صحافت کا انتقال۔۔۔ انا للہ

یقین ہی نہیں آتا۔۔۔ کس قدر شریف اور کس قدر صحت مند تھی۔۔ اچانک کیا ہوا؟ کس منحوس کی نظر کھا گئی؟ بہرحال اب تو انتقال ہو ہی گیا۔۔ آپ سب سوچتے ہوں گے کہ کس کا انتقال ہوگیا تو جناب میں صحافت کی بات کر رہا تھا، یہ جب تک میر خلیل الرحمن اور حمیدنظامی مرحوم تک رہی ایک شریف زادی کی طرح اس نے خاندان کی عزت کا خیال رکھا۔۔ اس کے سر پہ دوپٹہ بھی ہوا کرتا تھا باقاعدہ پردہ دار خاتون تھی جسے آج کے میروں، نظامیوں اور دیگر سیٹھوں نے مل کر کوٹھے والی بنادیا۔۔

جناب کیا زمانہ تھا جب حمید نظامی مرحوم نے اپنی والدہ کے انتقال پر اپنے ادارہ کے ایک تیز طرار رپورٹر کی جانب سے شائع کی گئی تعزیت کی خبر پر رپورٹر موصوف کی خود خبر لی۔۔ کہنے لگے جناب یہ اخبار میری ذاتی جاگیر نہیں ایک نظریہ ہے، آئندہ میری یا میرے اہل خانہ کی کوئی خبر نہ شائع کی جائے نہیں تو آپ اپنے لیے نوکری تلاش کر لیجئے گا۔۔ یہ ہوتا تھا انداز صحافت۔۔

کیا زمانہ رہا ہوگا صاحب جب ایک جرات مند ایڈیٹر ہدایت اختر صاحب کو چیف ایڈیٹر نے ٹیلی فون کیا اور کہا میں ایک رپورٹر کو اس کی خبر پر جھاڑ پلانا چاہتا ہوں تو ہدایت اختر مرحوم نے جواب دیا جناب آپ میرے رپورٹر سے براہ راست سوال نہیں کر سکتے ، یہاں میں ایڈیٹر ہوں اور تمام خبروں کی ذمہ داری لیتا ہوں، آپ کو کوئی شکایت ہے تو وہ مجھ سے ہونی چاہیئے۔۔ چیف ایڈیٹر صاحب نے اپنے تنخواہ دار ایڈیٹر سے معذرت طلب کی اور فون بند کر دیا۔

آج صحافت تو ایسی ہے کہ کیا ٹبی گلی میں دھندا ہوتا ہوگا۔۔ کمرشل ازم کا دور ہے، یہاں اب نظریہ پاکستان کے نام پر چلنے والے اخبار میں بھی ایسی شہ سرخیاں شائع ہوتی ہیں کہ ہندوستانی بھی شرما جاتے ہیں۔

یہاں جناب عالم یہ ہے کہ ایک ایک مہینے میں 14 کروڑ روپے کے صرف سرکاری اشتہارات نجی ٹی وی چینلز پر چلتے ہیں مگر ان کی پیاس ہے کہ بجھتی ہی نہیں اسی لیے اس پیاس کو بجھانے کی خاطر مال سمیٹنے کے لیے تمام سیٹھ حضرات اکٹھے بھی ہوجاتے ہیں۔۔

کسی نے کیا خوب کہا کہ میراثی ویسے تو آپس میں ایک دوسرے کے لیے اینٹ اور کتے کی مانند ہوتے ہیں مگر جب کوئی باہر سے آکر انہیں للکارے تو ان کی میراث ایک ہوتی ہے اور یہ تمام اکٹھے ہو کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔۔ حال ہی میں ہم نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھا۔۔

ایک پاکستانی جو بیرون ملک بیٹھ کر پیسے کما رہا تھا اس نے سوچا پاکستان چل کر سرمایہ کاری کی جائے اور اس کی بنیاد رکھنے وہ شخص پاکستان آیا، یہاں وہ ایک میڈیا گروپ بنانا چاہتا تھا جہاں صحافی کی عزت ہو، جہاں اس نے اپنے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو باوقار ملازمت دینے کا خواب دیکھا۔۔ بھاری تنخواہوں پر صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی خدمات مستعار لی گئیں۔۔ ملک بھر کے بہترین لوگوں کا انتخاب کیا گیا۔۔

ہم جیسے بہترین لوگ اس خیال میں تھے کہ شاید یہاں تنخواہوں اور سہولیات کا مقابلہ شروع ہو جائے گااور ہمارے بھی دن پھر جائیں گے۔۔ جو اخبار اور ٹی وی چینلز بیگار کیمپوں میں بدل چکے ہیں وہاں ہمارے ورکرز کے حالات بہتر ہوجائیں گے ۔۔۔ لیکن جناب یہ سب سیٹھ اس بات پر متفق ہو گئے کہ اس نئے میڈیا گروپ جس کا نام بول گروپ تھاکو بند کروایا جائے۔۔ میں اس بات کی تفصیل میں نہیں جاتا کہ کیا کیس بنا؟ جس الزام پر شیخ شعیب کو گرفتار کیا گیا کیا وہ درست تھا؟ کیا ان الزامات پر پاکستان میں کوئی کیس رجسٹر ہوسکتا تھا؟

میں تو صرف یہ جاننا چاہتا ہوں اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب اور وزیر اطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید صاحب سے کہ کیا وہاں بھرتی ہونے والے میڈیا ورکرز کا کوئی قصور تھا؟ کیا یہ پاکستانی نہیں؟

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی قصور نہیں ، یہ پاکستانی شہری بھی ہیں۔۔ تو جناب ان کے گھروں میں چولہے بجھ چکے ہیں، ان کو اب وہ سیٹھ مافیا واپس لینے پر بھی تیار نہیں جو انہیں بول جانے سے روکنے کے لیے تنخواہیں دوگنا کرنے کی پیشکش کرتا رہا۔۔ پھر ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ہائی کورٹ نے بھی تو حکم دیا تھا۔۔۔ آپ کو تو عدالتوں کا احترام کرنے کا دعویٰ بھی ہے۔۔۔ تو کیا چیز ہے ۔۔ جو بول کے ورکرز کی تنخواہوں کی ادائیگی میں رکاوٹ ہے۔۔ کیا آپ کی حکومت نے ان لوگوں کو سیٹھ مافیا کے کہنے پر نوکری چھوڑ کر بول میں جانے کی سزا دینے کا ارادہ کر رکھا ہے۔۔

اگر ایسا ہے تو جناب دیر کیوں کرتے ہیں آئیے صحافت تو پہلے ہی درگور ہو چکی ہے اب عام صحافی اور میڈیا ورکر کو بھی اس کے انجام تک پہنچا دیجئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے