زبانوں کی سن لی پکار

وفاقی حکومت کی جانب سے نصاب سازی کے لئے بنائے گئے کونسل نے گزشتہ دنوں ابتدائی ڈرافٹ کی منظوری دیتے ہوئے ملک بھر میں انگریزی زبان کو زریعہ تعلیم قرار دیدیا تھا۔ پاکستان میں ایک ہی نصاب پڑھانے اور سابقہ نصاب پالیسی میں ترمیم کے لئے بنائے گئے قومی نصابی کونسل نے اس اقدام کے زریعے قومی وحدت اورہم آہنگی کے حصول کے لئے اہم قرار دیا۔ انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بناتے ہوئے یہ دلیل دیدی گئی کہ سائنس، ٹیکنالوجی جیسے مضامین میں طلباء کو بعد میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے ابتداء سے ہی انگریزی میں تعلیم دی جائے تو یہ مشکلات بعد میں کم ہوجائیں گی۔جبکہ سوشل سائنس کے مضامین کو اردو میں پڑھانے کی تجویز دیدی گئی جن میں اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان،تاریخ، جغرافیہ جیسے مضامین شامل ہیں۔اس مجوزہ ڈرافٹ میں مختلف کلاسوں کے لئے زریعہ تعلیم کو بھی ترتیب دیکر صوبائی حکومتوں کو بھجوایا گیا۔لاہور میں منعقد ہونے والے چار روزہ سیمینار کے بعد بنائے گئے ابتدائی ڈرافٹ میں مادری زبانوں کو نظر انداز کرنے پر صوبائی حکومتوں اور ملک بھر میں ماہرین لسانیات نے اس پر احتجاج کیا۔

اس حقیقت کو کسی فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھ کر نہیں جھٹلایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کثیراللسانی ملک ہے اور ایک زبان کو سرکاری زبان یا زریعہ تعلیم قرار دیکر باقی زبانوں کو دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ شمالی پاکستان اس حوالے سے انتہائی تنوع کا حامل علاقہ ہے جہاں جہاں پر کم از کم 50زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان کی چھ یا سات بڑی زبانیں اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، ہندکو اور سرائیکی کے بولنے و الوں کی تعداد سب سے زیادہ ہونے کی وجہ سے پالیسی میکرز ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان زبانوں کی حیثیت دوسرے زبانوں سے زیادہ ہے یا ان کو نصابی اور غیر نصابی معاملات میں شامل کرنے سے دیگر زبانوں کی جگہ بھی بن جائے گی۔ کیونکہ ایک طویل عرصہ سے پاکستان میں بالخصوص زریعہ تعلیم کے حوالے سے انگریزی اور اردو کے علاوہ کسی زبان پر گفت و شنید، سوچ بچار نہیں کی گئی ہے اسی لئے سیاسی حکومتوں کو ہمیشہ یہ غلط فہمی رہتی ہے۔ اس سے قبل 2017 میں شروع کئے گئے مردم شماری میں بھی شاید اسی وجہ سے انہی زبانوں کو شامل رکھا گیا اور باقی تقریباً 70زبانوں کو صرف لفظ ’دیگر‘ میں شامل کردیا گیا۔

گلگت بلتستان میں بولی جانے والی زبانوں کو سرکاری سطح پر کبھی بھی پذیرائی نہیں مل سکی ہے، زبانوں کو فروغ دینے کے معاملے میں گرچہ کسی بھی قسم کی کوئی آئینی رکاوٹ بھی نہیں ہے اس کے باوجود یہاں پر بولی جانے والی شینا، بلتی، بروشسکی، کھوار، وخی، گوجری، اور دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں بسنے والے لوگوں کے ساتھ آنے والی زبانوں کو ہمیشہ نظر انداز ہی رکھا گیا ہے۔گلگت بلتستان صوبائی حکومت نے 2017میں اس حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل قدم اٹھاتے ہوئے مقامی زبانوں پر مشتمل نصاب بنانے اور اس کو رائج کرنے کا اعلان کردیا تھا تاہم ابتدائی چند دنوں کے بعد یہ منصوبہ حکومتی عدم توجہی کی نذر ہوکررہ گیا۔ گزشتہ دنوں اس حوالے سے چلائی گئی ایک خبر پر نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے رپورٹ طلب کرلی جبکہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے بھی متعلقہ زمہ داروں سے ملاقات کرکے بات کو آگے بڑھانے کی یقین دہانی کرائی تھی کیونکہ اطلاع کے مطابق گلگت بلتستان میں نصاب سازی کا اختیار وفاق نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا جس کے لئے وزارت امور کشمیر و جی بی کے منظوری کی ضرورت تھی تاکہ مقامی زبانوں پر مشتمل نصاب بنایا جاسکے۔

صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے اس پیشرفت کے ساتھ ہی وفاقی حکومت کے قومی کونسل برائے نصاب نے اس ’وحدانی‘ نصاب کا اعلان کیا تھا۔ تاہم تمام صوبوں کی جانب سے اس پالیسی سے اختلاف کرنے اور ماہرین لسانیات کی جانب سے اس پر تنقید کرنے کی وجہ سے مذکورہ کونسل نے اسلام آباد میں بلائے گئے اگلے ہی اجلاس میں طویل غور و خوض کرکے اس میں ترمیم کرنے کی منظوری دیدی۔

اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاس کے احوال بتاتے ہوئے ایک قومی اخبار نے بتایا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے وزارت تعلیم و فنی تربیت جاوید جبارکی موجودگی میں اس پر بحث مباحثہ ہوا۔ اس اجلاس میں تمام صوبائی حکومتوں بشمول گلگت بلتستان کو بھی بلایا گیا جبکہ ملک کے بڑے تعلیمی اداروں آغا خان فاؤنڈیشن، لمز، بیکن ہاؤس جیسے اداروں سے بھی مشاورت کی گئی۔جس کے بعد یہ فیصلہ طے کرلیا گیا کہ مادری زبانوں پر مشتمل نصاب کو شامل کرنے کے حوالے سے اختیارات صوبائی حکومتوں کو منتقل کرلئے جائیں گے تاکہ وہ اپنی ضرورت اور اپنے صوبائی احوال کو سامنے رکھتے ہوئے نصاب سازی کاکام سرانجام دے سکیں۔ اس نئے فیصلے کے مطابق کلاس پنجم (v) تک مادری زبانوں میں تعلیم دی جائے گی۔ جس کا حتمی فیصلہ اپریل کے شروع تک ہوگا۔ نئے نصابی پالیسی میں یہ تجویز بھی دیدی گئی ہے کہ اسلامیات میں دیگر مذاہب یا ادیان کو بھی شامل کرکے اسلامیات کے سکوپ کو بڑھائیں، یہ بات موضوع سے متعلق نہیں لیکن خوش آئند ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے مادری زبانوں کے لئے اٹھائے گئے اس مثبت قدم کے بعد یہ امید جاگ گئی ہے کہ اب طلباء بھی کوسوں دور کی کہانیاں پڑھنے کے بجائے اپنے ثقافت و تاریخ سے اخذ کئے گئے نصاب پر مشتمل سبق پڑھ سکیں گے۔ پاکستان کے وادی سوات میں مادری زبان پر مشتمل نصاب ایک نجی تعلیمی ادارے نے شروع کررکھا ہے جہاں پر طلباء کی زہنیت دیگر اداروں سے بہت تیز ہونے کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی وہ آگے آگے ہیں۔ اور یہی نہیں جہاں کہیں پر بھی دوہرے زبانوں کے حامل افراد ہیں ان کی استعداد کار دیگر سے بہت بہتر رہی ہے۔

گلگت بلتستان میں گزشتہ دہائی میں مادری زبان پر مشتمل نصاب کے لئے ایک غیر ملکی ماہر تعلیم و لسانیات کارلا ریڈالف نامی خاتون نے بھرپور سعی کی۔ انہوں نے گلگت کے مختلف علاقوں میں مادری زبان شینا پر مشتمل نصاب قائم کرنے کے لئے نہ صرف اقدامات اٹھائے بلکہ اپنی فنڈنگ کے زریعے سکولوں کی عمارتیں بھی تیار کرلی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ ایک ٹریفک حادثے میں خالق حقیقی سے جا ملی۔ گلگت بلتستان حکومت کی اس حوالے سے تیاری دیگر سے بہتر اور زیادہ ہے کیونکہ ان کا فیلڈ ورک پہلے سے تیار ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ رواں سال کے دوران ہی گلگت بلتستان میں مادری زبانوں پر مشتمل نصاب کو سکولوں کو رائج کیا جاسکے گا اور ہماری’ماں‘ خوش ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے