سید افتخار مرشد کی یاد میں

یہ مارچ1972ءکی دوپہر تھی۔ میڈرڈ کے پاکستانی سفارتخانے کے ایک نوجوان تھرڈ سیکرٹری کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں فون کی گھنٹی بجی نوجوان تھرڈ سیکرٹری نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے کال کرنے والے نے بتایا کہ اس کا نام بیدی ہے اور وہ میڈرڈ کے بھارتی سفارتخانے میں سیکنڈ سیکرٹری ہے۔ پاکستانی تھرڈ سیکرٹری بہت حیران ہوا کہ بھارتی سفارتکار اس کی رہائش گاہ پر کال کیوں کررہا ہے؟ اس سے پہلے کہ یہ نوجوان پاکستانی سفارتکار کچھ بولتا بیدی نے بڑی اپنائیت سے کہا کہ سنو میرے دوست! مجھے نئی دہلی سے ہدایات ملی ہیں کہ مجھے آپ کو ڈھاکہ پہنچانا ہے اور کچھ بھاری رقم بھی آپ کو دینی ہے لہٰذا مجھے آپ کو ملنا ہے بتائیے آپ مجھے کب مل سکتے ہیں۔ یہ الفاظ سن کر پاکستانی سفارتکار کو ایک جھٹکا لگا کیونکہ یہ سب اس کے لئے بہت غیر متوقع تھا۔

بھارتی سفارتکار بہت گھاگ اور عیار تھا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا کہ تمہارا وطن تمہارے انتظار میں ہے۔

یہ الفاظ سن کر پاکستانی سفارتکار کے اندر سے آواز آئی میرا وطن پاکستان ہے اور میں اپنا وطن چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان سے محبت اس نوجوان سفارتکار کی زبان پر آگئی اور اس نے انڈین سیکنڈ سیکرٹری کو کہا کہ دوبارہ مجھے کال کرنے کے بارے میں سوچنا بھی ناں۔

اس سے پہلے کہ پاکستانی سفارتکار فون بند کرتا کال کرنے والے چالاک شخص نے کہا تم سوچ لو اور جب چاہو مجھے سفارتخانے میں فون کرکے بتادینا ہم کہیں بھی مل سکتے ہیں۔ وہ مزید بات کرنا چاہتا تھا لیکن پاکستانی سفارتکارنے فون بند کردیا۔ یہ نوجوان سفارتکار فون بند کرکے سوچنے لگا کہ اب اسے کیا کرنا چاہئے؟ چند ہی لمحوں میں اس نے فیصلہ کیا کہ یہ واقعہ فوری طور پر اسپین میں پاکستان کے سفیر کے نوٹس میں لانا ضروری ہے اور پھر یہ نوجوان اپنے اپارٹمنٹ سے نکلا اور سفیر کے پاس جا پہنچا۔ اس نوجوان پاکستانی تھرڈ سیکرٹری کا نام سید افتخار مرشد تھا جو ڈھاکہ کا رہنے والا تھا۔ اس نوجوان کا تعلق ڈھاکہ کے معروف مرشد خاندان سے تھا۔ اس کے والد سید مقبول مرشد جاپان سمیت کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے۔ ان کے چچا جسٹس محبوب مرشد ڈھاکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے۔ افتخار مرشد صرف چند ماہ قبل ہی اپنی ٹریننگ مکمل کرکے میڈرڈ آئے تھے۔

وہ میڈرڈ میں پاکستان کے سفیر میجر جنرل عابد بلگرامی کے پاس پہنچے اور بھارتی سفارتکار بیدی کی فون کال کے بارے میں انہیں بتادیا۔

بلگرامی صاحب نے پوری بات غور سے سنی اور پائپ کے کش لگاتے ہوئے دھواں اڑانے لگے۔ وہ دل ہی دل میں نوجوان افتخار مرشد کی وطن سے محبت کو داد دے رہے تھے اور انہیں اپنا نوجوان داماد یاد آرہا تھا جو مشرقی پاکستان میں میجر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے شہید ہوا تھا۔ بلگرامی صاحب نے افتخار مرشد سے کہا کہ تم بیدی کو ملو ا ور پتہ کرو کہ بھارتی سفارتخانہ یہاں کس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہے ہوسکتا ہے کہ ہمیں کوئی اہم انفارمیشن مل جائے۔

نوجوان افتخار مرشد اپنے ڈپلومیٹک کیرئیر کے آغاز میں ہی ایک بڑے امتحان سے دوچار ہوچکا تھا۔ اس نے بیدی کو فون کیا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ بیدی بہت خوش ہوا اور میڈرڈکی سن سیٹ بار میں دونوں کی ملاقات طے ہوئی۔ ملاقات میں بیدی نے اپنی پیشکش دہرائی تو افتخار مرشد نے کہا کہ وہ فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے دو چھوٹے بچے اور بیوی لاہور میں ہیں۔ جب تک وہ بیوی بچوں کو میڈرڈ نہیں لے آتے وہ بنگلہ دیش نہیں جاسکتے۔ بیدی نے کہا کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں تم اپنی فیملی کو جب بھی یہاں لے آئو گے ہم تمہیں ڈھاکہ پہنچادیں گے لیکن اس دوران یہ پتہ کر دو کہ پاکستان نیوی کا ایک جہاز مرمت کے لئے میڈرڈ پورٹ کی طرف آرہا ہے اس جہاز کا نام سرفراز رفیقی ہے اور اس جہاز پر سوار عملے کے بارہ ارکان بنگلہ دیش جانا چاہتے ہیں جب یہ جہاز یہاں پر آجائے تو ہمیں بتادینا۔

افتخار مرشد نے یہ بات اپنے سفیر کو بتادی اور انہوں نے یہ اطلاع دفتر خارجہ کو دے دی۔ اس دوران افتخار مرشد کی والدہ نے فون پر رابطہ کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ بنگالی ہونے کی وجہ سے تمہیں پاکستان میں گولی ماردی جائے گی تم ڈھاکہ آجائو۔ افتخار مرشد اپنی والدہ کو ٹالتے رہے۔ ایک دن والدہ میڈرڈ پہنچ گئیں اور اپنے ساتھ ڈھاکہ چلنے پر اصرار کیا۔ افتخار مرشد نے والدہ سے کہا کہ آپ کے پوتے لاہور میں ہیں ان کی والدہ کو اپنے پوتوں سے بہت محبت تھی لیکن ان کا خیال تھا کہ بہو لاہور کی رہنے والی ہے لہٰذا پوتے محفوظ ہیں اور اگر بہو اپنے بچوں سمیت ڈھاکہ آنا چاہے تو اسے بھی بلایا جاسکتا ہے۔

یہ وہ موقع تھا جب افتخار مرشد نے اپنی والدہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا کہ آپ میری ماں ہیں آپ کو میری سلامتی کی فکر ہے لیکن مجھے اپنے وطن کی فکر ہے میرا وطن پاکستان ہے اور مجھے واپس بنگلہ دیش نہیں پاکستان جانا ہے۔ والدہ روتی دھوتی واپس ڈھاکہ چلی گئیں۔ کچھ سال کے بعد وہ بہت بیمار پڑیں تو افتخار مرشد دفتر خارجہ سے اجازت لے کر ان کی عیادت کے لئے ڈھاکہ گئے۔ کچھ عرصہ بعد ان کی والدہ انتقال کرگئیں۔ افتخار مرشد نے کچھ سال پہلے یہ کہانی مجھے ریاض کھوکھر صاحب کے گھر سنائی تھی۔

پھر انہوں نے اس کہانی کا کچھ حصہ اپنے انگریزی کالم میں بھی لکھا۔ وہ ماسکو میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اور انہوں نے انگریزی زبان میں ایک جریدہ نکالنا شروع کیا جو سفارتی و علمی حلقوں میں بڑا مقبول تھا۔ افتخار مرشد صاحب طویل علالت کے بعد گزشتہ ہفتے انتقال کرگئے۔ آج صبح ان کے بارے میں جاوید حفیظ صاحب کا کالم پڑھتے ہوئے مجھے ان کی بہت سی باتیں یاد آنے لگیں۔

افتخار مرشد صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ آپ ایسے لوگوں کی کہانیاں تلاش کریں جنہوں نے 1971ءمیں پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھی وہ رشتے نہیں توڑے جو متحدہ پاکستان میں قائم ہوئے۔

انہوں نے مجھے ایسی خواتین کے بارے میں بتایا جو 1971ءسے پہلے بیاہ کر مغربی پاکستان سے ڈھاکہ چلی گئیں اور پاکستان ٹوٹنے کے بعد وہیں رہیں واپس نہ آئیں، ایسے مردوں کے بارے میں بتایا جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا لیکن ان کی شادیاں مغربی پاکستان میں ہوئیں جب پاکستان ٹوٹ گیا تو وہ مرد واپس بنگلہ دیش نہیں گئے۔ میں نے ایسی کئی کہانیاں تلاش کیں۔

میرا خیا ل تھا ایسے جوڑوں کو اکٹھا کرکے پاکستان اور بنگلہ دیش کو قریب لایا جاسکتا ہے۔

بدقسمتی سے دونوں ممالک کے تعلقات اتنے بگڑے کہ میں نے ان پرانے رشتوں کو کسی نئے امتحان میں ڈالنا مناسب نہ سمجھا لیکن مجھے یقین ہے کہ افتخار مرشد صاحب کی خواہش ایک دن ضرورپوری ہوگی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اپنے تلخ ماضی کو بھلا کر ایک نیا مستقبل تلاش کریں گے اور یہ حسین مستقبل افتخار مرشد کے خوابوں کی تعبیر ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے