’ریفرنس کا مقصد ججوں کو خاموش کرانا ہے‘، جسٹس قاضی فائز کا جواب الجواب

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف اپنا جواب الجواب عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جواب الجواب میں کہا گیا ہےکہ اہلخانہ کی ملکیتی جائیدادوں کی منی ٹریل دینے کا پابند نہیں، اہلیہ اوربچے میرے زیر کفالت نہیں اس وجہ سے مالی معاملات کا علم نہیں، اہلیہ اور بچوں کی زیرملکیت جائیدادوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا نہیں کہا جاسکتا۔

جواب میں کہا گیا ہےکہ صدارتی ریفرنس کا مقصد ججوں کی عیب جوئی اور ان کو خاموش کرانا ہے،الزام لگا کر میری شہرت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جواب میں مزید کہا ہے کہ پہلی جائیداد 2004 میں 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈ پاکستانی 2 کروڑ 60 لاکھ روپے میں خریدی، دیگر 2 جائیدادیں 2013 میں بالترتیب 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ اور 2 لاکھ 70 ہزار پاؤنڈ میں خریدیں، تمام جائیدادوں کی مالیت مل کر بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ایک کنال کی قیمت سے کم ہے۔

معزز جج کے جواب کے مطابق کراچی میں 1600 مربع گز کا گھرہے جو پچھلے 10 سال سے خالی ہے، بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کوئٹہ اور جج سپریم کورٹ اسلام آباد میں رہائش پذیر رہا ہوں، لندن یا بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اور نا ہی اہلیہ کی دوہری شہریت ہے۔

جسٹس قاضی فائز نے اپنے جواب الجواب میں اعتراض اٹھایا کہ کونسل کا جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرانا درست نہیں، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانےکی اجازت کا ریکارڈ موجود نہیں، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کا جواب جمع کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے، اٹارنی جنرل صرف وفاقی حکومت کو قانونی معاملات میں مشورے دیتا ہے نا کہ نجی پریکٹس کرے۔

معزز جج نے اپنے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ نے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف دائرہ اختیار سے باہر جانے پر کارروائی کا حکم دیا، کونسل کو اختیار حاصل نہیں تھا کہ اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی ذمہ داری دیتی، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو اپنا وکیل تفویض کرنا آئین کی شق 100 کی خلاف ورزی ہے۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل انور منصورخان وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں، بطور وفاقی حکومت کی نمائندگی یہ عمل آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، اٹارنی جنرل کوکارروائی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے تھا جس کیلئے وفاق نےانہیں مختص نہیں کیا،کسی وکیل کو جج کے ساتھ کسی نجی معاملے پر بات چیت یا بحث نہیں کرنی چاہیے، کونسل اور سیکریٹری کے مناسب جواب نا آنے پر الزامات کو تسلیم شدہ تصور کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے