ریاست منظور پشتین کی آواز سنے

ریاست منظور پشتین کی آواز سنے ،یہ آواز صرف منظور پشتین کی نہیں ہر پٹھان کی ہے ، ریاست بندوق کو قابو کر سکتی ہے دلیل کو نہیں، ریاست کو نہیں معلوم اسکے سامنے کوئی ہتھیار والا شخص نہیں کھڑا بلکہ دلیل سے بات کرنے والا ایک چوبیس سالہ نوجوان کھڑا ہے جس کے پیچھے نوجوان ، بوڑھے ، بچے ، عورتیں ، مائیں، بہنیں کھڑی ہیں ؟ آخر ریاست کو جائز مطالبات ماننے میں کیا تامل ہے ؟ وقت تیزی سے نکل رہا ہے اور ریاست نے کان بند کیے ہوئے ہیں،

کیا ریاست کو نہیں معلوم کہ

کچھ روز قبل جب ایک مولانا اس جنگ کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرانے لگے تو سامنے بیٹھا مجمع کھڑا ہو گیا ، سب ایک ہی بات کر رہے تھے کہ دہشت گردی امریکہ کی نہیں ریاست کی پیدا کردہ ہے ، مولانا مزید بات نا کر سکے ، اور انہیں اسٹیج چھوڑنا پڑا ، لوگ اس جنگ کا ذمہ دار ریاست کو سمجھنے لگ گئے ہیں اب انہیں بہلایا پھسلایا نہیں جا سکتا ،

کیا ریاست کو یہ بھی نہیں معلوم

کہ لوگ مزید قربانی دینے کے لیے تیار نہیں، کیا دھرنے میں آفتاب شیر پاو کی تقریر کے دوران لوگوں نے مزید قربانی دینے سے انکار نہیں کر دیا تھا ؟ پھر جب مشران معاہدہ کر چکے تو نوجوانوں نے معاہدہ ماننے سے انکار کر دیا اور مشران کو خالی ہاتھ جانا پڑا ،

کیا ریاست کو یہ بھی نہیں معلوم کہ میڈیا اب منظور پشتین کو سن رہا ہے ، عالمی میڈیا مسلسل کوریج دے رہا ہے ، فوج نے قبائلی علاقوں میں جنگ کی ہے ، جنگ میں پھول نہیں برسائے جاتے ، جنگ تباہی لاتی ہے ، منظور تباہی کی ایک ایک کہانی دنیا کو سنائے گا تو فوج کا کیا امیج بنے گا ؟ اب لوگ فوج کے کردار پر بحث کر رہے ہیں، وردی کی عزت پر حرف آئے تو ٹھیک نہیں،

مصیبت کی گھڑی میں لوگ فوج کی طرف دیکھتے ہیں ، جب لوگ فوج کے خلاف ہی نکل پڑیں تو پھر آخری حل مذاکرات اور سہولیات فراہم کرنا ہی ہوتا ہے ،

قبل اس کے کہ مزید لاوا ابلے ریاست منظور کو گلے لگا لے اسکے گلے سن لے ، اس کی باتوں پر عمل کر لے ، وہ جائز باتیں کر رہا ہے اسکی باتوں کا حل نکالا جائے ،

پتا نہیں مجھے کیوں آج بھی یقین ہے کہ ریاست ایک قدم اٹھائے گی تو نوجوان دو قدم اٹھائیں گے ، اب پروپیگنڈے سے کچھ نہیں ہونے والا اب فقط اقدامات اٹھانے ہونگے اور ان آوازوں کو سننا ہو گا _

ملک کے اندر عوام کی بے چینی ملک کو کھوکھلا کر دیتی ہے ، اور پھر اس وقت ریاست کے خلاف کسی تحریک کا اٹھنا بھی ٹھیک نہیں، ادھر امریکہ میں ٹرمپ جیسا پاگل بیٹھا ہے جو صبح اٹھ کر ٹویٹر پر شروع ہو جاتا ہے ، پڑوس میں مودی جیسا شدت پسند بیٹھا ہے جو جنگ کا آرزو مند ہے، اور ایران نے چاہ بہار تو بھارت کے حوالے کر دی ، بھارت وہاں جو گل کھلا رہا ہے کیا وہ اداروں کو نہیں معلوم ؟ اور پھر افغانستان بھی روز شکایتیں کرتا پھر رہا ہے، ملک کے اندر سی پیک پر کام جاری ہے اور ساتھ سیاسی عدم استحکام بھی ہے ،سوال یہ ہے کہ آخر ریاست کن کن محاذوں پر کام کرے گی ؟ دیر نا کی جائے یہ وقت دیر کا نہیں، اللہ اس ملک کو سلامت رکھے _

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے