شام: نحیف سامراج کا کھوکھلا وار

منہ پھٹ اور بے لگام ٹرمپ کو بہت جلد ہی لگام ڈال دی گئی ہے۔ امریکہ کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور وال سٹریٹ حاوی ہو گئے ہیں۔ اَرب پتی ٹرمپ کی ”واشنگٹن کی اشرافیہ‘‘ اور ”ریاست کے اندر ریاست‘‘ کو ختم کرنے کی نعرے بازی ہوا ہو گئی ہے۔ اسے امریکی پالیسی میں اپنی مجوزہ ‘حقیقی تبدیلی‘ کی نعرہ بازی کو شرمناک طریقے سے ترک کرنا پڑا ہے۔ شام پر حالیہ میزائل حملوں سے چند ہی دن پہلے اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ خاص نکی ہیلی نے کہا تھا کہ شام میں بشارالاسد ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کر لینا چاہیے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہو چکی ہے کہ سیاست دان اور صدور جن ریاستی اداروں اور ‘ڈیپ سٹیٹ‘ (ریاست کے اندر ریاست) کی جکڑ میں حکومت کرتے ہیں، حقیقی اقتدار بھی وہاں ہی ہوتا ہے، کسی فرد یا پارٹی کی تبدیلی سے نظام کی بنیادی ترجیحات اور مفادات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

ایسا لگتا ہے کہ مغربی میڈیا پہلے سے ہی اس تازہ جارحیت کے حق میں مہم چلانے کے لئے بالکل تیار بیٹھا تھا۔ ادلب (Idlib) پر مبینہ کیمیائی حملوں کے چند لمحوں بعد ہی مغربی سامراجی میڈیا چلّانے لگا کہ بشارالاسد ہی اس کا ذمہ دار ہے۔ اس پروپیگنڈے کا سکرپٹ بھی ہر جگہ ایک جیسا تھا، جس میں غم و غصے کے ساتھ امریکہ سے ‘بدلہ‘ لینے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ ایک امریکی ویب سائٹ پر ایک انتہائی دلچسپ تبصرہ کیا گیا، ”کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے ذمہ داروں کا تعین اس سے بھی کم وقت میں کیا گیا جتنے میں نیویارک پولیس گلی میں ہونے والی چوری کے ذمہ داروں کا تعین کرتی ہے۔ فیصلہ سنا دیا گیا اور سزا پر عمل درآمد جاری ہے۔ اس تیز رفتاری کا موازنہ صرف افغانستان، عراق اور یمن میں امریکی بمباری سے ہی کیا جاسکتا ہے، جس میں سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیں۔ بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں جیسے معاملات کی تحقیقات میں تو وہ ہفتوں لگا دیتے ہیں اور پھر بھی رپورٹ میں ہلاکتوں کو یکسر مسترد کیا جاتا ہے یا بہت کم دکھایا جاتا ہے۔‘‘

تڑپتے ہوئے شامی بچوں کے ویڈیوز کا منافقانہ استعمال دراصل القاعدہ، النصرہ اور دوسری وحشی تنظیموں کے مفاد میں کیا جا رہا ہے، جو ان مغربی سامراجیوں کے کٹھ پتلی گروہ ہیں۔ اردوعان سے لے کر بعض عرب ریاستوں اور صہیونی اسرائیل سے لے کر کینیڈا کی لبرل حکومت تک، تمام جابر، رجعتی اور سامراجی حکومتیں امریکی بمباری پر شادیانے بجا رہی ہیں۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کے سامراجی ٹھیکیدار اب اسی ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں جس کی چند دن پہلے وہ مذمت کرتے نہیں تھکتے تھے۔

یہ دعویٰ کہ یہ حملہ شامی حکومت کے زہریلی گیس کے حملے کے جواب میں کیا گیا ہے، سراسر غلط اور منافقانہ ہے۔ چودہ سال پہلے امریکہ نے صدام حسین کے ‘وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘ کے بارے میں جھوٹ بول کر عراق پر حملہ کیا تھا۔ دس لاکھ سے زائد لوگ قتل ہوئے اور کروڑوں لوگوں کی زندگیاں برباد ہو گئیں۔ حالیہ تاریخ میں لیبیا اور عراق سے لے کر ماضی میں ویت نام اور عالمی جنگوں تک، جارحیت کے لئے سفید جھوٹ بولنا ان سامراجیوں کی پرانی واردات ہے۔

2007ء سے 2010ء کے دوران شام میں خشک سالی کی وجہ سے آبادی کے بہت بڑے حصے کو شہروں کی طرف ہجرت کرنا پڑی تھی۔ اس سے وہاں ایک نیم منصوبہ بند معیشت کے انفراسٹرکچر پر کافی دبائو پڑا۔ عوامی بے چینی سے مارچ 2011ء میں ایک چھوٹی سی تحریک ابھری۔ یہ ‘عرب بہار‘ کا وقت تھا۔ بشارالاسد نے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی، لیکن جب قیادت کے فقدان کے پیش نظر یہ خود رو تحریک اپنی سمت کھونے لگی تو رجعتی ریاستیں اور مغربی سامراجی اپنے اپنے پراکسی گروہوں کے ساتھ اس میں کود پڑے، تاکہ عراق کی طرح یہاں بھی کوئی کٹھ پتلی حکومت قائم کر سکیں۔ یہ وہی وحشی، جنونی اور بنیاد پرست گروہ تھے جن کے خلاف امریکہ نے 2001ء میں نام نہاد ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ شروع کی تھی۔ اس مداخلت کی ایک بنیادی وجہ امریکی حمایت یافتہ بادشاہتوں اور بشارالاسد کی حکومت کے درمیان رقابت تھی۔ علاوہ ازیں اسد کم از کم دکھاوے کی حد تک امریکی بالادستی کی مخالفت کرتا تھا اور وہ روس کے قریب تھا۔ اس مداخلت کے نتیجے میں انقلابی تحریک رفتہ رفتہ دم توڑتی گئی اور اس کی جگہ اَن گنت پراکسی گروہوں کی شامی حکومت اور بعد ازاں ایک دوسرے کے خلاف خونریز جنگ نے لے لی۔

مشہور برطانوی صحافی فنیان کننگم نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھا، ”امریکہ جیش الاسلام اور احرالشام جیسی مسلح تنظیموںکو کیوں دہشت گرد قرار نہیں دیتا؟ اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے۔ واشنگٹن شام میں حکومتی تبدیلی کے لیے ان پر انحصار کرتا ہے۔ ان ”سیکولر‘‘ باغیوں، القاعدہ سے منسلک النصرہ اور داعش جیسی دوسری تنظیموں کے درمیان فرق کرنا مشکل ہے۔ ان میں سے ایک نے حلب میں کرد ملیشیا کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی تصدیق کی ہے۔ وہ انسانی ڈھال استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو قتل کرنے کی ویڈیوز جاری کرتے ہیں۔ اس کے باوجود جنیوا میں اقوام متحدہ کے امن مذاکرات میں ان کے نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ ماضی میں انتہاپسند باغیوں کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے کئی شواہد ملے ہیں۔ امریکی صحافی سیمور ہرش کے مطابق 2013ء میں کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ شاید النصرہ فرنٹ نے کیا تھا۔ پچھلے ہفتے بشارالاسد نے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ”یورپ میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے شام میں ان کی سرپرستی بند کر دو۔‘‘

امریکی سامراج اس آگ کو مزید بھڑکا رہا ہے جو اس نے اسد حکومت کو گرانے کے لیے لگائی تھی۔ پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور پانچ ملین سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔ بشارالاسد صرف روس اور ایران کی حمایت کی وجہ سے ہی ابھی تک قائم نہیں ہے، بلکہ شامی عوام بھی ان کٹھ پتلی گروہوں سے نفرت کرتے ہیں۔ روس اور ایران کے اپنے مفادات ہیں۔ خطے میں بالادستی کے لئے بعض ریاستوں کی اپنی چپقلش ہے۔ پیوٹن کی سفارتی اور عسکری چالیں بھی بے کار جا رہی ہیں۔ پیوٹن نادانی میں یقین کر بیٹھا تھا کہ وائٹ ہائوس میں صدر کی تبدیلی سے امریکی پالیسی بھی بدل جائے گی۔ دوسری طرف روس اور اسرائیل شام میں اپنے مشترکہ مفادات کو توازن میں لا رہے ہیں۔ کریملن کا دورہ کرنے والے اہم سربراہان مملکت میں بنیامین نیتن یاہو بھی شامل تھا۔

یہ احمقانہ جارحیت امریکہ کے شدید معاشی اور سماجی بحران کے عہد میں کی جا رہی ہے۔ اوباما نے اسی وجہ سے شام پر حملے سے گریز کیا تھا؛ تاہم کھوکھلے امریکی سامراج کا یہ حالیہ جنگی جنون بھی جلد بیٹھ جائے گا۔ روس بھی فی الوقت سلامتی کونسل جیسے خصی اداروں میں احتجاج اور دھمکیوں کے علاوہ کچھ نہیں کرے گا۔ روس اور امریکہ سمیت اس تنازعے میں شامل تمام حصہ دار بخوبی آگاہ ہیں کہ صورتحال ان کے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ لیکن آئندہ کسی امریکی میزائل حملے میں روسی فوجیوں کے اموات جیسے واقعات کے نتیجے میں پیوٹن انتقامی کارروائی پر مجبور ہو سکتا ہے۔ ایسی کیفیت ایک وسیع اور تباہ کن تنازعے کو جنم دے سکتی ہے۔ اسی وجہ سے امریکی پالیسی سازوں کا ایک دھڑا اس جارحانہ مؤقف سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہے۔ اس حملے کو ‘ایک بار کی کارروائی‘ قرار دے کر معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ سامراجی قوتوں، بالخصوص امریکہ کا تضاد یہ ہے کہ اپنے بحران کے عہد میں انہیں اپنی عسکری طاقت پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے، جسے وہ زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتے۔ پاگل پن کی یہ کیفیت دراصل عالمی سرمایہ داری کے تاریخی زوال اور استرداد کی غمازی کرتی ہے۔ بنجامن فرانکلن کے الفاظ کو مارکس نقل کیا تھاکہ ”تجارت ایک عمومی دھوکہ دہی جبکہ جنگ ڈاکہ زنی ہوتی ہے۔‘‘ پہلی جنگ عظیم کے دوران لینن نے اپنی دوست اور ساتھی انیسا آرمنڈ سے کہا تھا، ”ہاں! جنگیں خوفناک ہوتی ہیں، لیکن خوفناک حد تک منافع بخش بھی۔‘‘ سرمایہ داری اور سامراجیت اپنی پوری تاریخ میں معصوم انسانوں کا خون نچوڑتی رہی ہیں۔ اس کو اکھاڑے بغیر انسانی تہذیب کو بربریت سے نہیں بچایا جا سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے