صادق و امین یا صادق خان

ہزاروں برس قدیم شہر لندن اور جمہوریت کی ماں کہلانے والے ملک برطانیہ کے دارلخلافہ لندن کے پہلے پاکستانی نثراد مئیر صادق خان کے انتخاب نے پاکستانی عوام میں رشک اور حیرت کو جہاں پروان چڑھایا۔وہی عوام لندن کے میئر کے انتخاب کا تقابلی موازنہ پاکستان کے مروجہ سیاسی نظام سے کرنے لگے جس میں درمیانے طبقے کا سیاست میں کردار انتخابات میں محدود ہوتا چلا جارہا ہے۔

اخبارات میں ہمارے حکمرانوں کے صادق خان کو لندن کا مئیر منتخب ہونے پر مبارکباد کے پیغامات پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی ۔ شہباز شریف برطانوی جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے صادق خان کی کامیابی کو جمہوری روایات کی فتح قرار دیتے ہیں۔موجودہ پاکستانی سیاست کے خدوخال پر نظر دوڑائی جائے تو ہماری بڑی سیاسی جماعتیں اقربا پروری کاروبار اور پیسے کی سیاست اور جمہوریت کے نام پر خاندانی سیاست کو پروان چرھانے میں معروف دکھائی دیتی ہیں۔

لندن کے میئر صادق خان کے انتخاب میں بہت سے نکات پوشیدہ ہیں۔ صادق خان کی کامیابی کے پیچھے برطانیہ کامربوط بلدیاتی نظام اور سیاسی جماعتوں کا گلی محلے کی سطح پر منظم ہونا ایک اہم جز ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں بلدیاتی انتخابات ایک طویل وقفے کے بعد سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت منعقد ہوئے۔ صوبائی حکومتیں اور سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی راہ پر ممکن رکاوٹ ڈالتی رہیں اور اب جب کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کو چھ سے زائد عرصہ بیت گیا ہے ابھی تک بلدیاتی ادارے فعال اور مکمل نہ ہو سکے۔ آج بھی صوبائی حکومتیں شہروں اور اضلاح میں میئرر کے انتخابات کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

لہذا آج بھی شہباز شریف وزیر اعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ لاہور کے میئر دکھائی دیتے ہیں۔یہی صورتحال کراچی جیسے بڑے شہر کی ہے علاوہ ازیں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں میں مروجہ کلچر اہم سیاسی اور حکومتی عہدوں پر تقرری میں سیاسی جماعت سے زیادہ حکمرانوں کی ذاتی پسند نا پسند پر مشتمل ہے۔

حال ہی میں پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد میں میئرر کا انتخاب ہوا۔ جب حکمران جماعت مسلم لیگ( ن) نے میئرکے عہدے کے لئے ایک غیر مانوس نام پیش کیا تونہ صرف اسلام آباد کے شہری بلکہ مسلم لیگی کارکن بھی حیرت میں ڈوب گئے۔

معروف صحافی خاور گھمن کی ڈان اخبار میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق شیخ انصر عزیز پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہیں اور تعمیرات کے شعبہ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں حکمران شریف خاندان کے کئی محلات اُن کے فن تعمیر میں مہارت کا عملی اظہار کر رہے ہیں۔اسکے علاوہ وہ اعلیٰ معیار کے کشمیری پکوان تیار کرنے اور حکمرانوں کے دستر خوان پہنچانے کا فریضہ بھی انجام دے چکے ہیں۔اسلام آباد جیسے شہر کے لئے وہ تعلیم صحت اور ماحول سے متعلق کیا وژن رکھتے ہیں اسکا معلوم نہ ہو سکا۔

محترم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب پی پی پی کو وزیراعظم کا اُمیداوار پارٹی میں تلاش کرنا تھا۔ تو مخدوم یوسف رضا گیلانی کو اس لئے بھی ترجیح دی گئی کہ وہ ملتان کی ایک بڑی گدی سے وابستہ ہیں اور اُن کی رشتہ داریاں مختلف اضلاع اور صوبوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔

یوسف رضا گیلانی جمال دین ولی کے مخدوم احمد محمود کے رشتہ دار ہیں اور مخدوم احمد محمود سندھ کے پیر بگاڑا کے قریبی رشتہ دار ہیں یوسف رضا گیلانی کے ماموں حجرہ شاہ مقیم کے پیر اور سابق وزیرپیر افضال علی شاہ گیلانی ہیں اور ان کے پھوپھا اٹک کے سابق رکن اسمبلی پیر آف مکھڈ ہیں۔

آج بھی ہماری قومی اسمبلی کے اکثریت اراکین اسمبلی ایک دوسرے سے رشتہ داریوں میں بندھے ہوئے ہیں،ان کے آباؤ اجداد انگریز دور کی اسمبلیوں میں ممبر رہے۔سلطنت برطانیہ انہی خاندانوں کو جاگیریں وظائف اور ملازمتیں ان کی خدمات کے عوض عنایت کرتی رہی۔ پاکستان کی یہی سیاسی اشرافیہ آمریت کا بھی حصہ رہی جمہوریت کے علمبردار اور تبدیلی کے نشان بھی ٹھرہے۔

1980کی دہائی میں صنعتکار اور تاجر طبقے کو ریاست کی سرپرستی میں سیاست میں متعارف کرایا گیا۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک تاریخی تبدیلی تھی جس میں جاگیرداروں کو صنعتکاروں نے سیاسی عمل کے ذریعے پیچھے دھکیل دیا ۔ لیکن دانشور یہ بھول گئے کہ جس معاشرے میں جاگیر دارانہ کلچر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہووہاں کا صنعتکار فوجی افسر بیورو کرپٹ سب جاگیردانہ کلچر میں رنگے جاتے ہیں۔ لہذا صنعتکار کئی مربعوں پر مشتمل فارم ہاؤس بناتے ہیں۔ اور زرعی زمینیں خریدتے ہیں۔

دوسری جانب ہماری بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ اہم عہدے اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے گھر کے فلسفے کے تحت اپنے رشتہ داروں عزیزواقارب میں تقسیم کرتی چلی آرہی ہے۔لہذاناسازی طبع کے باعث لندن علاج کرانے کی غرض سے جانا ہو تو وزیر اعظم کے اختیارات سمدھی وزیر کو سونپ کے جانا ایک فطری عمل دکھائی دیتا ہے۔ لندن کے میئر صادق خان کو مبارکباد دینے والے حکمران ماضی میں فیصل آباد کے میئر کے عہدے کے لئے ایک اہل سیاسی ورکر کے بجائے اپنے ہم زلف چوہدری شیر علی کوترجیح دیتے رہے ہیں۔

اگر ہماری بڑی سیاسی جماعتیں اور موجودہ حکمران درمیانے طبقے کے سیاست میں کردار سے واقعی مخلص ہیں تو پھر میٹرو بس منصوبے کے بجائے اس طرف بھی دیکھنا ہو گا کہ لندن میں ایک بس ڈرائیور کا بیٹا برطانیہ کے فلاحی ریاست کے تعلیمی نطام کی برکت کی وجہ سے ایک نامور وکیل بناہے۔ استحصال زدہ معاشرے میں بس ڈرائیور کا بچہ بس ڈرائیور اور ہاری کا بیٹا ہاری ہی رہتا ہے۔

اگر ہم قائد اعظم کے پاکستان کو اُن کے خوابوں کی تعبیر دینا چاہتے ہیں تو پھر ریاست کو تعلیم اور محنت پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی تا کہ غربت اور افلاس سے ستائے لوگ بیرون ملک ہجرت کرنے کی بجائے اسی معاشرے میں اپنے بچوں کو ترقی کرتا دیکھ سکیں اور ہمیں ایسی انتخابی اصلاحات کرنی ہوں گی کہ جس میں صادق اور امین کے بجائے صاف اور شفاف عوامی کردار کے حامل صادق خان عوام کی نمائندگی کر سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے