سیاسی مداریوں کا ایڈونچرازم ؟

اقتدار پر قبضہ کرنا اور حکمرانوں کو ایوان اقتدار سے بے دخل کرنے کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ سب کو یاد بھی ہے اور دیکھا بھی ہے۔

میری عمر 57 سال ہوگئی ہے۔ کچھ باہر بیٹھ کر اور کچھ اندر بیٹھ کر دیکھا۔ کبھی صبح نیند سے اٹھے تو حکومت غائب، کبھی سورج ڈھلنے سے پہلے حکمرانوں کو رسوا کیا گیا۔ کبھی اپنے لگائے ہوئے پودے سے مار کھائی شاید ان کا ایجنڈہ کچھ اور ہوتاہے۔

1977 سے 1999 میں برخاست کی گئی حکومتوں کے فارغ کرنے یا گھر بھیجنے کے آثار پہلے نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔جس کا بعض پتہ چل جاتا ہے تو کبھی ساتھ بیٹھے ہوئے بھی جو سازش کاحصہ ہوتے ہوئے بھی کبھی بھنک بھی پڑنے نہیں دیتے۔ اس میں قصور ہمارے سیاستدانوں کا ہے جو بند آنکھوں اور ماؤف دماغ کے ساتھ حکمرانی کرتے ہیں اور شکاریوں کا شکار بن جاتے ہیں۔

1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو قبل از انتخابات کرانے اور اپوزیشن جماعتوں کے قومی اتحاد نے دھاندلی کا الزام لگایا، موقع کی تلاش میں اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے اپنا کام تیز کردیا۔ بھٹو صاحب نے بھی راول پنڈی کے جی پی او چوک پر جیپ پر کھڑے ہوکر تقریر میں انکشاف کیا۔ بالآخر ملک میں ضیاءالحق نے مارشل لا لگادیا۔ ضیاءالحق کی مارشل لا میں ملک کی تاریخ بدل کر رکھ دی ان کو ایسے حالات ملے کہ پڑوسی ممالک میں وہ حالات نہیں تھے جو اس سے پہلے تھے :
1) فروری میں ایران میں اسلامی انقلاب
2) اپریل میں بھٹو کو پھانسی دی گئی۔
3) افغانستان میں سردار داؤد حکومت کا خاتمہ اور بہت کچھ جس سے اقتدار طول پکڑتا گیا۔

اس دوران ملک میں اخبارات پر سنسر شپ عاید کیا گیا،مزدوروں ، کسانوں اور طالبعلموں نے جدوجہد کی۔ ضیاءالحق کی مارشل لا میں سب سے زیادہ نقصان اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی لگائی گئی جس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی قیادت جو ان یونینز سے ابھر کر آتی تھی اس کو بریک لگ گئی اور سیاست طالع آزما اور امیروں کا کھیل بن کر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں قیادت کا فقدان نظر آرہا ہے۔

1985 میں ایک جدوجہد کے بعد نئے تجربے کے تحت ملک میں انتخابات کرائے گئے وہ بھی غیر جماعتی، حالات کے جبر سے آزادی حاصل کرنے اور جدوجہد کرنے والی جمہوری جماعتوں نے بائکاٹ کیا بعد ان کو اس کا اندازہ ہوگیا کہ ہم نے غلط کیا۔ محمد خان جونیجو کو 1977 کے بعد وزیراعظم نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی۔ اقتدار میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنی اتھارٹی استعمال کرنا شروع کردی، ان کی حکومت سول ملٹری تعلقات میں خلیج کا سبب بنی۔

1) پاکستان اور افغانستان کے درمیان اقوام متحدہ زیر نگرانی معاہدہ۔ جونیجو صاحب نے معاہدہ کرنے سے پہلے تمام قومی قیادت چاہے وہ ایوان میں تھی یا باہر گول میز کانفرنس منعقد بلا کر ان کی منظوری چاہی اس کانفرنس میں بے نظیر بھٹو ، نوابزادہ نصراللہ،قاضی حسین احمد ، نورانی میاں وغیرہ شامل تھے.

2) اپریل 1988 میں اوجڑی کیمپ جہاں کولہ بارود رکھا ہوا تھا اچانک آگ لگ گئی (یہ میں نہیں کہہ رہا جو میڈیا میں آیا یا بتایا گیا) کہنے والے کہتے ہیں انکی حکومت ایک آزاد انکوائری کرانا چاہتی تھی اور ذمہ داروں کو سزا بھی دینا چاہتی تھی۔ اس انکوائری کی سول سائیڈ پر اسلم خٹک مومور تھے جبکہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ناصر سے انکوائری کرائی گئی۔

ضیاءالحق مرحوم نے اے پی این ایس اور سی پی این ای کے عشائیے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دفاع کرنے والے چاہیں نہ کہ پراسیکیوٹر۔ جونیجو کی حکومت غیر جماعتی اسمبلی نے آئین میں 8ویں ترمیم کر کے صدر کو اسمبلی برخاست کرنے کا اختیار دیا گیا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ضیاءالحق مرحوم نے 29مئی 1988 کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اسکامی نظام کے قیام عدم دلچسپی امن امان جان و مال کی حفاظت میں ناکامی الزام لگاکر 58 ٹو بی کے ذریعے فارغ کردیا۔ ملک میں ایک بار پھر اسلامی نظام اور شرعی قوانین کے نفاذ کی بات کی گئی۔ اگست 1988 میں صدر ضیاءالحق طیارے کے حاثے میں جاں بحق ہو گئے.

دسمبر 1988 میں قائم ہونے والی بے نظیر بھٹو کی حکومت اسٹبلشمنٹ اور غلام اسحاق (جواس وقت قائمقام صدر تھے) بڑی مشاورت کے بعد اقتدار منتقل کرنے پر رضامند ہوگئے۔ حکومت تو مل گئی مگر شرائط کیا طے ہوئے وہ کچھ نظر آگئے اور کچھ آج تک پردہ سیمی پر نہ آئے اور نہ آئیں گے۔ حلف برداری کے فوری بعد بے نظیر بھٹو غلام اسحاق سے ان کے پرنسپل سیکرٹری وسیم عون جعفری کا ہاتھ مانگ لیا اور انہیں مالیاتی کا مشیر بنا دیا گیا ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ حکومت کے اندر وے اے جعفری جبکہ ایوان صدر میں غلام اسحاق براجمان ہوگئےجس کو اپوزیشن کی حمائت بھی حاصل رہی۔ حکومت اپنے ابتدائی دنوں میں ڈھیلے ڈھالے انداز میں چلتی رہی۔ اس زمانے میں دو تین نام مشہور ہوئے بی اے قریشی، ناہید خان جن کا کام پلیسمنٹ بیورو کے ذریعے کارکنوں اور جیالوں کو مختلف محکموں میں بھرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ اداروں میں گنجائش سے زیادہ ملازمین بھرتی کیے گئے جس کا آج بھی یہ کہہ کر ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ ہم نکالتے نہیں روزگار فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ میڈیا سائیڈ پر ارشاد راؤ، بشیر ریاض معاملات دیکھ رہے تھے۔ یہاں یہ بات کرتا چلوں کہ ایک ملاقات میں جو المرتضی لاڑکانہ میں ہو رہی تھی کسی شکائت کی کہ بڑا ظلم ہمارے لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ محترمہ نے ان سے پوچھا مورو ایسا کون شخص جو یہ سب کجھ کر رہا ہے، اس شخص نے کہا جتوئی بے نظیر بھٹوکے منہ سے بے ساختہ نکلا وہ تو میں بھی نہیں کرسکتی۔ افغانستان سے متعلق پالیسی میں ان کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔

سندھ کے بڑے شہر کراچی میں امن امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے ایک مرحلے پر لاتعلقی روا رکھی ، کراچی کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں ایک اتحاد قائم کیا گیا جس کو پہلے متحدہ اپوزیشن کانام دیا گیا جو آگے جاکر اسلامی جمہوری اتحاد بنا۔ مصطفی جتوئی کی سربراہی میں اپوزیشن جماعتوں کا ایک وفد غلام اسحاق سے ملا انہوں نے کراچی ایک ہڑتال تذکرہ کیا جس پاکستان ٹیلی وژن سے گوشت کی دکان ناغے اور ہڑتال والے دن کھلی دکھائی گئی کراچی سے ٹیلی کاسٹ کی گئی تھی۔ ہر گذرنے والے دن اب آہستہ آہستہ حکومتی امور میں آصف زرداری انٹری ہونے لگی۔ کرپشن اور امن امان کا مسئلہ ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنی۔ 6 اگست 1990 کو پنڈی ایک روزنامے یہ خبر نمایاں لگائی کہ صدر غلام اسحاق آج بے نظیر بھٹو کی حکومت فارغ کردیا جائے گا۔ بےنظیر بھٹو کے لیے یہ خبر کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ فوری طور پر صدر سے رابطہ کیا ان کی طرف سے کہا گیا.
Dont worry baby nothing in my mind and enjoy your government
کراچی میں بلاول ہاؤس تعمیر ہوچکا تھا۔ شام ایک پریس کانفرنس کے ذریعے 58 ٹو بی کا وار کر کے منتخب حکومت کو ختم کیا گیا اسمبلیوں کے دروازے ایک مرتبہ تالے پڑ گئے۔ اقتدار کی باگ ڈور غلام مصطفی جتوئی کو سونپ دی گئی صوبوں ان کی خدمات لی گئیں جنہوں نے ہر اس کام میں شریک ہونے کی حامی بھری تھی وہ آگے آگے تھے۔

اسلامی جمہوری اتحاد کے ذریعے نومبر 1990 میں میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی صوبوں میں اکثریت ہونے کے باوجود سندھ میں ایک ایسے شخص کی قائم کی گئی جو بے وفائی اور وفاداری کرنے میں مشہور تھے اللہ ان کے درجات بلند اور مغفرت فرمائے۔
میاں صاحب کے پہلے دور میں ییلو کیب اسکیم، بے زمین کسانوں میں 12 ایکڑ زمین کی ملکیت کے کاغذات دیے گئے، اداروں کو نجکاری جیسے کام کیے ۔۔ اقتدار میں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے درمیان رسہ کشی اور رکاوٹیں ڈالنے کا کام شروع ہو چکا تھا ، جون 1992 میں کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا جو پچھلی حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج سے کم نہ تھا۔۔ سابق وزیر دفاع سید غوث علی شاہ قطر کے ولی عہد کے صدر غلام اسحاق کی ملاقات کے دوران ان کے ساتھ تھے ۔۔
سلام دعا لیتے وقت سید غوث علی شاہ نے پوچھا سر کیسی طبیعت ہے؟
غلام اسحاق نے فرمایا میں ٹھیک ہوں آپ کی جانب سے (غالبا ان کا اشارہ حکومت کی جانب تھا) ٹھیک نہیں ہو رہا ۔۔

محمد خان جونیجو کے جنازے کے موقع پر میاں صاحب اور غلام اسحاق کے درمیان رنجش سب پر آشکار ہوئی۔ جنازے سے قبل دونوں الگ الگ کمروں میں بیٹھے رہے جس کو سیاسی حلقوں نے نوٹ کیا ۔۔۔ بہرحال اپریل میں 1993 میں میاں صاحب کی حکومت 58 ٹو بی کے تحت ختم کی گئی ، میر بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیر اعظم مقرر کیا گیا، کابینہ میں پی پی کے فاروق لغاری اور آصف علی زرداری کو وزیر بنایا گیا غلام اسحاق نے ان سے حلف لیا جس کی بدولت بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی گئی تھی .

اس سے دو دن قبل میاں صاحب نے قوم سے خطاب کیا جس کی ریکارڈنگ لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں کی گئی ، جس میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا ۔۔سیاسی ناقدین اس جملے کو سن کر بخوبی یہ اندازہ لگایا کہ اب کام ختم ہو چکا ہے ۔۔ اسمبلیاں برخاست کی گئیں اسپیکر گوہر ایوب نے صدارتی فرمان کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ۔۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی اگلے روز روزنامہ جنگ میں یہ لیڈ لگائی گئی میں جسٹس منیر نہیں بنوں گا یعنی چیف جسٹس نے عندیہ دے دیا تھا کہ کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا جائے گا ۔۔

26 مئی کو 1993 اسمبلی بحال کی گئی، مگر اس کو بھی مقتدر حلقوں نے قبول نہ کیا آہستہ آہستہ پھر میاں صاحب کو گھر بھیجنے کا پروگرام بنایا گیا اب اسمبلیاں برخاست کے فارمولے کو استعمال نہ کیا ۔۔۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ فارمولہ کے نام سے یاد کیا جانے فارمولا آزمایا گیا جس کے تحت میاں صاحب کے ساتھ ساتھ غلام اسحاق خان کو بھی ایوان صدر چھوڑنا پڑا ۔۔ غلام اسحاق خان کو سب سے زیادہ ایٹمی پروگرام جاری کا حامی سمجھا جاتا جس پر امریکا سرکار ان سے نالاں تھیں وہ بابا سے جان چھڑانا چاہتی اور ایوانوں مین گو با با گو کا نعرہ پہلی مرتبہ لگایا گیا ،،، یہ جولائی 1993 تھی آج پھر میاں صاحب پھر بھنور مین پھنس گئے ہیں یا پھنسایا گیا ہے اس کا فیصلہ سب کے سامنے ہے ۔۔

اکتوبر 1993 میں کرائے گئے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو دوبارہ بر سر اقتدار آگئیں ان کے ساتھ سردار فاروق احمد خان لغاری ملک کے صدر منتخب ہوئے ۔۔ ان کے بھائی مرتضی بھٹو سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لاڑکانہ سے نصرت بھٹو مرحوم نے ان کی خوب انتخابی مہم چلائی۔۔ بھائی بہن کے سامنے کھڑا ہوگیا یوں پی پی پی میں شہید بھٹو گروپ اضافہ ہوگیا۔۔ بہن کی حکومت میں بھائی قتل کردیا گیا۔۔ دوسری جانب بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی عدلیہ کو نشانہ بنایا یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ججوں کو دانہ ڈالتے ہیں جس سرکاری ٹی وی نے اپنے بلیٹن میں نمایاں طور نشر کیا، اگلے روز اس کی گونج پارلیمنٹ میں سنی گئی سینیٹ میں اپوزیشن نے اس پر خوب تقریریں کیں مگر وزیر ماننے کے لیے تیار نہ تھا اس وقت وسیم سجاد صاحب اجلاس کی صدارت کر رہے تھے انہوں نے کہہ دیا میں نے خود سنا ہے اس کی رکارڈنگ منگوائیں دیکھ لیتے ہیں( سابق وزیر موصوف اس وقت اعلیٰ حکومتی عہدے پر تعینات ہیں ) ان کی حکومت میں عدلیہ انتظامیہ سے الگ کردی گئی سپریم کورٹ میں یہ فیصلہ سید سجاد علی شاہ مرحوم نے سنایا تھا۔۔

اب کی بار بھی بےنظیر بھٹو کے سردار فاروق لغاری کے ساتھ اختلاف پیدا ہوگئے اس کی وجہ مرتضی بھٹو کا قتل اور دیگر حکومتی اختلافات تھے مرتضی بھٹو کا قتل بے نظیر بھٹو کا خیال تھا اس میں اپنے ہی شامل ہیں ۔۔ ملک میں آئی پی پیز کے تحت بجلی کے لیے کام کیا گیا،غازی بروتھا ڈیم اور دیگر منصوبوں پرکام کیا گیا۔۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم پنڈی اور اسلام آباد میں کرپشن کے خلاف مہم چلائی جس نے دونوں شہرون کو مفلوج کردیا ۔۔۔ ایوان صدر اور پی ایم ہاؤس میں اختلافات کے آثار واضح ہونے لگے، اندر ہی اندر بہت کچھ پک چکا تھا ڈھکنا کلھنے کی دیر تھی ۔۔ سردار فاروق لغاری جو بے نظیر بھٹو کی حمایت سے اس عہدے پر منتخب ہوئے رات کے اندھیرے میں چوتھی مرتبہ 58 ٹو بی کا استعمال کیا۔۔ آصف علی زرداری کو لاہور سے گرفتار کیا گیا ۔۔ پی پی کے جیالے یہ گانا گنگناتے رہے کہ دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے ۔

ملک معراج خالد نگراں وزیر اعظم اور کابینہ میں پی پی کے کئی لوگ لیے گئے جو بے نظیر مخالف تھے ان میں سے اس وقت کے ایک سینیٹر وزیر خواراک بنائے گئے اب وہ موصوف پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی ہیں ۔۔ بینظیر بھٹو نے اسمبلی کو برخاست کرنے کے خلاف عدالت مین درخواست دائر کی گئی ایک طرف عدالت میں سماعت ہورہی تھے دوسری جانب انتخابی مہم ، ایک مرحلے پر بی بی کو یہ کہا گیا کہ ان کی اسمبلی بحال ہونے جا رہی ہے ، محترمہ نے اپنی مہم آدھی کردی بس انتظار کررہیں تھیں کہ کب اسمبلی بحال ہو گی ۔۔ آخر کار انتخابات سے چند روز پہلے ان کی حکومت بحال نہ ہوئی سپریم کورٹ میں یہ فیصلہ بھی سید سجاد علی شاہ مرحوم نے سنایا ۔۔۔

1997 فروری میں انتخابات ہوگئے میاں صاحب دوسری مدت کے لیے وزیر اعظم منتخب ہوئے زکم خوردہ سیاسی قیادت نے اپنی غلطیوں سے سیکھا جو نظر بھی آرہا تھا ۔۔ میاں نواز شریف نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعداد بڑھائی ، سب سے بڑے ہتھیار 58 ٹو بی کو آئین سے خارج کردیا، 1998 میں ایٹمی دھماکے کیے ، ڈالر اکاؤنٹ کو فریز کرنے جیسے کام کیے ۔۔ سردار فاروق لغاری کے خلاف رضی فارم کا اسکینڈل سامنے آیا۔۔ آصف زرداری جیل میں رہے اور اپنے اوپر قائم کیسز کا سامنا کرتے رہے ، بے نظیر بھٹو احتساب عدالت سے سنائی جانے والی سزا سے قبل پاکستان سے چلی گئیں ۔۔ میاں صاحب کے اس دور میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو قومی سلامتی کے ایشو پر مستعفی ہونا پڑا یا استعفیٰ لیا گیا ، ان کی جگہ جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف لگادیا۔۔ یہاں سے حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان تناؤ شروع ہوگیا ۔۔

1999 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بس کے ذریعے لاہور آئے اس روز جماعت اسلامی کی جانب سے لاہور شہر میں آمد پر مظاہرے کیے گئے، کسی کو واجپائی کا آمد اچھی لگی کسی کو ایک آنکھ نہ بھائی ۔۔۔ واجپائی کے دورے کے بعد کنٹرول لائن پر فائر کھل گیا،صورتحال خاصی گھمبیر ہوگئی ۔۔ جولائی میں وزیر اعظم امریکا چلے گئے امریکی اپنا یوم آزادی منانے میں مصروف تھے عین اسی روز میاں صاحب نے بل کلنٹن سے ملاقات کی اس پر لکھنے کی ضرورت نہیں ۔۔ پاک چین دوستی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر غالبا ستمبر کا مہینہ تھا جنرل مشرف کو چیرمین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کا چارج بھی دیا گیا ۔۔ نیول چیف ایڈمرل فصیح بخاری نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی ان سینیر سروسز چیف ہونے کے ناطے چیرمین بنانے کی بات کی، جسے میاں صاحب نے قبول نہ کیا شام پانچ بجے تک اپنے فیصلے سے آگاہ کرنے کا کہا ۔۔۔ شام کو ایڈمرل عبدالعزیز کو نیول چیف تعینات کردیا ۔۔ میاں نواز شریف کی حکومت میں کبھی تیز کبھی دھیما یہ کھیل جاری رہا، صورتحال اس وقت خراب ہوگئی جب آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاءالدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کیا گیا اور جنرل مشرف کو سبکدوش کردیا گیا ۔۔ اس کے بعد جو ہوا ہو وہ بھی کسی صورت اچھا نہیں ہوا ۔۔ میاں صاحب کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی ان کے ساتھی آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے ان سے علیحدہ ہوگئے ۔۔

میاں صاحب کی دوسری حکومت 58 ٹو بی نہ ہونے کے سبب براہ راست ایک مارشل لا کی صورت میں ہوئی اب کوئی سمری ملٹری ٹرائل کی عدالتیں نہیں بنائی گئیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے یہ کام لیا گیا، طیارہ سازش کیس کے ذریعے میاں صاحب اور دیگر کو سزا دی گئی .

2002 سے 2017 تک ملک میں ظفر اللہ جمالی، چودھری شجاعت حسین،شوکت عزیز،یوسف رضا گیلانی،راجا پرویز اشرف آئے کوئی بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری کیے بغیر گھر چلے گئے ۔۔ ظفر اللہ جمالی کے ساتھ پسند ناپسند، چودھری شجاعت کو شوکت عزیز کو لانے کے لیے تسلسل قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا، شوکت عزیز صاحب آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا کہ ایمرجنسی لگانے کے لیے مشرف کو کس نے کہا ، یوسف رضا گیلانی سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں عدالت سے نا اہل قرار دیے گئے ۔۔ میمو گیٹ بھی انہی کی دنوں میں منظر پر آیا ۔۔ راجا پرویز اشرف وزیر اعظم بنائے گئے ان کے پیچھے رینٹل پاور اور صوابدیدی اختیارات کے تحت ترقیاتی فنڈ کا استعمال اب تک ان کا پیچھا کر رہا ہے ۔۔۔ اور اب میاں نواز شریف جن کی حکومت پانامہ پیپرز لیکس کے بھنور میں پھنس گئے ہیں ۔۔ اب ملک میں بدنام زمانہ آئینی شق 58 ٹو بی نہیں ہے لہذا متبادل پر کام جاری ہے ۔۔۔

دیکھتے ہیں کون کتنا اس صورتحال میں سنبھلنے کی کوتا ہے یہ اعصابی جنگ ہے ۔۔ ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھا جائے تو ایک ہی چیز سامنے آتی ہے جس میں سیاست نہیں کھینچا تانی ہو رہی ہے ۔۔ 70 سال میں ہماری سیاسی قیادت اور سیاستدانوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کی بد قسمتی ہے کہ جو بھی مصیبت میں ہوتا ہے دوسرا اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے سیاست میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے لاڑکانہ لاہور کو لایا گیا، کبھی پنجابی اور دیگر اکائیوں میں استحصال کی بات کی گئی ، اور ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک ، کرپٹ ،چور جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے ۔۔۔ عوام لاتعلق اور اپنے مسائل میں گھرا ہوا ہے زبردستی اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔۔ ہونا وہی ہے جو لکھا گیا ہے اس سے نہ آگے نہ پیچھے ، چھری تربوز پر گرے یا تربوز چھری پر دونوں صورتوں میں نقصان تربوز کا ہوگا۔۔ ہمارے بدقسمتی یہ بھی ہے کہ پہلے سے حل طلب معاملات پیچھے رہ جاتے ہیں اور ایمرجنسی میں نئے معاملات کو ترجیح دی جاتی یہی فقدان ہماری حکومتیں اپنی مدت پوری کر جاتی ہیں مگر ترجیحات اور پالیسیاں عوام کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں .

سیاسی مداریوں کا ایڈونچرازم ۔۔۔۔۔ ملک کو آگے نہیں پیچھے دھکیل دے گا ۔۔۔۔۔ ماضی سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے