ذوالفقارعلی بھٹو اورقادیانی مسئلہ

پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں نوے سالہ قادیانی مسئلہ اپنے انجام کو پہنچا۔جس کے اثرات پاکستان کی حدوں سے نکل کر اَطرافِ عالم میں پھیلے ۔پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کی منظوری کے بعدیہ پہلاغیرمتنازع اورمتفقہ دستوری فیصلہ تھا،مگراِس کے باوجودبعض حلقے بوجوہ قادیانی مسئلے پر ذوالفقارعلی بھٹوکے مؤقف پر کئی سوالات اٹھاتے چلے آرہے ہیں ۔مثلاً یہ کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قراردینے کا فیصلہ بھٹو صاحب کا آزادانہ فیصلہ نہیں تھا،یایہ کہ اُن پر سعودی عرب کا شدیددباؤ تھا۔نیزوہ اس فیصلے کے ذریعے اپنے اقتدارکو مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ وغیرہ۔

اِس دستوری فیصلے کے متعلق حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے اِس اہم واقعہ کا پس منظرجاننا ضروری ہے۔1953کی تحریک ختم نبوت میں دس ہزارسے زائدمسلمان محض قادیانیوں کوغیرمسلم قراردینے کا مطالبہ کرنے کی وجہ سے ریاستی جبروتشدد کے نتیجہ میں خاک وخون میں تڑپادیے گئے۔تحریک کو حکومتی قوت کے وحشیانہ استعمال سے کچل دیاگیا۔نتیجہ یہ ہواکہ قادیانی اہم سرکاری عہدوں پر قابض اوراِقتداریوں کی بیساکھیاں بنتے گئے۔یہاں تک کہ معروف مصنفہ ڈاکٹرعائشہ جلال کے بقول :’’1970کے انتخابات میں قادیانیوں نے اپنے سرابراہ کی ہدایت پر پیپلزپارٹی کی ووٹوں اورنوٹوں سے حمایت کی تھی۔جس کے نتیجے میں انہیں حکومت میں کلیدی عہدوں سے نوازاگیا۔وزیرخارجہ عزیزاحمدبھی ایک احمدی تھا۔ 1972 کے وسط میں نیوی اورائرفورس کے حساس اوراعلیٰ عہدوں پر اورفوج میں کورکمانڈروں سمیت ایک درجن سے زائدقادیانی براجمان تھے۔(’’سٹرگل فار پاکستان ‘‘،صفحہ :205)قادیانی پیپلزپارٹی کی حمایت کرکے ،اپنے مذہبی سربراہ کے الہٰامات کی روشنی میں پاکستان پر قادیانی اقتدارکے خواب دیکھنے لگے تھے۔

دُوسری طرف اپنے ہم مذہب اعلیٰ افسران کی پشت پناہی کی بدولت وہ سرکاری ذرائع استعمال کرکے ،بیرونی ممالک خصوصاً افریقہ کے پسماندہ علاقوں کو اَپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکزبناچکے تھے۔جس پر عالم اسلام میں شدیداضطراب وتشویش پائی جارہی تھی۔اِسی دوران 29؍اپریل 1973کوآزادکشمیرکی اسمبلی نے ایک قراردادکے ذریعے قادیانیوں کو غیرمسلم قراردینے کا تاریخی فیصلہ کردیا۔جس کا اسلامی دنیا میں بہت خیرمقدم کیاگیا۔پاکستان میں بھی اِس فیصلے کی تحسین کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کو غیرمسلم قراردینے کے مطالبے میں شدت پیداہوئی۔جب22؍فروری 1974کو لاہورمیں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقادہواتواِسلامی ممالک کے سربراہوں بالخصوص افریقی ممالک کے سربراہان نے قادیانی سرگرمیوں کی بابت وزیراعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹوسے شکوہ کیاکہ پاکستان سے قادیانی ہمارے ممالک میں جاکر مسلمانوں کو قادیانی بنارہے ہیں توبھٹوپر قادیانیت کا اصل چہرہ سامنے آیا اورانہوں نے اُن کی شکایت کا ازالہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد08؍اپریل 1974کو مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کا اجلاس منعقدہوا۔جس میں دنیا بھر کی ایک سو سے زائد مقتدر اسلامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔جس میں ایک بنیادی قرار داد قادیانی امت کے متعلق منظور کی گئی کہ قادیانیوں کے کافر اور خارج از اِسلام ہونے کا اعلان کیا جائے اور اِسلامی ملکوں سے مطالبہ کیاگیا کہ جھوٹے مدعئ نبوت مرزا قادیانی کے متبعین کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اور انہیں غیر مسلم قرار دیا جائے ، نیز اُن کے لئے اہم سرکاری عہدوں کی ملازمتیں ممنوع قرار دی جائیں۔(چٹان لاہور 6 مئی 1974ء)

اِس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی تجمل حسین ہاشمی سیکرٹری مذہبی امور نے کی۔ اجلاس میں ٹی ایچ ہاشمی نے قراردادپر دستخط کیے اورقراردادکی تائید کرکے پہلی بارحکومت پاکستان کے قادیانیوں کے متعلق مؤقف کوواضح کیاکہ حکومت قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت تصورکرتی ہے۔ یادرہے کہ یہ قراردادتب منظورکی تھی گئی کہ جب ابھی تک پاکستان میں تحریک ختم نبوت کا آغازبھی نہیں ہواتھا۔جس سے واضح ہوتاہے کہ بھٹوکی حکومت قادیانیوں کی اصلیت وحقیقت جان چکی تھی ۔

تحریک ختم نبوت کا آغازمئی1974 کو ہوا۔جب نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء کی ٹرین پرچناب نگر(ربوہ)میں قادیانیوں نے حملہ کرکے طلباء کو لہولہان کردیا۔اس ظلم وتشدد کی خبرسے ساراپاکستان سراپا احتجاج بن گیا،جلسے ،جلوس اوراحتجاج کی نہ رُکنے والی لہرنے ملک بھرمیں جوش وخروش پیداکردیا۔تمام مسالک یک آواز ہوگئے۔گرفتاریاں اورپولیس گردی بھی دیوانوں کا راستہ نہ روک سکی۔ذوالفقارعلی بھٹو جوعلماء کرام کے ذریعے اورپھر اپنے غوروفکرسے قادیانیت کے مذہبی عقائداورسیاسی مقاصدسے آگاہ ہوچکے تھے ۔انہوں نے 13جون1974 کو ریڈیو اورٹیلی وژن پر اپنی نشری تقریرمیں دوٹوک کہاکہ مجھے اپنے مسلمان ہونے اورختم نبوت پر پختہ ایمان رکھنے پر فخرہے۔قادیانی مسئلہ پاکستان کے عوام کا مسئلہ ہے۔ہم عوام کے کسی مسئلے پر نظراندازنہیں کرسکتے۔(روزنامہ’’امروز‘‘،ملتان،14 ؍جون 1974)جس سے ظاہرہوگیاکہ بھٹو کے احساسات بھی دیگرمسلمانوں سے الگ نہیں ہیں اوروہ بھی عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔

بھٹو قادیانی مسئلہ کو اسمبلی کے فورم پرلے آئے۔قادیانیوں کو اپنا مؤقف کھل کرپیش کرنے کا موقع دیااوربالآخرفیصلہ اراکین اسمبلی پر چھوڑا اوراسمبلی کے تمام ارکان نے متفقہ طورپر قادیانیوں کے کفرکے بارے میں قرآن وسنت کے فیصلے کی توثیق کردی اوریوں قادیانی آئینی طورپر کافرقرارپائے۔علماء،مشائخ اورزعماء کی بے مثال قربانیوں اورتاریخی جدوجہدثمربارآورہوگئی۔تحریک ختم نبوت کی طویل محنت بھٹو مرحوم کے فیصلے کی صورت میں ٹھکانے لگی۔بھٹو مرحوم نے اس موقع پر کہا تھا کہ:’’میں فیصلے کا اعلان صرف پاکستانی قومی اسمبلی یا پاکستانی علماء و مفتیان کرام کا نہیں، بلک دُنیائے اسلام کے نامور اور جیّد علماء و مفتی صاحبان کے متفقہ شرعی فیصلے کے مطابق کر رہا ہوں۔ اُمت مسلمہ کا یہ وہ فیصلہ ہے ، جس کے لئے علامہ اقبالؒ ، پیر سید مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ جدوجہد کرتے رہے ہیں۔‘‘

ذوالفقارعلی بھٹونے قادیانیت کے کفراوراُن کی دین وملک کے خلاف سازشوں کابخوبی اوربروقت ادراک کرلیاتھا۔وہ بحیثیتِ مسلمان اپنے ایمان کی رُوسے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کو ضروری سمجھتے تھے۔جب اُن کی حکومت ختم کرکے اُنہیں جیل میں ڈال دیاگیاتوقادیانی اسمبلی کے مذکورہ فیصلے کو اُن کی مصیبتوں اورتکلیفوں کا سبب قراردیتے ہوئے مرزاقادیانی کے ’’الہٰامات‘‘کی صداقت کے بیان داغنے لگے تو بھٹومرحوم نے کرنل رفیع الدین کو ،جو جیل میں اُن کی نگرانی پر مامورتھے ،کہا کہ :’’بھئی! اگر اُن کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں ،پھر کہنے لگے کہ میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہو ں کی تلافی کرجائے اور اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ اِس نیک عمل کی بدولت معاف کردے ۔بھٹوصاحب کی باتوں سے میں اندازہ لگایا کرتا تھا کہ شاید انہیں گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا ،لیکن اُس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اِس کے برعکس ہے ۔‘‘(’’بھٹو کے آخری ۳۲۳دن ‘‘،از کرنل رفیع الدین )ذوالفقارعلی بھٹونے یہ فیصلہ کسی دباؤ میں آکر کیاتھا اورنہ اقتدارکی مضبوطی کے لیے ،بلکہ اُن کے اپنے بقول:یہ فیصلہ گناہوں کی تلافی اورنجات کے لیے کیاگیاتھا۔بصورتِ دیگر اگر وہ یہ اقدام نہ اٹھانا چاہتے تو کون اُن کو روک سکتاتھا؟1977میں انہوں نے اپنے خلاف قومی اتحادکی ملک گیرتحریک کا سامناتوکرلیا،مگروہ حکومت سے مستعفی نہ ہوئے۔

بات مقدراورنصیب کی ہے۔اللہ نے اُن سے یہ عظیم کام لینا تھا ،وگرنہ خواجہ ناظم الدین جیسے تہجدگزار،نمازی اورحاجی وزیراعظم بھی 1953میں تحریک تحفظ ختم نبوت کے رہنماؤں سے انکارکربیٹھے تھے۔بھٹو مرحوم نے اپنا سیاسی مستقبل حکومت اورزندگی داؤپر لگادی،مگر ختم نبوت کے تحفظ کو مقدم رکھااوروہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے اوراق میں امرہوگئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے