سر رہ گزر……. مقابلہ تو دل نافرماں نے خوب کیا

سابق چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری نے کہا ہے: شریف برادران اور جعلی خان جلد سیاست سے باہر ہوں گے، شیخ سعدیؒ نے کہا تھا؎
چہل سال عمر عزیزت گزشت
مزاج تو از حال طفلی نہ گشت

(چالیس برس عمر عزیز کے گزر گئے مگر تیرا مزاج وہی بچوں والا ہے)

ایک ایسے سیاستدان جن کی عمر 40سے بھی کافی آگے نکل چکی ہو، اور وہ ذاتیات پر حملے کو سیاست قرار دیں تو یہ اضحوکہ ہے، آج کون سیاست میں اِن ہے کون آئوٹ یہ حتمی فیصلہ سنانا ممکن نہیں، البتہ مقدمہ کوئی ہار سکتا ہے کوئی جیت سکتا ہے اور اس کا انتظار پورے پاکستان کو ہے، ہم نے دیکھا کہ ہمارے ہاں کوئی بھی دل ناتواں رکھنے کی بات نہیں کرتا، ہر ایک خونخوار شیر کی طرح دھاڑ رہا ہے، عاجزی انکساری کسی کے لہجے سے نہیں ٹپکتی، سیر کوئی بھی نہیں سب سوا سیر ہیں، ہمیں خوشی ہے کہ اس ملک میں اور کچھ ہو نہ ہو سپریم کورٹ اپنے پورے اختیارات کے ساتھ موجود ہے، اس لئے تشویش کی کوئی بات نہیں، آئین و قانون کے تحت عدالت کا فیصلہ سامنے آ جائے گا سب نے اسے ٹھنڈے پیٹوں قبول کرنے کا بھی بار بار اعلان کیا ہے، تو فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، ظالم کا کردار ادا کرنے کے لئے ہمارے ہاں سیاست کا مظلوم ہونا بہت ضروری ہوتا ہے، سیاست تو ایک طرز عمل ہے جسے اختیار کیا جا سکتا ہے اس سے آئوٹ کوئی نہیں ہو سکتا البتہ اسے اختیار کیا جا سکتا ہے، عدالتوں کے فیصلےدقیع ہوتے ہیں، لیکن ان سے عوام الناس کا مائنڈ سیٹ کرپٹ لوگوں کو منتخب کرنے کی دیرینہ عادت سے پاک ہو سکتا ہے، اس وقت تک اس بارے حتماً کچھ نہیں کہا جا سکتا جب تک عوامی سطح پر بیداری پیدا نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭

سماع وعظ کجا نغمۂ رباب کجا؟
جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری حافظ حسین احمد نے کہا ہے:خان ’’اعوان‘‘ کے ناز اٹھانے لگے تو ناز ہی چلی گئی، چوہدری نثار کے شکوہ کا جواب احسن اقبال نے زیر لب جواب شکوہ کے طور پر دیا، بڑی دیر بعد حافظ صاحب پردہ سیاست پر بذلہ سنج ہوئے ہیں، انہوں نے جس سیاسی رومانویت کے انداز میں محترمہ ناز کے پی ٹی آئی چھوڑ کر واپس پی پی میں جانے کا اظہار کیا ہے، اسے کوئی بھی باذوق شخص نظر انداز نہیں کر سکتا، اگر حافظ صاحب کو کچھ دیر کے لئے مولانا فضل الرحمٰن سے الگ کر کے دیکھا جائے تو وہ ہماری سیاست کے عندلیب نغمہ سنج ہیں، جو جب بھی بذلہ سنج ہوتے ہیں تو اچھی خاصی بھاری خبر کو اتنا ہلکا پھلکا بنا دیتے ہیں، کہ کسی کا فشار خون بلند نہیں ہوتا، ناز جو چند روز پہلے بنی گالہ میں چہک رہی تھیں اب اپنی چھوڑی ہوئی پیپلز پارٹی میں آسودہ ہو چکی ہیں، تحریک انصاف نے ان کے جانے کو ایک معمولی کارکن کا جانا قرار دیا مگر حافظ حسین نے انہیں بابر اعوان کا ہم پلہ قرار دے دیا ہے، مگر انہوں نے اعوان و ناز کو شکوہ جواب شکوہ کا نام دے کر اقبال کی روح کو اذیت پہنچائی، اس کی وجہ شاید ان کی کانگریسی وراثت ہے، جو قائد و اقبال کی مخالف تھی، ہمیں سیاسی تاریخ کو سامنے رکھ کر شخصیات کا مقام و مرتبے کا تعین کرنا ہو گا، یہ پاکستان کی فتح ہے کہ اس کے وجود میں آنے کے مخالف آج پاکستان میں معاون سیاست کاروں کا کردار ادا کر رہے ہیں پی ٹی آئی کے خلاف ان کا بیان رنگ تغزل لئے ہوئے ہے، اگرچہ ان کے قائد بھی ان کے طرز بیان کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بقول عندلیب شیراز؎
چیست نیست بہ رندی صلاح و تقویٰ را
سماع وعظ کجا نغمۂ رباب کجا
بہرحال پاکستان کے ساتھ ہم سب مل کر سوتیلا پن کر رہے ہیں، جس کا خمیازہ بھی صرف عوام اٹھا رہے اور جس کا فائدہ صرف خواص کو پہنچ رہا ہے۔
٭٭٭٭
سازش
یہ کہنا کہ باہر یا اندر سے سازش ہوئی ہے یہ ہمارے حکمرانوں کا پرانا وطیرہ ہے، تاریخ عالم میں جتنی تہذیبیں مٹی ہیں اور قومیں تباہ ہوئی ہیں وہ ظالموں کو حق حکمرانی دینا ہے، یہ حربہ بھی نا اہل حکمران اختیار کرتے ہیں کہ حکومتی ادارے صحیح نہیں اصل سازش اندر سے ہوتی ہے، اور وہ خود ارباب حکومت ہی کرتی ہے، باہر کی سازشیں بعد میں ہوتی ہیں، جب حلال حرام کی تمیز اٹھ جائے، اقربا پروری رعایا پروری کی جگہ لے لے، غریبوں کی کمائی لٹ جائے، شریفوں کی عزت کو تحفظ نہ ملے، نا اہلی حرام خوری چوری چکاری اوپر سے نیچے آتی ہے، اور جب عوامی سطح پر منتقل ہوتی ہے تو حاکم اور رعیت کے مفادات ایک جیسے ہو جاتے ہیں، گویا حکمران، عوام کو بُری عادات کا شکار بنا کر کھلے ہاتھوں کرپشن کرتے ہیں، یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور پوری قوم کو اس کے کئے کی سزا ملتی رہتی ہے کہ ایسے میں بے آواز لاٹھی نمودار ہوتی ہے کیونکہ کمزور ترین چیز جھوٹ ہے، اور سچ طاقتور، سازش سیاست میں ایک ٹوٹی بیساکھی جسے بالعموم کرپٹ حکمران استعمال کرتے اور تھوڑی دور جا کر گر پڑتے ہیں، سازش کبھی کامیاب نہیں ہوتی مگر سازش کرنے والے اسے کامیاب سمجھ کر خوش ہوتے ہیں جبکہ کچھ عرصہ گزرنے پر سازشی خود اپنے دام میں اس بری طرح پھنس جاتے ہیں کہ جوں جوں نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھنستے جاتے ہیں، پاکستان حسن نیت، حسن نظریہ اور حسن کارکردگی کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا اسے مٹانا خود کو مٹانے کی کامیاب کوشش ثابت ہو گی، اب وہ دن دور نہیں کہ جس ملک سے اس کے اپنے باشندے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اس کی جنت میں واپس آئیں گے، یہ خوش فہمی نہیں حقیقت ہے۔
٭٭٭٭
آج رنگ ہے جی!
….Oشاہ محمود قریشی وزیراعظم عمران خان کے نعرے لگوا ئے۔
نعرے لگوانے کی حد تک کوئی حرج نہیں۔
….Oمحمود اچکزئی، فضل الرحمٰن، اسفند یار، آفتاب شیر پائو کے بعد حاصل بزنجو بھی نواز شریف کی حمایت میں میدان میں آ گئے،
میدان میں تو کوئی بھی آ سکتا ہے، ویسے بھی وزیراعظم کو سپورٹ کرنے والے تمام حضرات سے یہ حمایت بعید نہ تھی۔
….Oمریم اورنگزیب:نواز شریف نے کارکنوں کو کال دی تو عمران چھپ نہیں سکیں گے،
وہ چھپنے کی کوشش بھی نہیں کریں گے،
….Oخورشید شاہ:نواز شریف کے پاس 2دن ہیں فوری استعفیٰ دے دیں۔
وزیراعظم کو صرف سپریم کورٹ فارغ کر سکتی ہے، وہ خود کو فارغ نہیں کر سکتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے