دل سے پہلے آنکھیں کھولیے

ایران اور سعودی عرب اپنی تاریخی، تہذیبی، سیاسی، اقتصادی اور علاقائی مسابقت کو کوئی بھی نظریاتی جامہ پہنانے کی کوشش کریں۔

ان کی لڑائی ماضی اور حال میں دنیا کے کسی بھی کونے میں دو طاقتوں کے درمیان ہونے والی کسی بھی ایسی لڑائی سے مختلف نہیں جس میں بالا دستی حاصل کرنے کے لئے ہر دیدہ و نادیدہ، مقدس غیر مقدس ہتھیار کا استعمال مباح سمجھا گیا۔

جتنے حقوق ایران میں سنی اقلیت کو حاصل ہیں اتنے ہی سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کو حاصل ہیں۔

تہران میں سنیوں کی سات، آٹھ چھوٹی چھوٹی مساجد ہیں مگر جامع مسجد ایک بھی نہیں۔کہنے کو ایران میں سنی آبادی آٹھ تا دس فیصد کہی جاتی ہے۔

ریاض میں اگر امام باڑے ہوں گے بھی تو گھروں میں ہوں گے۔ دور سے دیکھنے کو ایک بھی نہیں۔ کہنے کو سعودی عرب میں شیعہ آبادی دس تا 15 فیصد بتائی جاتی ہے۔

سعودی عرب میں اسلامی بادشاہت ہے تو ایران میں مذہبی آمریت ( تھیو کریسی )۔ نہ سعودی عرب میں اسلام کی غیر سرکاری مسلکی تشریح درگزر ہو سکتی ہے نہ ایران میں اسے ہضم کیا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں حزبِ اختلاف کا وجود برداشت کرنے کا کوئی رواج نہیں اور آلِ سعود کی مخالفت اور اسلام دشمنی برابر ہے۔

ایران میں حزبِ اختلاف کا سرکاری ترجمہ ’فساد فی الرض پھیلانے والے خدا کے فتنہ پرور باغی‘ ہے۔

دونوں ملکوں میں اسٹیبلشمنٹ سے نظریاتی اختلاف کا جرم منشیات کی سمگلنگ، قتل اور ریپ کے برابر ہے۔

ایسے ناہنجار باغیوں کا سر سعودی عرب میں تلوار سے قلم ہوتا ہے اور ایران میں کرین سے لٹکایا جاتا ہے یا گولی ماری جاتی ہے۔

دونوں ممالک میں عدالتی نظام بھی ہے مگر اس کی شکل سوالیہ نشان جیسی ہے۔

ایران کی اسرائیل اور صیہونیت سے بالکل نہیں بنتی اور سعودی عرب کی اسرائیل دشمن حزب اللہ، حماس اور اخوان کے پولٹیکل اسلام سے بالکل نہیں بنتی۔

یہی ایران تھا جس کی پہلوی بادشاہت کی سعودی خاندان سے کوئی سنگین سیاسی رقابت نہیں رہی۔ حالانکہ ایران کے اسرائیل سے سفارتی و اقتصادی تعلقات بھی تھے۔

تہتر کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد تاریخ میں پہلی بار اوپیک نے تیل کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ کیا تو شاہ فیصل اور رضا شاہ نے اس معاملے پر مثالی یکتائی دکھائی۔

نہ سعودیوں کو تشویش تھی کہ امریکہ شاہ ایران کو خلیج کا چوکیدار کیوں بنا رہا ہے اور نہ رضا شاہ کو یہ فکر کہ سعودی حکومت آخر کس سے لڑنے کے لئے جدید ترین جنگی کھلونوں کے انبار خرید رہی ہے۔

مگر نیرنگیِ سیاست کے فضل سے آج کے ایران میں جدید مشرقِ وسطی کا سب سے بڑا ولن اسرائیل اور پھر دولتِ اسلامیہ ہے اور سعودی عرب کے نزدیک سب سے بڑا ولن ایران اور پھر بشار الاسد ہے اور اس معاملے میں اسرائیل اور سعودی عرب ایک صفحے پر ہیں۔

بالکل ایسے ہی جیسے سنہ 80 کی دہائی میں صدام حسین کے معاملے پر اسرائیل اور ایران ایک صفحے پر تھے ( حوالے کے لئے دیکھیے ریگن دور کا ایران کونٹرا سکینڈل )۔

جس طرح ایران کے نزدیک شام کی سنی اکثریت پر علوی اقلیتی حکمرانی جائز ہے اسی طرح سعودی عرب کا عقیدہ ہے کہ بحرین کی شیعہ اکثریت پر سنی الخلیفہ خاندان کی حکمرانی جائز ہے۔

اگر مصر میں کوئی فوجی آمر محمد مرسی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دے تو سعودی عرب کے نزدیک یہ عمل بے ضرر ہے لیکن حوثی یمن کی ہادی منصور حکومت کو معزول کر دیں تو یہ عمل خطرناک ہے۔ بعینہہ ایران کے نزدیک مصر میں فوجی حکومت غیر قانونی ہے مگر یمن میں حصولِ اقتدار کے لئے حوثی بغاوت قانونی۔

ریاست کے سینے میں دل ہوتا ہے نہ آنکھ میں مروت، بس مفادات ہوتے ہیں۔اس لئے ریاستوں کی باہمی دوستی ہو کہ دشمنی کچھ بھی مستقل نہیں۔

ریاست اپنے مقاصد پانے کے لئے کوئی بھی قدر، اصول، گروہ، نظریہ داؤ پر لگا سکتی ہے۔ البتہ قربانی دینے سے پہلے ریاست کوئی سا بھی دیدہ زیب لباس پہننا اور نیت کی بو لفظیات کے پھولوں سے ڈھانپنا نہیں بھولتی اور پھر خنجر کو نظریاتی عطر میں بھگو کے کسی کو بھی اپنے صغیر و طویل المیعاد مفاد کی قربان گاہ پر لٹا دیتی ہے۔

وہ جوشیلے جو ایران اور سعودی چپقلش کو کسی مخصوص پسندیدہ تناظر میں دیکھنے کے عادی ہیں، کم ازکم اس بار ضرور اپنے اپنے زنگ آلود آئینے چمکا لیں تاکہ پسِ پردہ کہانی نظر آ جائے اور یہ بھی کھل جائے کہ ایران اور سعودی عرب میں سے ایسا کون ہے جس کا اس وقت ساتھ دینا عین ثواب ہے۔

دونوں میں سے کسی کے لئے بھی دل کھولنے سے پہلے اپنی آنکھیں کھولیے۔

بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے