سی پیک،عمران خان اور وزارت عظمی

سب سے پہلے بات کرتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات پر جو اب کھل کر سامنے آگئے ہیں جس کا واضخ ثبوت پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور خان صاحب کے قریب ترین دوست سیف اللہ نیازی کا استعفا ہے جبکہ لاہور میں یوتھ اور لیبر ونگ کی جانب سے لگائے گئے پوسٹرز بھی یہی کہانی بیان کر رہے ہیں ،ادھر خیبرپختونخوا میں ایم پی اے ملیحہ اصغر خان بھی پی ٹی آئی کے ناراض گروپ سے مل گئیں ہیں۔

عمران خان کے قریبی دوست اور پاکستان تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل سیف اللہ نیازی پارٹی پالیسوں سے اختلاف اور بے جا مداخلت کی بنا پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے اور اُن کا استعفا پارٹی چیئرمین کو موصول ہوچکا ہے ۔تاد م تحریر یہ نہیں معلوم کہ چیئرمین عمران خان نے ان کا استعفا قبول کیا ہے یا انہیں منانے کی کوشش کی جائے گی ؟؟

دوسری جانب پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کی ہر کام میں مداخلت سے تنگ آکر لاہور میں پارٹی کے یوتھ اور لیبر ونگ نے ان کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہوئے شہر کے کئی مقامات پر پوسٹرز لگائے تاہم یوتھ ونگ کے صدر نے اس اقدام سے لاتعلقی کا اظہار کیا جس کے بعد پارٹی ترجمان نعیم الحق نے اس اقدام کو پی ٹی آئی کے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ چند بکے ہوئے لوگوں کی کارستانی ہے اور پارٹی کے اندر کوئی دھڑے بندی یا گروپ بندی نہیں ۔

اب آتے ہیں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں وفاقی حکمرانوں کی من مانیوں اور اس پر عمران خان کی پراسرار خاموشی کی جانب۔جب سے میاں نواز شریف کی حکومت بنی ہے کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں جاتا جب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ان کی حکومت پر تنقید اور مسلم لیگ ن پر الزامات کی بوچھاڑ نہ کی ہو۔معاملہ کوئی بھی ہو عمران خان 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی اور پانامہ لیکس میں انکشاف کئے گئے وزیراعظم کے کرپشن کو نہیں بھولتے ،چاہے وہ کسی خودکش حملے کے بعد ان کا کوئی بیان ہی کیوں نہ ہوتاہم کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری میں خیبرپختونخوا سمیت دیگر چھوٹے صوبوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر عمران خان نے ایک آدھ بیان کے سوا کس دن اور کس تاریخ کو لب کشائی کی ؟؟؟چلیں سندھ کو تو جانے دیں کہ وہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے ۔سندھ جانے اور پیپلزپارٹی جانے تاہم خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر سی پیک کے منصوبوں میں خیبرپختونخوا کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر خان صاحب نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے جو نہ جانے کب ٹوٹے گا یا وہ اپنا یہ چپ کا روز ہ توڑنے کا ارادہ رکھتے بھی ہیں؟؟؟

عمران خان صاحب وزیراعظم میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی حکومت پر ہر طرح کا الزام لگائے جا رہے ہیں تاہم ان کے منہ سے غلطی سے بھی کوئی ایسی بات سننے میں نہیں آرہی جس میں چین پاکستان اقتصادی راہدار ی منصوبے میں خیبرپختونخوا کے جائز حصے کی بات کی گئی ہو۔کہیں ایسا تو نہیں کہ خان صاحب وزارت عظمی کے حصول کی وجہ سے اس معاملے پر خاموش ہوں کیونکہ یہ بات تو چڑھتے سورج کی طرح عیاں ہے کہ پنجابی ووٹ کے بغیر مملکت خداداد میں کوئی بھی وزیراعظم کی کرسی تک نہیں پہنچ سکتا اور یہی عمران خان صاحب کی سب سے بڑی کمزوری ہے (جس کی وجہ سے وہ سی پیک میں خیبرپختونخوا کے جائز حق کی بات بھی نہیں کرپارہے)۔

اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہم پختون ،سندھیوں اور پنجابیوں کی طرح ذہنی غلام نہیں اگر یقین نہ آئے تو پچھلے تین چار انتخابات کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں ۔مذہبی جماعتوں کے اتحادمتحدہ مجلس عمل کو آزمایا گیا جب ان کی کارکردگی خیبرپختونخوا کے عوام کو مطمئن نہ کرسکی توا گلے الیکشن میں قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کوووٹ کے ذریعے صوبائی اسمبلی میں پہنچایا گیا ۔جب اے این پی کی کرپشن اور اقرباء پروری بھی محسوس کی گئی (حالانکہ اے این پی کے دور حکومت میں صوبے میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے جن میں سے بعض پراجیکٹس اب تک جاری ہیں )تو ان کو بھی نکال باہر کیا گیا اور اب صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جن کے کریڈٹ پر سوائے ایک آدھ ادارے میں اصلاحات لانے کے اور کچھ نہیں اور وہ اصلاحات بھی تب دیرپا ثابت ہونگی جب صوبے میں ان کی حکومت نہ ہو اور وہ ادارے ٹھیک طرح سے کام کریں ۔(پی ٹی آئی کی حکومت پر تو ان کے اپنے اراکین صوبائی اسمبلی کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں)

خان صاحب کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ کہیں وزارت عظمی کے شوق میں وہ خیبرپختونخوا کے لوگوں کے دلوں سے اُتر نہ جائیں اور اگلے الیکشن میں پھرسے ایم ایم اے (یا کسی ایک مذہبی جماعت )،اے این پی یا کسی اور سیاسی جماعت کی حکومت بنے اور خان صاحب اپنے مصاحبین کے ہمراہ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔عمران خان صاحب کو ترک صدر رجب طیب اوردوان کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہئے جو1994سے1998 تک استبول شہر کے میئر رہے تاہم انہوں نے استنبول کے باسیوں کی ایسی خدمت کی اور ان کے شہر کو ایک ایسا نظام دیا جو پورے ترکی میں ستارے کی مانند چمکنے لگا ۔2003سے لے کر 2014تک وہ ترکی کے وزیراعظم رہے اور اپنی وزارت عظمی کے دوران انہوں نے ترکی کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیا ۔رجب طیب اوردگان نے 28اگست 2014کو ترکی کے بارہویں صدر کی حیثیت سے حلف لیااوروہ تاحال ترکی کے صدر ہیں۔16جولائی 2016کو ترک فوج کے ایک گروپ نے صدر رجب طیب اوردوان کے خلاف بغاوت کی تاہم اوردوان کی اپیل پر ترک عوام نے زبردست مزاحمت کی اور فوج کی بغاوت ناکام بنا دی ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر عمران خان بھی رجب طیب اوردوان کی طرح عوامی خدمت کو شعار بنالیں اور خیبرپختونخوا میں ایک ایسا نظام تشکیل دیں(صرف زبانی جمع خرچ نہ کریں ) جو دیگر صوبوں کے لئے ایک مثال ہو تو ان کی وزارت عظمی کی راہ آسان ہوسکتی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے