سوشل میڈیا بازار میں رُلتی تنہا عورت

چند روز قبل اخبارات پر نظر دوڑاتے ہوئے ’ڈان نیوز‘ کی ایک خبر نے چونکا دیا ، آزاد کشمیر کے ضلع ہٹیاں بالا کے گاوں چکار میں اجتماعی زیادتی کا ایک واقعہ پیش آیا ، جس کو فوری طور پر ملک کے ایک بڑے اخبار نے رپورٹ کیا ، اور وہ رپورٹ پڑھتے ہی پہلی چیز جو ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ ’مسئلہ بڑا ہے اور اس کی گونج کافی دن تک سنائی دے گی ‘ ہم بھی بیمار ذہن معاشرے کا ایک فرد ہیں سو خبر کو زیادہ اہمیت نہیں دی ۔ لیکن دوسرے روز ہی ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک ساتھی نے اس واقعہ کی تھوڑی سی مزید تفصیلات کو بڑے جذباتی انداز میں بیان کیا ، اور اس بار اندر کا ہمدرد انسان پوری طرح بیدار ہو گیا ، اور ٹھان لی کہ مظلوم خاتون کے لئے جو بھی ہو سکا کریں گے ، اور اس کے لئے دوستوں سے رابطہ مہم شروع کی ، لیکن اس سے پہلے کہ ہم کچھ کر پاتے ہماری طرح کے کچھ اور جذباتی لوگ بھی میدان عمل میں کود گئے ، جس سے کیس کی جزئیات سامنے آنے لگیں

ہوا کچھ یوں تھا ، کہ خاتون معاشرے میں نسبتا کمزور تصور کیے جانے والی برادری سے تھیں ، جن کو معاشرے کے نسبتا مضبوط مرد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ، اور مرنے کے لئے چھوڑ دیا ۔ خاتون جو حاملہ تھیں ، نے زہر کھا کر خود کشی کرنے کی کوشش کی ، لیکن قدرت کو اس کی زندگی منظور تھی اس لئے وہ سی ایم ایچ مظفرآباد پہنچ گئیں ، جہاں سے عملے نے پولیس کو فون کیا ، جہاں سے یہ کیس میڈیا اور عوام کی نگاہوں میں آنا شروع ہوا ، ملزم کا تعلق ایک مضبوط سیاسی خاندان سے ہے ، اس لئے خدشہ تھا عورت کی آواز کو دبا نہ دیا جائے ، اس لئے آزاد کشمیر کی سول سوسائٹی اور بالخصوص میڈیا ورکرز نے اس مسئلہ پر خوب خوب آواز اٹھائی ، وزیر اعظم نے خاتون کو بلا کر انصاف دلوانے کی یقین دہانی کروائی ، اور مجرم کی فوری گرفتاری کا حکم دیا اور مجرم گرفتار بھی ہو گیا ، بظاہر سب کچھ ٹھیک ، لیکن پھر بھی کچھ تو غلط تھا

برا ہو ہماری ’قنوطی ذہنیت ‘ کا ، کہ ہر اچھی چیز میں بھی منفی پہلو دیکھ ہی لیتے ہیں ، شاید یہ پہلو اتنا نمایاں نہ ہو ، شاید یہ باقی لوگوں کے لئے عام سی بات ہو ، شاید میرا نکتہ نظر بالکل غلط ہو ، لیکن کچھ تو ہے جو چبھ رہا ہے ، وجدان کہہ رہا ہے کہ کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا ، بلاشبہ مجھے اس کیس کا اتنی بار زیر بحث لانا بری طرح کھٹک رہا ہے ۔ میڈیا پر خبر آتے ہی خبر زبان زد عام ہو گئی ، مجرم کا تعلق وزیر اعظم کے حلقے سے ہے اور غالبا اسی خاندان سے بھی ، اس لئے ان کے سیاسی مخالفین کے ہاتھ میں ایک زبردست’ ترپ کا پتہ‘ آگیا ، اور عورت کی مظلومیت ان کو اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے ’نعمت غیر مترقبہ‘ کے طور پر مل گئی ۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سیاسی کارکن ’مظلوم کی دادرسی‘ کے لئے اس کے پاس جاتا ہے ، اور اس کے بیانات کی ویڈیو بنا کر اپنی سوشل میڈیا اکاونٹس پر پوسٹ کر کے نہ صرف اپنے انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہیں بلکہ ’سوشل میڈیا جہاد‘ کا فرض بھی ادا ہو جاتا ہے ، لیکن یہاں پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ میں کیس کی قانونی پیچیدگیوں پر بحث نہیں کر رہی وہ وکلاء کا کام ہے ۔ مجھے کچھ اور پیچیدگیاں بہت کھٹک رہی ہیں ، مثلا :

۱: وزیر اعظم کی یقین دہانی، اور ملزمان کی گرفتاری کے باوجود خاتون کو بار بار سوشل میڈیا کی زینت کیوں بنایا جا رہا ہے ، عدالتی فیصلے کا انتطار کیوں نہیں کیا جا رہا

۲: خاتون کی دادرسی کے لئے جانے والے سب لوگ کیا واقعی خاتون کی ہمدردی میں جا رہے ہیں یا سیاسی مفادات کے لئے ، یا محض ’چسکے‘ لینے کے لئے (معذرت کہ لفظ شائستگی کی سطح سے ذرا پست ہے ، لیکن ہمارے معاشرے کی ایک ننگی سچائی یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں سنجیدہ لوگ کم چسکے لینے والے زیادہ ہوتے ہیں)

۳: کیا خاتون کی مدد کہانی کو نمک مرچ کے ساتھ الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا کی زینت بنائے بغیر ممکن نہیں ؟ ہم کب تک ’آزادی اظہار ‘ ’ویمن ایمپاورمنٹ ‘ اور اس طرح کے فلسفوں کی آڑ میں اپنی عزتوں کو چوراہے میں ڈسکس کرتے رہیں گے ۔

۴: اگر خدا نخواستہ خاتون کو انصاف نہیں ملتا تو ان کے سوشل میڈیا ہمدرد کب تک ان کا ساتھ دیں گے ؟ کیا وہ دوبارہ اس معاشرے کی ایک عام عورت کی طرح رہنے کے قابل ہو سکیں گی ؟ کیا ان کو ، ان کے خاندان کو عمر بھر کے طعنوں سے کوئی بچا پائے گا ، ان کا بچہ ۳۰ سال بعد بھی بازار میں نکلے گا تو اس کو پکارنے کے لئے نسبت اسی کیس کی استعمال ہوگی

خاتون واقعی بے وقوف ہے کہ اس کو ہمدرد اور ہمدرد کے روپ میں مطلب پرستوں میں فرق سمجھ نہیں آرہا ، اس پر کوئی دباو ہے یا لالچ ، جو بھی ہے ، اس قصے میں مظلوم اس کا سارا خاندان ، اور ظالم ہم اس قصے کو ہوا دینے والے لوگ ہیں ۔ نیکی تو اس طرح کرنے کا حکم ہے کہ ایک ہاتھ کرے دوسرے کو خبر نہ ہو ، اور ہم جب تک نیکی کو میڈیا کی زینت نہ بنا لیں قبولیت کی سند نہیں پاسکتی ۔

اتنی مایوسی بھری باتیں کرنے سے میرا مقصد خدانخواستہ یہ نہیں ہے کہ عورت کو انصاف طلب نہیں کرنا چاہئے ، میری دلی خواہش ہے کہ خاتون کوانصاف ملے ، مجھے شکوہ ان ڈھنڈورچیوں سے ہے ، جن کی کھوکھلی ہمدردیاں ، اس بدقسمت عورت کے لئے آنے والے دنوں میں جان کا وبال بن سکتی ہیں ۔

ہمارے معاشرے کو بہت سے اچھے فلسفوں پر غلط عمل درآمد نے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ ہم مغرب کی ہر فلاسفی کو اس کی اصل روح کو سمجھے بغیر اس کا ’ساوتھ ایشین ورژن‘ اپنے معاشرے پر نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں ہم کوے بھی نہ رہے ۔ اسی طرح کا ایک فلسفہ ویمن ایمپاورمنٹ ہے ، جس کے ستر فیصد سے زیادہ وکلا صرف اپنے مفادات کے لئے عورتوں کو ایمپاورمنٹ کے سنہرے خواب دکھا کر ان کو آپے سے باہر کر دیتے ہیں ، پھر نہ وہ برگر معاشرے کا حصہ رہتی ہیں ، نہ ان کو دیسی معاشرہ قبول کرتا ہے ۔ ہر کوئی مختاراں مائی ہوتی ہے اور نہ ہی ملالہ یوسف زئی کہ اس کے ساتھ ہمدردی کرنے والے ہاتھ اتنے مضبوط ہوں کہ اس کو یورپ تک پہنچا دیں ، باقی سب کو اسی معاشرے کا حصہ رہنا ہوتا ہے ، اور بدقسمتی سے یہ معاشرہ ابھی ایسی ذہنی بلوغت کو نہیں پہنچا کہ وہ مظلوم کو مظلوم سمجھ سکے۔

دعا ہے کہ خاتون کو حقیقی انصاف مل سکے ، دعا ہے کہ اس کے ’ہمدرد‘ واقعی ہمدرد ثابت ہوں ، جس کے امکانات کم ہیں، اور دعا ہے کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہو جس میں کوئی حوا کی بیٹی ، پہلے ایک ظلم کا شکار ہو ، اور پھر ظلم در ظلم یہ کہ ایسا واقعہ بار بار میڈیا کی زینت بنتا رہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے