سچی خوشی اور خالص بھنگ

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ’’بابا جی‘‘ ہم ایسے گناہ گاروں کو بھی شرف ملاقات بخش دیا کرتے تھے، اُن دنوں ہمیں زندگی کے مختلف تجربات کرنے کا شوق ہوتا تھا سو کبھی کسی فقیر کے آستانے پر چلے جاتے تو کبھی آدھی رات کو راوی کے کنارے چلہ کاٹنے کی کوشش کرتے۔

یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ایسے تمام تجربات میں ہمیں ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا، جس دن زیادہ مایوس ہوتے اُس روز بابا جی کے در پر پہنچ جاتے کہ وہاں ایک عجیب سا سرور ملتا۔ ایسے ہی ایک دن ہم بابا جی کے قدموں میں بیٹھے تھے، رات کا وقت تھا، کمرے میں بظاہر کوئی بلب روشن نہیں تھا پھر بھی مدھم سی روشنی نجانے کہاں سے چھن کر آ رہی تھی، اگربتی کی سوندھی خوشبو بھی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور اگربتی بھی نظر نہیں آ رہی تھی، ایسی چھوٹی موٹی کرامات کے ہم عادی تھے سو اِس بات کو ہم نے زیادہ لفٹ نہیں کروائی۔

جاڑوں کا موسم تھا، بابا جی نے اونی شال اوڑھ رکھی تھی، اُن کی شخصیت کا سحر کچھ ایسا تھا کہ تھوڑی دیر کے لیے یوں لگا جیسے ہم ہزاروں سال پہلے کے زمانے میں ہوں اور کسی راہب کے چرنوں میں گیان حاصل کرنے کی غرض سے بیٹھے ہوں، گویا ایک عجیب ملکوتی فضا کمرے میں طاری تھی۔

میں نے جھرجھری لی اور اپنی اوقات میں واپس آ گیا، بابا جی نے میری طرف دیکھا اور (بقول شفیق الرحمٰن) زیر مونچھ مسکرائے، میں بھی جواب میں مسکرا دیا، تھوڑی دیر تک ایسے ہی بے معنی مسکراہٹوں کا تبادلہ جاری رہا، پھر بابا جی کی آواز آئی ’’پوچھو، آج کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘

یہ موقع وہ شاذ و نادر ہی کسی کو دیا کرتے تھے سو میں نے فوراً کھنکار کر گلا صاف کیا اور وہ سوال داغ دیا جو کافی عرصے سے دماغ میں کلبلا رہا تھا ’’بابا جی، سچی خوشی کیسے حاصل کی جاتی ہے؟‘‘

بابا جی نے میری طرف یوں دیکھا جیسے میرے سوال سے انہیں سچا دکھ ملا ہو پھر یکدم اپنی آنکھیں بند کر لیں، کمرے میں پھیلا سکوت اور گہرا ہو گیا، پراسرار روشنی مزید مدھم ہو گئی، ہمیں یوں لگا جیسے اُس وقت کمرے میں صرف ہماری روحیں موجود ہوں، تھوڑی دیر بعد بابا جی نے آنکھیں کھولیں اور صرف ایک جملہ کہا جو مجھے آج تک یاد ہے ’’سچی خوشی صرف خالص بھنگ پینے سے حاصل ہوتی ہے!‘‘

جن لوگوں کو اِس قصے سے طنز کا تاثر ملے اُن کے لیے عرض ہے کہ دنیا میں ہر قسم کے بابے موجود ہیں، کوئی داڑھی والا، کوئی کلین شیو، کوئی عمامہ باندھتا ہے کوئی ٹائی لگاتا ہے، کوئی برہمن کے روپ میں ہے تو کوئی کاہن کی شکل میں، ہمارے بابا جی جیسے تھے ویسی انہوں نے بات کر دی۔

اور یہ بات ایسی غلط بھی نہ تھی فقط اُن کے بتانے کا انداز کچھ دیسی قسم کا تھا، اپنے اقوال زریں اگر وہ انگریزی میں کتاب لکھ کر بتاتے جس کا نام Life Experinces of a Monk, Metaphysics & Beyondرکھ دیتے تو آج دنیا میں ہمارے بابا جی کے نام کا بھی ایک یوٹیوب چینل ہوتا جہاں لاکھوں لوگ اُن کا پیچھا (Follow) کرتے! بابا جی کے قول پر واپس آتے ہیں، آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہم دو طریقوں سے خوشی محسوس کرتے ہیں، ایک نفسیاتی اور دوسرا حیاتیاتی۔

انسان فقط سادہ زندگی گزار کر خوش نہیں ہوتا، انسان اُس وقت خوش ہوتا ہے جب کسی بھی معاملے میں اُس کی توقعات پوری ہوتی ہیں، مثلاً ایک شخص اگر صحتمند ہے اور اُس کی سالانہ آمدن بیس ہزار ڈالر ہے تو وہ ہر وقت یہ سوچ کر خوش نہیں ہوتا رہے گا کہ اُس کے ہاتھ پیر سلامت ہیں اور وہ دنیا کے اربوں لوگوں سے زیادہ پیسے کماتا ہے، وہ اُس وقت خوش ہوگا جب اُس کی توقعات حقیقت کا روپ دھار لیں گی، یہ توقعات کچھ بھی ہو سکتی ہیں، مثلاً وہ یہ سوچ سکتا ہے کہ اُس کی آمدن ایک لاکھ ڈالر ہونا چاہئے، جس روز اُس کی یہ خواہش؍ توقع حقیقت بن گئی اسے خوشی ملے گی لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد وہ زندگی سے کچھ اور توقع رکھے گا اور پھر اُس کی تکمیل میں جُت جائے گا۔

یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ خوشی کی دوسری وجہ انسان کے جسم میں موجود مختلف ہارمون اور کیمیائی اجزا ہیں، ایک ایسے شخص کا تصور کریں جو غریب اور اَن پڑھ گھرانے میں پیدا ہوا اور پھر اپنی محنت کے بل بوتے پر مقابلے کا امتحان پاس کرکے افسر لگ گیا، جس روز اسے امتحان میں کامیابی کی خبر ملے گی اُس کا انگ انگ مسرت میں ڈوب جائے گا۔

سائنس اِس کی وجہ یہ بتاتی ہے کہ ایسے کسی معرکے کے نتیجے میں انسانی جسم میں مختلف غدود، ہارمون اور کیمیائی اجزا متحرک ہو جاتے ہیں، خوشی کا پیغام دماغ کو پہنچتا ہے اور انسان مسرت میں ڈوب جاتا ہے۔

مگر یہ خوشی بھی دائمی نہیں رہتی، کچھ ہی عرصے میں اِس کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور وہ تمام غدود اور ہارمون وغیرہ اپنی نارمل حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہارمونز کو مصنوعی طریقے سے بھی یوں متحرک کیا جا سکتا ہے کہ انسان کو ویسی ہی خوشی ملے جیسی مقابلے کا امتحان پاس کرکے، اولمپک کا تمغہ جیت کر یا کسی غریب کی مدد کر کے ملتی ہے، یہ مصنوعی طریقہ بھنگ ہو سکتا ہے یا کوئی بھی ایسا نشہ جس سے ’’کِک‘‘ ملتی ہے جیسے ایکسٹیسی، Methamphetamineوغیرہ۔

بابا جی کی کہی ہوئی بات آج سائنس ثابت کر چکی ہے مگر ظاہر ہے کہ خوشی حاصل کرنے کا یہ طریقہ ناقابل قبول ہے کیونکہ اگر خوشی کے اِس حصول کو درست مان لیا جائے تو اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جرائم بھی معاف کرنا پڑیں گے، ہر نظریہ ترک کرنا پڑے گا، اخلاقیات کے اصول مٹانا پڑیں گے اور انسانی ترقی کا تمام سفر جو جدوجہد سے عبارت ہے، رُک جائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان اب تک دائمی خوشی پانے کا کوئی بھی طریقہ تلاش نہیں کر سکا، خوشی کی ہر قسم عارضی ہے کیونکہ خوشی دراصل اپنی زندگی پر اختیار حاصل کرنے کا نام ہے اور یہ اختیار حاصل کرنا ایک جہدِ مسلسل ہے، ہم میں سے جو لوگ اپنی زندگیوں پر جتنا اختیار رکھتے ہیں وہ اتنے ہی زیادہ خوش ہیں۔ یہ اختیار کیسے حاصل کیا جاتا ہے، یہ بات کوئی بابا نہیں بتاتا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے