شناخت کا بحران ، حساسیت اور پیچیدگی

معاشر ے میں ہماری پہچان کے بہت سے پہلو ہیں جس میں بنیادی طو ر پر ہمار ا مذہب، مسلک ، خاندان، علاقہ ، ثقافت، زبان اورپیشہ وغیرہ شامل ہے۔ یہ پہلوہماری پہچان کو معاشرے میں دوسروں سے منفر د کرتے ہیں۔اور اس بنیاد پر پرورش پانے والی پہچان پر ہم فخر محسوس کرتے ہیں اور اس طرح ہمارا تصور ذات پختہ ہوتا چلاجاتاہے۔

کبھی کبھارہماری شناخت اتنی اہم ہوجاتی ہے کہ ہمارے اعمال کا تعین اور سمت ہماری شناخت ہی کر رہی ہوتی ہے۔ جس سے ہمارے سیاسی وسماجی ومذہبی اورمسلکی رحجانات کا تعین ہماری شناخت اور پہچان ہی کررہی ہوتی ہے۔ مثال کے طو ر پر جیسے ہی الیکشن کا اعلان ہوتاہے سیاسی قائدین سیاسی ماحول کو خوب بید ار کرتےہیں ،عوامی اٹھک بیٹھک شروع ہو جاتی ہے ہر شام محفلیں سجتی ہیں اور سیاسی تبصرے اور سیاسی پارٹیوں کے ساتھ وفاداریوں کی داستانیں پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح جیسے ہی ربیع الاول کا چاند نظر آئے بریلوی مکتب فکر میلاد کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں اور گلی محلوں میں ایک میلے سے سماں بندھ جاتاہے ، اہل تشیع حضرت امام حسین اور اہل بیت کی محبت میں بالخصوص محرم میں مجالس اور اجتماعات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں،

کبھی کبھار ہمارا عمل اور رویہ ہماری شناخت یا پہچان بناتاہے ۔ مثال کے طور پر اگر کو ئی طالب علم اپنے فائنل امتحانات میں بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کرتاہے تو وہ ادارے اور سوسائٹی میں اپنی ایک الگ پہچان حاصل کرتاہے۔ لوگ اس کی محنت کی تعریف اور حوصلہ ا‌فزائی کرتے ہیں اور یہی پہچان اسے کامیابی کی گامزن کرنے میں بھرپور مدد کرتی ہے۔

شناخت فی ذاتہ مثبت ہے نہ منفی لیکن اپنایا جانے والا رویہ اسے مثبت یا منفی بناتاہے۔ اگر ہم اپنے معاشر ے پر نظر دوڑائیں توچھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹی ہوئی انسانی شناخت نے کچھ مسائل کو ضرور جنم دیاہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا بیانیہ مسلکی، مذہبی ، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر بن چکاہے، جس میں ایک گروہ کو دوسرے کے خلاف دفاعی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

مثال کے طور پر قصور میں مسیحی جوڑے (میاں بیوی) کو زندہ جلانے کے لئےمسلمانوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہو جاتاہے۔ اور ان کو اینٹوں کے بھٹےمیں تیز آگ میں زندہ پھینکا جاتاہے اور وہ چند لمحوں میں جل کر راکھ ہو جاتے ہیں ۔ لیکن مشتعل لوگ اس کو اسلام اور مسلمانوں کی فتح سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح لاہور میں چرچ کے باہر دھماکے کے بعد دو مسلمان شہری بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے صرف لمبی داڑھی کی بنیاد پر مشتعل لوگوں کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں اور جلا کر مار دیے جاتے ہیں، اور لوگ یہ سمجھ کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے دہشت گردوں کو منطقی انجام دک پہنچا دیا ہے۔

یہ شناخت کا ہی مسئلہ ہے کہ جب اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین اپنے ایک دوست کی دعوت پر محفل میلاد میں شرکت کرتے ہیں جیسے ہی وہ اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں تو کچھ احباب ان سے سوال کرتے ہیں کہ تم کس مسلک سے ہو ہمیں لگتاہے کہ تم وہابی ہو یہاں آنے کا تمہارکیا مقصدہے، تمہیں کس نے اجازت دی ہے کہ تم میلاد کےپروگرام میں شرکت کرو۔

[pullquote] اس طرح کے اٹھنے والے تنازعات سےکچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا کوئی تہذیب یا دین کسی شخص کے عمل کو اس کے ظاہری حلیے اور مسلکی رحجان پر پرکھنے کی تعلیم دیتا ہے یا حقیقت کی تلاش کی ترغیب دیتاہے ؟کس حد تک ہمیں اپنی شاخت/ پہچان کا دفاع کرنا چاہیے،کیا ہماری شناخت معاشرے میں مسائل اور تنازعات کو تو جنم نہیں دے رہی جو بعد میں تشدد کا راستہ اختیار کرلے، کیا کوئی مذہب اپنی پہچان کی خاطر دوسرے مسلک اور مذہب کے لوگوں کو نقصان یا جان لینے کی اجازت دیتاہے، کیا کوئی غیر مسلم شخص ملزم یامجرم ٹھہرنے کی صورت میں مسلمانوں کا یا اکثریت کا کوئی گروہ اسےسزا دے سکتاہے یا یہ ذمہ داری قاضی یا عدالت کی ہے۔ ہمارہ معاشرہ ایسے مسائل سے بھر اپڑاہے جس میں بیشتر مسائل شخصی یا ذاتی نوعیت کے طور پر ابھرتے ہیں جو بعد میں عوامی طاقت کے حصول کی خاطرمسلکی اور مذہبی،علاقائی یا لسانیت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جو جانی و مالی نقصان کا بھی باعث بنتے ہیں ۔
[/pullquote]

شناخت کی حساسیت اور پیچیدگی کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمارے بہت سے تنازعات کا تعلق شناخت سے ہے۔ اب وقت اس چیز کا تقاضا کرتاہے کہ ہمیں ان مسائل پر کھل کر بات کر یں تاکہ ہم ان مسائل کی نوعیت کو جان کر ان کے ممکنہ حل تک پہنچ سکیں۔اور ایسے لوگ جو ان مسائل کو مسلکی اور مذہبی رنگ دیتے ہیں ان کو سز ا کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے