سوکا جانا ایسی بات نہیں کہ ملک میں خوف اوردہشت پھیل جائے اور Panic پھیل جائے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ٹی ٹی پی کے تحت پندرہ سے بیس ہزار جنگجو تھے جبکہ لشکر جھنگوی کے حامیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی، مگر آپریشن ضرب عضب کے سامنے یہ موم کی طرح پگھل گئے۔ ریاست کی قوت اگر منظم انداز میں استعمال کی جائے تو دہشت گردوں کے چند جتھے یا اکا دکا شدت پسندوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ سادہ بات ضرور یاد رکھی جائے۔ میڈیا اور حکومت کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کرنے والے سیاستدان براہ کرم اس نکتے پر خاص توجہ فرمائیں کہ دہشت گردوں کی تمام تر قوت ان کی پبلسٹی اور دہشت پھیلنے میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کی خبریں لگیں، لیڈیں بنیں، ٹی وی پروگرام چلیں تاکہ ان کو پذیرائی ملے اور نئے ریکروٹ مل سکیں۔ دوسرے ان کی دہشت سے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بد دل اور ڈی مورلائز ہوکر پسپا ہو جائیں۔ ہمارا میڈیا داعش کے حوالے سے وہی کر رہا ہے جو داعش کو پاکستان میں پھیلانے کا خواب دیکھنے والے شرپسندوںکی شدید ترین خواہش ہوسکتی ہے۔ اب ہمیں میچور ہوجانا چاہیے، اتنے برسوں سے ہم عسکریت پسندی سے نبردآزما ہیں، ان کے حربے اور طریقے سمجھ لینا چاہئیں۔

[pullquote]یہ اہم بات بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ داعش کے خلاف ایک قومی بیانیہ ضرور بنے۔ اس حوالے سے اہل علم بالخصوص دینی سکالرزآگے آئیں۔کچھ عرصہ قبل دیوبندی مکتب فکر کے معروف عالم دین، معلم اور دانشور مولانا زاہد الراشدی نے داعش کے خلاف ایک مبسوط اور شاندار مقالہ لکھا تھا۔ ان کے خیالات کو میڈیا میںجگہ ملنی چاہیے، انہوں نے داعش کے پروپیگنڈے کو علمی انداز میںکائونٹرکیا ہے۔کاش مفتی تقی عثمانی یا مفتی رفیع عثمانی صاحب بھی اس پر قلم اٹھائیں۔ روایتی دینی حلقوں میں ان صاحبان کی بہت عزت و توقیر ہے۔ جاوید غامدی صاحب کے متبادل بیانیہ کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی صاحب نے قلم اٹھایا اور اس کا حق ادا کیا۔ داعش کے باطل استدلال کا توڑکرنا اس سے بھی زیادہ اہم کام ہے۔ ان حضرت کی توجہ اس جانب مبذول کرانی چاہیے۔ بریلوی مکتب فکر سے مفتی منیب الرحمن صاحب پہلے ہی نہایت عمدگی سے اس پر لکھ چکے ہیں، وہ بہت خوبصورتی سے شدت پسندی کا ابطال کرتے اور ایک نئی شائستہ علمی روایت قائم کرتے ہیں۔
[/pullquote]

بعض اہل علم اور تجزیہ کاروں کی آرا سے ایسا تاثر بنتا ہے جس سے داعش اوراس جیسے فتنہ پھیلانے والے دوسرے گروپ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس حوالے احتیاط لازم ہے۔ بہتر ہے، خلافت، پان اسلام ازم اور جمہوریت کے مختلف پہلوئوں پر تنقید کرنے والے لوگ نہ صرف اپنی تحریروں میں دہشت گرد تنظیم داعش سے برأت کا اعلان کریں، بلکہ اس کے خلاف قلم بھی اٹھائیں تاکہ ان کے مکاتب فکرکو شدت پسندوں سے الگ کیا جاسکے۔ حکومت کو بھی احتیاط اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خلافت کی اصطلاح صدیوں سے اہل علم کے لیے کشش کا باعث رہی ہے۔ علمی حوالوں سے اس کے مختلف پہلوئوں پر لکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جمہوریت کو باطل نظام قرار دینے والوں کی تنقید بنیادی طور پر مغربی جمہوریت پر ہے، انہیں سمجھانا چاہیے کہ پاکستان میں ایک طرح سے اسلامی جمہوریت ہے اور ہمارا آئین شریعت کے خلاف کوئی قانون بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ داعش کو تقویت دینے والے بیانیے اور استدلال کو رد کیا جائے، مگر ایسا کرتے ہوئے ہمیں اختلاف پر مبنی علمی رائے کا گلا نہیں گھونٹنا چاہیے۔ ہر ایک پر پرو داعش کا لیبل چسپاں کرنا خطرناک ہے، اس سے ردعمل پیدا ہوگا۔ جو بات دلیل اور مکالمے سے طے ہوسکتی ہے، اس کے لیے وہی طریقہ اپنانا چاہیے۔ رہے دہشت گرد اور ان کے حامی تو ان کے لیے زیرو ٹالرنس واحد پالیسی ہے

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے