سعودی ایران تنازعہ ہے کیا ؟

وزیر اعظم نواز شریف اور ۤآرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحتی مشن پر روانہ ہو چکے ہیں ۔ان دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ در اصل ہے کیا ؟ یہ تنازعہ کتنا مذہبی ہے اور کتنا نسلی ؟ تزویراتی سطحوں پر دونوں ممالک کے مفادات کیا ہیں اور وہ کیسے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں ؟ ان سوالوں کا سامنا ہمارے بہت سے قارئین کو ہے ۔ بالخصوص یہ اس وقت مزید ابھر کر سامنے آئے ہیں جب سعودی عرب نے ایک معروف شیعہ رہنما شیخ نیمارالنمرکو دو جنوری 2016کو پھانسی دے دی جس کے رد عمل کے طور پر تہران میں سعودی سفارتخانے کو آگ لگا دی گئی ۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بلکہ سعودی اتحادیوں بحرین ،سوڈان،کویت اور متحدہ عرب امارات نے بھی ایران سے اپنے تعلقات مقطع کر دیئے۔اس سے پہلے یمن اور شام کے مسئلے پر بھی دونوں ممالک میں کشیدگی چل رہی تھی ۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی آج کی نہیں بلکہ صدیوں پرانی ہے ۔جس کی ایک اہم وجہ مذہبی اختلافات ہیں ۔سعودی عرب سنی اسلام کا پرچار کرتا ہے جب کہ ایران شیعہ اسلام کا ۔ اسرائیل ، تیل اور علاقے میں مغربی اثر رورسوخ بھی اس تنازعے کو گہرا اور وسیع کرتے ہیں ۔

مقامات ِ مقدسہ کی جنگ

1744 سے جزیرہ نما عرب کا کنٹرول وہابی یا سلفی مکتب فکر کے پاس چلا آرہا ہے جبکہ ایران پر شیعہ مکتب فکر کی حکومت سولہویں صدی میں قائم ہوئی ۔اسلام کے یہ دونوں مکاتب فکر مذہب کی توجیح اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں ۔ماضی میں کئی بار سعودی عرب نے ان مقامت ِ مقدسہ کو جن کی شیعوں کے نزدیک مذہبی اہمیت تھی انھیں بدت قرار دے کر مسمار کر دیا ۔ایسا ہی ایک واقعہ 1926میں ہوا جس پر ایران نے اپنے شہریوں کو حج کی ادائیگی سے روک دیا اور سعودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دستبردار ہو جائے ۔1944میں سعودی عرب نے ایک ایرانی شہری کا سر قلم کر دیا جس پر الزام تھا کہ اس نے مسجد الحرام کی بے حرمتی کی تھی۔ایران نے اس پر سعودی عرب سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے تھے اور اپنے شہری کی ہلاکت پر خون بہا طلب کیا ۔

اسرائیل کا قیام

جب اسرائیل نے 1948 میں آزادی کا اعلان کیا تو امریکی صدر ہیری ٹرومین نے فوراً نو آموز یہودی ریاست سے سفارتی تعلقات استوار کر لئے جس پراس وقت امریکہ کے اتحادی ایران نے بھی نہ صرف امریکہ کی پیروی کی بلکہ اسرائیل کو مبارکباد بھی دی ڈالی ۔کئی دہائیوں تک ایران اور اسرائیل قریبی اتحادی رہے اور ان کے درمیان فوجی اور معاشی تعلقات استوار رہے ۔لیکن سعودی عرب نے دوسری عرب اقوام کے ساتھ مل کر اسرائیل کے ساتھ 1948میں جنگ چھیڑ دی ۔عرب ممالک نے اس وقت سے لے کر آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ۔

1970 کےواقعات

امریکہ اسرائیل کی مدد کر رہا تھا جس پر سعودی عرب نے دیگر عرب ممالک کے ساتھ مل کر امریکہ کو تیل برآمد کرنے پر پابندی لگا دی ۔ایران نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔سعودی عرب کے مقابلے پر ایران بڑے پیمانے پر جنگی تیاریاں کر رہا تھا اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں بھی سرگرداں تھا جس پر سعودی عرب ہمیشہ خطرہ محسوس کرتا تھا ۔ایران نے 1960میں خواتین کو بہت زیادہ حقوق دیئے جس پر سعودی عرب کا خیال تھا کہ اس سے اسلامی اقدار کو خطرہ ہے ۔

رضا شاہ پہلوی نے اپنے سعودی ہم منصب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”میرے بھائی اپنی نظر میں وسعت پیدا کرو ،سکولوں میں مخلوط تعلیم کو رواج دو ،عورتوں کو مختصر لباس پہننے دو اور ڈسکو کلب کھولو”۔
جس پر شاہ فیصل بن عبد العزیز نے جواب دیا ”میں آپ کو یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ آپ فرانس کے بادشاہ نہیں ہیں ،نہ ہی آپ فرانس کے بادشاہ کے محل میں رہتے ہیں ۔آپ ایران میں رہتے ہیں جس کی 90فیصد آبادی مسلمان ہے آپ کو یہ بات ہر گز نہیں بھولنی چاہئے ”۔

ایرانی انقلاب

جب ایران میں ایک بغاوت کے نتیجے میں 1979میں آیت اللہ خمینی بر سرِ اقتدار آگئے تو اس سے سعودی عرب اور ایران اسرائیل کی مخالفت میں تو ایک صفحہ پر ۤگئے مگر انقلاب سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ۔سعودی بادشاہوں کا خطرہ تھا کہ اس انقلاب کے اثرات مملکت سعودیہ کو متاثر کر سکتے ہیں اور خمینی کاا ثر رورسوخ سعودی عرب میں بڑھ سکتا ہے جس کی آبادی کا ایک حصہ شعیوں پر مشتمل ہے ۔ سعودی پولیس نے ایسے کئی شیعوں کو گرفتار کیا جو خمینی کے فرمودات مکہ اور اس کے گرد و نوح میں تقسیم کر رہے تھے ۔ایران کی شیعہ حکومت نے سعودی عرب کی وہابیت کے خلاف ایک محاذ بنا لیا ۔

عراق ایران جنگ

انقلاب ایران کے بعد جب عراقی صدر صدام حسین نے عراق میں اکثریت کی حامل شیعہ آبادی میں بغاوت کے آثار دیکھے تو ایران کے خلاف صدام کے خدشات بڑھ گئے جس پر سعودی عرب نے ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے صدام حسین کو 25 ارب ڈالر دیئے ۔1980 سے 1988تک یہ جنگ جاری رہی جس میں پانچ لاکھ ایرانی لقمہ اجل بن گئے ۔

مکہ میں قتل عام

2 اگست 1987کو حج کے دوران ہزاروں کی تعداد میں ایرانی حجاج کرام اکھٹے ہوگئے ۔ ایران عراق جنگ کے خلاف امریکہ اور سعودی پالیسیوں پر احتجاج کرنے لگے جس پر ایرانی اور سعودی پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔400 سے زائد افراد مارے گئے جن میں سے 275 ایرانی شہری تھے ،سعودی حکام نے مارے جانے والوں کی وجہ بھگدڑ کو قرار دیا جب کہ ایران نے الزام عائد کیا کہ سعودی پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی ۔چند دنوں بعد مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارتخانے پر حملہ کر کے چار سعودی سفارتکاروں کو اغوا کر لیا ۔ جس پرخمینی نے سعودی شاہی خاندان کو اٹھا کر باہر پھینکنے کا اعلان کیا ۔

ایران پر اقدام قتل کا الزام

ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد حتیٰ کہ صدام کے بعد کے دور میں بھی ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی برقرار رہی۔ اکتوبر2011کو امریکہ نے بتایا کہ اس نےایران کی جانب سے امریکہ میں سعودی سفیرکے قتل کا منصوبہ ناکام بنا یا ہے ۔امریکہ میں تعینات ایرانی سفیر نے اس رپورٹ کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا تاہم سعودی عرب نے کہا کہ یہ خبر سچی ہے ۔اقوام متحدہ میں سعودی سفیر نے اس سازش کو بین القوامی روایات کے منافی قرار دیا ۔

یمن کےتنازعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا

22 جنوری 2015کو جب یمن کے حوثی قبائل نے سعودی نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا توسعودی عرب نے یمن کے حوثی قبائل کے خلاف فضائی حملے شروع کر دیئے ۔ایران اور شام نے باغیوں کی مدد کی لیکن تہران نے ایسی کسی بھی کارروائی میں ایرانی شمولیت سے انکار کیا ۔ سنی رہنماؤں نے الزام عاید کیا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں شیعہ ریاست کی توسیع چاہتا ہے جس کے لئے انھوں نے لبنان میں ایران کی جانب سےحزب اللہ، شام میں الاسد حکومت اور عراق میں نور المالکی کی حکومت کی مدد کی مثالیں بھی پیش کیں۔تب سے لے کر اب تک یمن سعودی عرب اور ایران کے درمیان اکھاڑا بنا ہوا ہے ۔شیخ نیمار کی پھانسی کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو چکے ہیں ۔

مشرقِ وسطیٰ عرب و عجم میں تقسیم ہو چکا ہے ۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تنازعہ مذہبی سے زیادہ نسلی ہے ۔ایرانی خود کو قدیم تہزیب اورسپر پاور کے امین مانتے ہیں صدیوں تک عرب جن کے زیر نگین رہے ۔مگر عرب اسلامی پس منظر میں خود کو برتر سمجھتے ہیں ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اپنی اپنی نسلی برتری کا خواب لے کر چلنے والے دونوں ممالک مسلمان ہیں یہ الگ بات ہے کہ فقہی اختلافات کی وجہ سے معمولی جھگڑے بھی بڑے تنازعات میں بدل چکے ہیں جنھوں نے نہ صرف دونوں ممالک کو بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی بہت متاثر کیا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے