صحرا کا پیڑ

جمیل الدین زندگی کے اس آخری پڑاؤ میں، صحرا میں اُگے اس شجر کی طرح ہیں جس پر بھولا بھٹکا پرندہ بھی کبھی نہ چہچہایا ۔اُس خزاں رسیدہ پیڑ تلے بیٹھنے کی زحمت کون کرے کہ جس کا سایہ ہی نہ ہو۔میں اکثر راہ گزرتے ہوئے ان کے پاس پل دو پل ٹھہر جایا کرتا ہوں۔آج بھی حسبِ معمول وہاں سے گزرا تو دیکھا کہ جمیل آنگن میں شکستہ چارپائی پر تکیہ لگائے نیلگوں آسمان پہ نظریں جمائے ہوئے تھے۔جیسے وہ ماضی دریچوں سے کسی خوبصورت لمحے میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہوں۔مگر اس موہوم لمحے کو ان کی معمر بینائی دیکھنے سے قاصر ہے۔

میں نے قریب جا کر سلام کیا اور پاس رکھے ٹول پر بیٹھ گیا۔ وہ بدستور آسمان کی طرف دیکھتے رہے۔آخر میں نے سوال کی جسارت کرتے ہوئے کہا "کیا ڈھونڈ رہے ہیں جی…؟ آخر کیا وجہ ہے کہ میں آپ کو ہمیشہ اسی محویت کے عالم میں دیکھتا ہوں؟”…… وہ فوراً میری طرف مڑے، جیسے وہ میرے سوال کا ہی انتظار کر رہے ہوں۔کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد ایک لمبی سانس لی( جس میں برسوں کا کرب صاف دکھائی دے رہا تھا) اور گویا ہوئے "جمیل…… جمیل ایسے ہی نام نہیں ہے میرا ؛ کبھی یہاں کے لوگ مجھے یوسفِ سرحد کہا کرتے تھے۔

جب پیدا ہوا تو نصیبوں جلی دایہ نے عجیب واہیات جملہ کہا” ہائے توبہ کے سوہنا جنک اے”(ہائے توبہ کیا خوبصورت بچہ ہے)۔اس وقت میرا حسن تو محفوظ رہا مگر میرے مقدر کو اس دایہ کی نظر لگ گئی۔ماں نے جمیل نام رکھا تو والد نے الدین کا اضافہ کر دیا۔ محلے بھر میں چھوارے بانٹے گئے۔جب جب کوئی عورت مجھے دیکھنے آتی تو میری بلائیں لیتے نہ تھکتی۔ماں باپ اتنے مذہبی نہ تھے مگر سادہ سے مذہب پسند۔تعلیم کا کوئی خاص بندوبست نہ ہوا البتہ مکتب میں آخری دس سورتیں یاد کروا دی گئیں۔بچپن میں کبھی لڑکیوں کے ساتھ نہیں کھیلنے دیتے تھے کہ میری عادتیں بگڑ جائیں گی۔مولوی صاحب سے نظر کا تعویذ کروا کے گلے میں ڈال دیا ، کبھی سیاہ لباس نہ پہنایا کہ نظر لگ جائے گی۔

جوں جوں عمر بڑھتی گئی میری خوبصورتی چودھویں کے چاند کی طرح نکھرتی گئی ۔میری ماں جب میرے گھنگھریالے بالوں میں کنگھی کرتی تو کیا کیا بلائیں لیتی…کہتی "تمھارے لیے تو میں کوئی حور لاؤں گی…ایسی لڑکی جو کسی بھی طرح آفاق سے اتری اپسراء سے کم نہ ہوگی… دیکھنا سارا محلہ دیکھتا رہ جائے گا تمھاری دلہن کو” ۔میں بھی خوشی سے چہک سا جاتا، یہ پیار بھرے میٹھے بول سنتے سنتے میں انیس برس کا ہوگیا۔

محلے کی ہر عورت کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ خواہش انگڑائی لیتی کہ میں اس کا داماد بن جاؤں اس بات اندازہ مجھے تب ہوا جب راستے سے گزرتے ہوئے کوئی عورت مجھے زبردستی اپنے گھر لے جاتی اور میرے سامنے اپنی الھڑ بیٹی کی تعریفیں کرتی۔مگر مجھے اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ میرے لیے ماں اپسرا لائے گی۔

عمر بڑھتی گئی۔ اب ماں نے ادھر اُدھر باتیں چلائیں مگر کبھی ان کو لڑکی پسند نہ آتی اور کبھی لڑکی والے اونچے خاندان کا تقاضا کرتے۔ماں کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں اور والد تھے کہ ہمیشہ یہی کہتے ” جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں بیگم،اس کے لیے بھی کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گی، خواہ مخواہ کے بکھیڑے میں نہ الجھا کرو، ابھی کون سی عمر ڈھل گئی ہے”۔.ادھر میں تھا کہ ایک فرمانبردار اولاد کی طرح کبھی تقاضا نہیں کرتا تھا۔

کچھ بری صحبت اور کچھ جوانی کی امنگوں کے سبب دل میں خواہشات کی ایک متلاطم لہر اٹھتی اور جوانی کی ناؤ کسی عیش و عشرت سے آراستہ جزیرے پہ جا اترتی ۔وقتی سکون اور عشرت کدے کی یہ خماری ایسی تھی کہ مجھے اس کا نشہ سا ہوگیا۔ اس طرح اس آرائش سے مزین جزیرے کی سیاحت میرا معمول بنتا چلا گیا۔اس جزیرے کی پریاں مجھ پر اور میں ان پر فریفتہ تھا۔ جب کبھی وہاں تک رسائی نہ ہوتی تو چوری چھپے دوستوں کے ساتھ نشہ آور اشیاء کا استعمال کر لیتا۔پھر ایک حادثے کے بعد یہ سب کچھ بھی چھوٹ گیا۔اب جوانی کی آگ شرافت و تابعداری کے ملائم لبادے میں بھڑک بھڑک کر ٹھنڈی ہو جاتی۔مجھے شدت سے محسوس ہونے لگا تھا کہ شادی اسی عمر میں انتہائی ضروری ہے۔تاہم یہ خواہش کبھی لبِ اظہار تک نہ آئی۔

زندگی کروٹیں بدلتی رہی اور پھر جمیل پہلے جیسا حسین و جمیل نہ رہا۔چاند سے چہرے پر کیل اور مہاسوں نے ڈیرے ڈال دیے، آنکھیں کھوپڑی میں دھنسنے لگیں۔وہی آنکھیں جو دیکھنے والے کے دل میں محبت کے دیپ جلا دیتی تھیں، اب ان آنکھوں کو دیکھ کر وحشت سی ہونے لگتی۔بال وقت سے پہلے ہی سفید ہونے لگے ۔روایتوں اور بے جا تابعداری کا پھٹا پرانا لباس پہنے، زندگی کے قافلے سے بھٹکا، تنہا مسافر ایک کے بعد ایک پڑاؤ پر اترتا کہ شاید کوئی ہمسفر مل جائے۔مگرکبھی کسی قافلے کا غبار تک نہ دیکھا۔اور خود اپنے ضمیر کی رہنمائی سے محروم ہوتا چلا گیا۔

یہ زندگی کا تینتیسواں پڑاؤ تھا جب میری بوڑھی ماں نے مجھے یہ نوید سنائی کہ اُسے میرے لیے رشتہ مل گیا ہے”لڑکی تمھاری دایہ کی بھانجی ہے اور اب جلد ہی تمھاری شادی ہوجائے گی”۔ کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتا ہے پر مجھے ایسا لگا جیسے مجھے کشتی ہی مل گئی ہو۔شادی میں بھلے وہ رونق نہ تھی جو جواں سال جوڑوں کی شادیوں میں ہوا کرتی ہے، مگر میں خوش تھا، اور یوں میری اس لڑکی نما عورت سے شادی ہوگئی۔ لڑکی نما اس لیے کہ وہ ابھی تک کنواری تھی، اور عورت اس لیے کہ وہ زندگی کی چالیس دوزخی وادیوں سے گزر کر آئی تھی۔شاید میری طرح مقدر کی دھتکاری ہوئی۔لیکن زندگی کی اس دوزخ سے گزرنے کے باوجود اس میں محبت کا پھول ابھی تک مہک رہا تھا۔نام کے ساتھ ساتھ وہ صورت کی بھی حسینہ تھی۔مجھے لگا جیسے میرا سویا ہوا مقدر جاگ اٹھا ہو۔اس نے اپنی عادات و اطوار سے ایک وفا شعار بیوی اور سلیقہ مند بہو کا کردار بخوبی نبھایا۔

ہماری شادی کو ایک سال بیت گیا تھا،زندگی کے شب و روز آرام و سکون سے گزر رہے تھے۔اور اب ہم اپنے آنگن میں ایک مہکتے ہوئے گلاب کے امیدوار تھے۔ موسم اور سال بدلتے رہے ایک بعد ایک بہار آئی، چمن مہکے پھول کھلتے رہے کلی کلی پُر بہار ہوئی ۔۔۔مگر جس گلاب کی تمنا تھی وہ نہ کھل سکا۔میں چاہتا تھا کہ وقت کا یہ قافلہ کسی پڑاؤ پر ٹھہرے اور میں اپنی متاعِ گم گشتہ کو پھر سے حاصل کر لوں وہی امنگ و ترنگ پھر سے پالوں جسے میں کئی برس پہلے جوانی ندی کے گہرے پانی میں ڈبو چکا تھا ۔مگر افسوس کہ وقت کسی کا دوست نہیں ہر ایک کو بس ایک موقع دیتا ہے چاہے کوئی اس موقع سے زندگی کو سنوار لے یا بگاڑ لے ۔

ہمارے لبوں پر اب جبری مسکراہٹ نے ڈیرا جما لیا تھا اور چہرے پر مصنوعی حسن سجائے ہم دنیا کا سامنا کرتے رہے۔ آنکھوں میں ویرانیاں ہی ویرانیاں تھیں ہم دنوں اس سفر کی وحشت سے گھبرا رہے تھے۔ ظاہر کو جتنا سجا سنوار لیا جائے مگر زخمی روح جسم میں دراڑیں پیدا کر دیتی ہے ۔ جسم بے جان سا لگنے لگا اور پھر وہ گھبراہٹ اور احساس بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔

ایک دن یوں ہی بیٹھے بیٹھے اس نے کہا_”جمیل! تمھیں نہیں لگتا کہ ہم صحرا میں اُگے دو بے برگ و ثمر درخت ہیں۔ جو بے وجہ زمانے کی ان تند و تیز آندھیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ یا اپنے ڈار سے بچھڑے ہوئے کونج جو زندگی کی بے آب و گیاہ وادیوں میں بھٹک بھٹک کر، صحرا نوردی کرتے کرتے دم توڑ دیتے ہیں _”۔اور پھر وہ شجر(حسینہ) بھی اسی کرب کے سیل رواں میں بہ گیا۔ اب صرف میں ہوں، وہ تنہا بے برگ و ثمر درخت جس کی شاخ پر نہ کوئی پرندہ چہکتا ہے اور نہ اس کی چھاؤں میں کوئی بیٹھتا ہے۔اب ہر وقت آسمان کی طرف دیکھتا ہے کہ جانے کون سے لمحے کوئی آندھی آئے اور اسے اُڑا لے جائے”۔
_جمیل نے ایک بار پھر آسمان پہ ٹکٹکی باندھ لی__.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے