راستہ ابھی باقی ہے

معروف کمپیئر ساحر لودھی کی پہلی فلم راستہ باکس آفس پر ناکامی کے بعد زیادہ عرصے تک سینماؤں میں لگی نہ رہ سکی اور تقریبا ایک ہفتے بعد اتار لی گئی۔

راستہ کے ہدایت کارساحر لودھی، کہانی نگار شاہد نقوی اور ساحر لودھی، اور اداکار ساحر لودھی (کیونکہ اسکرین پر زیادہ تر ساحر ہی نطر آر ہے ہیں) ہی ہیں۔ فلم میں کچھ سین دیگر اداکاروں کے بھی ہیں جن میں اعجا اسلم، ثنا فاخر، شمعون عباسی، نوید رضا، سلیم معراج اور صائمہ اظہر شامل ہیں۔

فلم کی کہانی ایک نوجوان سمیر (ساحر لودھی) کے گرد ہی گھومتی ہے جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی بے روزگار ہے اور نوکری نہ ملنے اور خالی رہنے کی وجہ سے آوارہ عادتوں کا شکار ہوگیاہے جس کو اس کا بھائی انسپکٹر سلطان (اعجاز اسلم ) جو کہ ایک فرض شناس پولیس افسر ہے سخت ناپسند کرتاہے جبکہ سمیر کی بابھی (ثنا فاخر، جن کا فلم کوئی نام نہیں بلکہ بھابھی ہی ہے) اس کی حمایت کرتی ہے اور اپنے شوہر کو سمیر کی پریشانی سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن سمیر کی حرکتیں سلطان کی برداشت سے باہر ہیں اور ایک دن تنگ آکر وہ سمیر کو گھر سے ہی نکال دیتا ہے۔ اس ہی دوران سمیر کا واسطہ ایک بدمعاش شیری (نوید رضیا) سے پڑتا ہے جو شہر کے سب سے بڑے بدمعاش شاہنواز راجپوت (سموعن عباسی ) کا چھوٹا بھائی ہے۔ اور جب ایک مقابلے کے دوران شیری انسپکٹر سلطان کو زخمی کردیتا ہے تو سمیر پر انتقام سوار ہوجاتاہے اور وہ اپنے بھائی کا بدلہ لینے کےلیے خود بھی بدمعاشی اختیار کرلیتاہے۔ فلم کا ڈائیلاگ کہ ’یہاں کتوں کو مارنے کے لیے جانور بننا پڑتا ہے‘ فلم کے اس ہی کردا کی عکاسی کرتا ہے۔ سمیر کو ایک ڈاکٹر (عبیر رضوی) سے محبت بھی ہوجاتی ہے لیکن بھائ کا بدلہ اس کے لیے سب سے اہم ہے۔

راستہ کا پلاٹ ایک روایتی پاکستانی اور بھارتی فلموں کی طرح ہے لیکن اچھے سکرین پلے، مکالموں، ادکاری اور ہدایت کاری سے فلم کو بہتر بنایا جاسکتا تھا۔

فلم دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ساحرلودھی نے کئی سین اپنے زہن میں ہی فلمائے ہوئے تھے جنہیں وہ خود کرنا چاہتے تھے اور اب وہ کہانی میں بیٹھتے ہوں یانہیں ساحر لودھی نے ان مناظر کو ڈالنا ہی ہے۔ اس وجہ سے فلم بے تکے پن کا شکار ہوگئی ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ فلم میں کہانی بے ربط، ڈائیلاگ بے جان، اداکاری میں ادھورا پن اور ہدایت کاری کا فقدان ہے اور لگتا ہے کہ ساحر نے تمام توجہ اپنے مناطر کو فلمانےمیں ہی لگادی ہے لیکن اداکاری وہ پھر بھی نہ کرپائے۔ ممکن ہے وہ بہتر ہدایت کار نہ ہوں اس لیے آگے چل کر انہیں اپنی فلم خود ہی ڈائرکٹ کرنے پرہیز کرنا چاہیے۔

راستہ کی موسیقی مناسب ہے جس میں ایک گانا ’دل فقیر‘ استاد راحت فتح علی خان کی آواز میں بھی ہے جسے ساحر لودھی اور عبیر رضوی پر فلمایا گیا ہے۔ فلم میں اداکارہ متھیرا کا ایک آئٹم نمبر بھی ہے۔ آئٹم نمبر بھی فلم میں کوئی جان ڈانےمیں ناکام رہا۔

راستہ بیک وقت پاکستان، امریکا، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں لگائی گئی تھی، فلم باکس آفس پر انتہائی ناکام ثابت ہوئی اور ۵ دن میں صرف ۲۳ لاکھ روپے کا بزنس کرسکی۔

راستہ کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ فلم کی ریلیز میں باربار تاخیر بھی ہے۔ یہ تاخیر لوگوں میں تجسس پیدا کرنے کے بجائے ان کی توجہ ہٹانے کا سبب بنی۔

راستہ پر فلمی ناقدین نے زیادہ اچھے تبصرے نہیں کیے اور فلم کی اداکاری سے لے کر ہدایتکاری اور سینماٹوگرافی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیاہے۔
سوشل میڈیا گروپ دھنک کو انٹرویو دیتے ہوئے ساحر لودھی نے اعلان کیا تھا کہ وہ فلم کا دوسرا حصہ بھی بنائیں گے، اس ہی وجہ ست انہوں نے پہلی حصے میں کئی سوالات چھوڑ دیے ہیں، لیکن اتنی تنقید اور باکس آفس پر ناکامی کے بعد بھی ساحر دوسری فلم بنانے کا ارداہ رکھتے ہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے