"سرکار”

شاہہوں یا شاہوں کے شاہ… سرکار۔۔۔ تو
ہر جگہ ہی ان کی رہے ہیں
آج ہماری بات ہوئی خوشبو والی سرکار سے ہوئی۔۔ جو ہر جگہ اپنا سکہ اونچا رکهتے ہیں
کبھی بزرگ بن کر دعائیں دیتے ہیں کبھی خالہ خیرن کی طرح طعنے دے کر سیاست، معاشرت اور مذہب کو لتاڑ دیتے ہیں ۔۔۔
کسی حکومتی پوسٹ پر خوشبو والی سرکار نے بینڈ بجا دیا، ہم نے بھی ازراہ تفنن ماچس کہا تو سیخ پا ہوگئے
اور حلوے والی سرکار "ف” کی طرح بولے،،،
آئین کے تناظر میں ہم بھلے ہیں، حکومت بنانے والوں میں سے ہیں ، آگ لگانے والوں میں سے نہیں۔۔
معاملہ سیریس ہوتا دکھائی دیا تو ہم نے مٹی کا تیل کہہ ڈالا، جو آگ پر چهڑکو تو خوب بھڑکتا ہے۔۔
جیسےمحترم ناراض ہوگئے تھے۔۔لیکن حضرت ایسا سُن کرخوش ہوگئے اور لگے مٹی کے تیل کی خوشبو کے گُن گانے۔۔۔
سوہو ئے نا خوشبو والی سرکار،،،اورنج، گرین یا میٹرو ابھی کوئی بس نہیں ہوئی۔۔
ہمارےہاں حکمرانوں کی کهنچائی کرنی ہوتو انہیں سرکار ہی کہتےہیں۔۔۔
مودیسرکار کے بارے میں سنا ہے،،، برابروالے ملک میں ہوتے ہیں ، پہلے وہ چائے والی سرکار تھے آجکل پوری دنیا کو چائے پلا رہےہیں۔۔مذاکرات کانام لو تو طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں ورنہ راتوں رات دوست کی نواسی کی شادی میں آدھمکتے ہیں ،
کوئی اقتصادی ، یا ملکی معاہدے نہیں ،،، بس یاری ۔۔۔ویسے تو جمہوریت نے ملک کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا اور
ہمیشہ ہی بوٹوں تلے خوش رہے اور اسی میں چھید کیا تو اسی سے شروع کیے لیتے ہیں ملک میں ہمارے مارشل لاء لگے ۔۔۔
کوڑے، ڈنڈے جوتے برسیں گولی چلے تو ۔۔لاٹھی گولی کی سرکار۔۔۔
تھرمیں بھوک پیاس ننگ ترنگ بے چھت و آبرو سیکڑوں مرجائیں انسان ہوں یاجانور…
نہ بلاول کے سر پر جوں رینگے نا قدیم علی شاہ کے۔۔۔
بلکہ قدیم علی شاہ تو ہر وقت ہی سب اچها ہے کے گن گاتے ہیں اسمبلی ہو سیشن یا کوئی تہوار ۔۔۔چین کی بانسریا بجاتے اور سوتے ہی ملتے ہیں ۔۔۔
اور ان کی سنده سرکار ٹُن۔۔ہمیشہ ہی ٹن، گزشتہ دنوں ایک صحافی نے بھنگ/ٹن سرکار کو جگانے کےلیےسندھ اسمبلی میں اسلحے کے ساتھ اسٹنگ آپریشن کیا، تو بجائے غلطی مانے اور سیکورٹی فراہم کرنے ،،، اتنے گرجے برسے کہ صحافی کو پیشہ وارانہ ذمہ داری کے بدلے جیل کی ہوا کھانی پڑگئی یہ ہیں بھنگ سرکار۔۔۔بلاول بھٹو زرداری۔۔۔جسے اپنے خاندان کا نہیں پتا، عوام اور ان کے مسائل کا
نہیں پتا، اردو بولنی نہیں آتی، سمجھ نہیں آتی ،، تقریر کرنے کھڑے ہوجاتے ہیں ،،،ان کی طرح عمران خان کو بھی نہ عوام نظر
آتی ہے نہ مسائل۔۔۔نظر آتے ہیں تو صرف میاں صیب۔۔۔کرکٹ کے میدان میں مشہور ہوئے تو اسپتال بنا لیے ، فلاحی کام میں بھی شہرت پائی ، شادی کی تو بھی شہرت ملی طلاق پر بھی، سیاست کے میدان میں 18 سال سے ہیں لیکن شہرت نہ ملی سو،،، پکڑی مرغی کی ٹانگ
اور کود گئے میدان میں ،،، میاں صیب میاں صیب ٹھنڈے کنٹینر میں بیٹھے ہوں ، سڑک پر ہوں اسمبلی میں ہوں ملک میں ہوں یا ملک
سے باہر۔۔ بس میاں صیب اگر ان کی حکومت آئی تو ہر کوئی نسوار منہ میں دبائے میاں صیب کو للکارتا ہی نظر آئےگا کام تو انہوں نےبھی
کچه نہیں کرنا، سوائے نسوار دبانے اور دبوانے کےبلوچستان سرکار تو الگ ہی ہے… جہاں پاکستان حکومت کیا پاکستان کو مانا ہی نہیں جاتا… پھر وسائل کا رونا خواہ مخواہ کا… گویا کہ نہ کهائیں گے نہ کهانے دیں گے… ضائع کردیں گے… یہ
ہیں قبائلیوں کی سرکار…میاں صیب کی حکومت ہے تو چٹ بھی میری پٹ بھی میری …نہ کرپشن کا جواب دیں گے ،،،نا پاناما کا،،،نہ بجلی دیں گے نہ پانی … الزامات کا جواب بھی الزامات سے دیں گے…ان کو اگر الزامات والی سرکار کہیں تو کیا ۔۔۔گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو تو کوئی کهاتے میں لاتا ہی نہیں…وہاں نام حکومت کا ہے اور سرکار کسی اور کی… تو انہیں تو رہنے ہی
دیجئیے… ارے ارے ایک سرکار تو رہ ہی گئی… پان والی گٹکے والی سرکار… زبان پر تالا بندی ہے آجکل… کچه نہ کہیو
اب…

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے