سیاست یا نفرت کی تجارت؟

 پرسوں شب کو تحریک انصاف کے جیالے مراد سعید کو دو مختلف مقامات پہ سننے کا اتفاق ہوا ، دونوں ہی پشتون علاقے تھے موصوف کی تقریر سے محسوس ہورہا تھا وہ تحریک انصاف کے نہیں بلکہ عوامی نیشنل پارٹی کے عہدیدار ہیں ، کہتے ہیں پختون پیدا ہی بادشاہی کے لئے ہوا ھے ، کراچی میں ان کے ساتھ بہت مظالم ہوئے . بھتے لئے گئے .کاروبار برباد ہوگیا ، 5 دسمبر کو ان سب کے بدلا لینے اور عمران خان کو جتوانے کا دن ھے ۔۔۔۔۔۔

اسی طرح الطاف حسین و وسیم اختر کی تقاریر سنیں جو مہاجر فلسفے کی گرد گھوم رہی تھیں ، مراد سعید جذباتی ھے جبھی صاف صاف کہہ دیا کہ پشتون بادشاہی کے واسطے پیدا ہوئے ، البتہ الطاف حسین و وسیم اختر چونکہ گھاگ سیاست دان ہیں اس لئے مدعا پہ آنے میں خاصا وقت لیا اور ماحول بنا کر بات کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان میں بسنے والے کسی کام کے نہ تھے ، ھند سے آنے والوں نے ملک سنبھالا اور چلایا ۔۔۔ متحدہ کے کارکن ہی دولت اسلامیہ سے لڑیں گے۔  آپ کو بچائیں گے ۔ بنی گالہ سے کوئی نہیں آئے گا ۔ جماعت اسلامی دھشت گردوں کی جماعت ھے ۔  بنگلہ دیش کے جنگی مجرموں کے جنازے پڑھا رہی ھے ،

وسیم اختر کہتے ہیں کہ پتہ نہیں مہاجر کیسے تحریک انصاف کی پٹی میں آگئے؟؟؟ الطاف بھائی کے بقول پہلے کنڈیکٹر بسوں میں مہاجروں کو مارتے تھے اب کسی کی ہمت نہیں ہوتی ۔  ہم نے حقائق سامنے رکھ دئیے ہیں اب آپ کی مرضی کہ ووٹ دیتے ہو یا نہیں ۔ ہمارا کام آپ کو سمجھانا تھا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

قوم پرستی اور خوف کی سیاست ابھی بھی عروج پر ھے ۔ مراد سعید و الطاف حسین کی تقاریر بتا رہی ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی ٹائپ سیاست ابھی بھی اذھان میں موجود ھے ۔ نسلی و لسانی سیاست نے پاکستانی کو کیا دیا ؟؟؟ ترقی معکوس کا سفر ھے ، جسے طے کرنے میں ان جماعتوں کے بعض قائدین خوشی محسوس کر رھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

ایم کیو ایم سے مہاجروں کی وابستگی ہے گو کہ پہلے جیسی نہیں رہی ، لیکن بہر حال اس کا اثر ھے تو سہی ، جسے بڑی حد تک تحریک انصاف ختم کرنے کی پوزیشن میں تھی لیکن نائن زیرو والے حلقے کے انتخابت میں شہر بھر سے پشتون جمع کر کے وہاں کے عام افراد کو عدم تحفظ کا شکار کیا گیا ۔۔۔ اے این پی نے شہر میں نفرت و بھتہ خوری کی سیاست کی ۔ کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے دامن میں بھی خوف کی سیاست کے سوا کچھ نہیں ، وہ اپنے ووٹرز کو بتا تے ہیں اگر ہم نا ہوئے تو دیگر اقوام آپ کو برباد کردیں گے ۔۔۔

بھولے لوگ متحدہ سے تیس برس کا حساب نہیں مانگتے ، جس میں ایم کیو ایم تقریبا ھر دور میں اقتدار میں رہی ، لیکن کوٹہ سسٹم ختم ہوا نا محصورین کی واپسی ہوئی ۔۔۔ تعلیمی ادارے نئے تو کیا بنتے پرانے بھی تیل لینے گئے ۔ اسپتال کھنڈر بنے ۔ بھتہ خوری و قتل غارت گری کو ایم کیو ایم نے وہ جہت دی کہ انسانیت کانپ اٹھی ۔۔۔ لے دے کے مصطفی کمال کا دور ھے جس میں کسی حد تک کام ہوا اور ہمیں تو اس کا اعتراف بھی ھے ، لیکن دلچسپ بات یہ ھیکہ معتوب قرار دئیے جانے کے بعد ایم کیو ایم ان کا نام کہیں بھی استعمال نہیں کر رہی، وہ خود بھی شہر و پارٹی سے مفرور ہیں ۔۔۔۔۔۔

انتخابات کا بھرپور رنگ کراچی کے مضافاتی یا کثیر النسلی علاقوں میں نظر آرہا ھے ، جہاں سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدوار بڑی تعاد میں میدان میں اترے ہوئے ہیں ، اپنے اپنے رنگا رنگ انتخابی نشانوں کے ہمراہ ، وہ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے لئے مشکلات کا بھی سبب ہیں ۔۔۔۔۔ بظاھر کراچی میں ایم کیو ایم کا پلڑہ بھاری ھے ، لیکن تحریک انصاف و جماعت اسلامی کا اشتراک عمل اسے روایتی علاققوں میں ٹف ٹائم دینے اور بہت سی جگہوں پہ جیتنے کی بھی پوزیشن میں ھے ، مضافاتی علاقوں میں مقابلہ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ جے یو آئی تحریک انصاف و جماعت اسلامی کے مابین ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ سنا ھے کہ جمعیت علمائے اسلام نے سڑکیں گٹر اور نالیاں پختہ کرنے کے انتخابات کو معرکہ حق و باطل قرار دے کرعلماء و خطباء کی ایک مجلس بھی طلب کرلی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے