صرف چودہ دن

عبدالرحمن سوم کا مسلم سپین میں اموی سلطنت کے اہم بادشاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ عبدالرحمن الثالث کی مشہوری کی وجہ یہ تھی اس نے دسویں صدی میں اندلس میں مسلمانوں کی حکومت کو سنبھالا۔ گرتی ہوئی سلطنت کو دوبارہ اپنے پائوں پر نہ صرف کھڑا کیا بلکہ ریاست کا اثرورسوخ بھی بہتر بنایا۔ عبدالرحمن سوم نے انچاس برس تک مسلم سپین پر حکومت کی اور مسلمانوں کی حکمرانی کو مغرب کے اندر تک لے کر گئے۔

ہزاروں سال کی انسانی تاریخ میں کئی بادشاہ آئے اور کئی گئے لیکن عبدالرحمن نے اپنے انچاس برس کے طویل اقتدار کے ایک ایک دن کو قلم بند کیا۔ وہ رات کو دن بھر کے واقعات تحریری شکل میں ضرور لکھتے‘ چاہے کچھ بھی ہو جاتا۔ ان کے ان انچاس برسوں کی پوری تفصیل موجود ہے۔ جب عبدالرحمن سوم فوت ہوا اور اس کی دستاویزات کو پڑھا گیا تو انکشاف ہوا ان انچاس برسوں میں صرف چودہ دن ایسے تھے‘ جن میں بقول بادشاہ کے وہ بہت خوش ہوا۔ لیکن عبدالرحمن سوم نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ وہ چودہ دن کون سے تھے‘ جنہوں نے انہیں بہت خوشی دی اور انہوں نے زندگی کو خوب انجوائے کیا۔

اب عبدالرحمن سوم کی سب دستاویزات پڑھی گئیں تو سب نے اپنے اپنے اندازے لگانے شروع کر دیے کہ وہ کون سے ایسے چودہ دن ہو سکتے ہیں‘ جب بادشاہ بہت خوش تھا۔

کیا یہ وہ دن تھے جب وہ اپنے دشمنوں کے خلاف کامیاب جنگیں لڑ رہا تھا اور انہیں شکست دے رہا تھا‘ جن کے بارے میں تاریخ میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے؟ یا پھر بادشاہ کے نزدیک وہ دن بہت خوشی کا تھا جب وہ اکیس برس کی عمر میں بادشاہ بنا اور پورے خاندان نے اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ سب نے اس کی وفاداری کا حلف اٹھایا؟ اس کے لیے یہ بڑی خوشی کا دن اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے اپنے اموی خاندان میں سے کسی نے کھڑے ہو کر اس کے تاج پہننے پر اعتراض یا اس پر دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اس دن وہ اس لیے بھی خوش تھا کہ اس کو اقتدار ملتے وقت نہ تو کوئی جنگ ہوئی اور نہ ہی اسے پہلے اپنے رشتوں کا ہی لہو بہانا پڑتا ہے؟ اگرچہ وہ نوجوان تھا لیکن پھر بھی کسی نے خاندان میں اس کے بادشاہ بننے کی مخالفت نہیں کی لہٰذا وہ دن بھی ان چودہ دنوں میں شمار ہو سکتے ہیں جو اس کے نزدیک بہت خوشی کے تھے؟

یا پھر جس دن وہ اپنے دارالخلافہ ایک کامیاب جنگ جیتنے کے بعد لوٹا‘ وہ دن بہت خوشی کا تھا کیونکہ اس جنگ کی کمانڈ اس نے خود کی تھی؟ یا پھر اس کا وہ دن بہت خوشی کا تھا جب اس نے اس ناقابل تسخیر قلعے کو بالآخر فتح کر لیا‘ جہاں اس کے دشمن برسوں سے قبضہ کیے بہت سخت مزاحمت کر رہے تھے اور قلعہ تمام تر کوششوں کے باوجود فتح نہیں کیا جا سکا تھا‘ لیکن اب وہ قلعہ ان کے قبضے میں تھا؟ یا پھر عبدالرحمن سوم کے لیے وہ دن بہت خوشی کا تھا جب اس نے خود کو خلیفہ قرار دے کر سپین پر حکومت شروع کی۔ وہ لقب جو اس کے آبائواجداد کے پاس تھا‘ جب وہ شام سے اسلامی دنیا پر حکومت کرتے تھے؟ یا پھر عبدالرحمن سوم کو اس دن بہت خوشی ہوئی تھی‘ جس دن ان دو دیہات پر قبضہ کیا گیا جہاں سے باغی اس کی ریاست کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے؟ یا پھر اموی بادشاہ کے نزدیک ان چودہ دنوں میں وہ دن بھی شامل تھا‘ جب اس نے گائوں مدینۃ الزہرا میں خوبصورت ہال تعمیر کیا تھا؟ یہ وہ گائوں تھا جو اس نے اپنے دارالخلافہ کے نزدیک تعمیر کرایا تھا۔ یا پھر اس کے زندگی کے وہ چودہ دن اہم تھے‘ جو اس کی پرائیویٹ لائف کے حوالے سے تھے‘ جب اس نے بہت انجوائے کیا‘ لیکن اس بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔

وہ چودہ دن جب بھی تھے‘ لیکن مقصد یہ باور کرانا ہے کہ وہ دن ایسے بندے کیلئے شاید بہت کم تھے‘ جس نے انچاس برس سپین میں اقتدار، طاقت، اتھارٹی، دولت، فوجی فتوحات، خوبصورت ازدواجی زندگی اوربچوں کو انجوائے کیا ہو‘ لیکن اسے لگا ہو کہ زندگی کی خوبصورتی صرف چودہ دنوں تک ہی محدود تھی۔

ان تمام تر اندازوں کے باوجود ابھی تک یہ معمہ ہے کہ بھلا اتنے طویل عرصے تک بادشاہ رہنے والا عبدالرحمن کیونکر صرف چودہ دنوں میں ہی خوش تھا؟ تو کیا عبدالرحمن کے زندگی انجوائے کرنے کے دن اس لیے کم تھے کہ اس کی شخصیت اور کردار اس طرح کا تھا کہ وہ زندگی سے زیادہ انجوائے نہیں کر سکتا تھا؟ یا پھر وہ اپنی زندگی کو اس لیے انجوائے نہ کر سکتا تھا کہ جب جوان تھا تو وہ وقت اپنے کمزور اقتدار کو بچانے میں گزر گیا‘ جو اسے وراثت میں ملا تھا اور باقی زندگی اس اقتدار کی سرحدیں بڑھانے اور موجودہ سلطنت کو مضبوط کرنے میں مصروف رہا؟ سلطنت کے معاملات میں اسے پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کب جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہوا۔ یا پھر خوشی کے دن اس لیے کم تھے کہ ایک حکمران، ایک خلیفہ کی ذمہ داریاں ایسی تھیں کہ اس کی زندگی میں اس طرح خوشی کے بہت کم دن ہی آنا تھے۔

بادشاہوں کے بارے میں قدیم زمانوں کی بہت ساری کہانیاں سنائی جاتی ہیں‘ جن میں بہت سارے اخلاقی پہلو بھی ہوتے ہیں اور ان موضوعات پر جدید ڈرامے بھی لکھے اور ایکٹ کیے جاتے ہیں۔ ایک بہت کامیاب ڈرامہ‘ جو جدید دور میں کامیاب ہوا تھا‘ اس کا ٹائٹل تھا:The Rich also cry یہ میکسکو اور روس میں بھی بہت کامیاب ہوا تھا۔ بہت سارے لوگ بادشاہوں کی تکلیفوں پر بہت خوش ہوتے ہیں‘ اور انہیں اس میں سکون ملتا ہے۔

اب بادشاہ عبدالرحمن سوم کے چودہ دنوں کی خوشی کے بارے میں جو بتایا گیا ہے‘ اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ خوشی اس سے نہیں ملتی کہ آپ کے پاس کتنی اشیا ہیں، کتنی دولت ہے، سلطنت ہے بلکہ خوشی آپ کو اس بات پر ملتی ہے کہ آپ اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ اس لیے غریبوں اور امیروں کے پاس اپنی زندگی خوشی سے گزارنے کے لیے برابر کے مواقع ہیں۔ ایک بادشاہ انچاس برس حکمرانی کرنے کے بعد بھی اپنی زندگی کے صرف چودہ دنوں کو خوشی کے دن سمجھتا ہے‘ تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک غریب آدمی اس سے زیادہ دن خوش رہا ہوگا۔

اس طرح کی بات کسی اور بادشاہ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ عبدالرحمن سوم نے جو کچھ بھی ان انچاس برسوں میں حاصل کیا تھا‘ جس میں اس کا اموی ریاست کو مضبوط کرنا‘ اس دور کی اہم سلطنتوں اور شخصیتوں کے ساتھ رابطے، شمالی افریقہ میں فاطمی خلافت اور جرمن بادشاہ کے ساتھ تعلقات شامل تھے، وہ سب مختصر وقت کے لیے تھے۔ انہیں بہت جلد ختم ہونا تھا۔ عبدالرحمن سوم کی وفات کے صرف پچاس برس بعد ہی جو خلافت اس نے کھڑی کی تھی‘ اس کی بنیادیں ہلنا ایسی شروع ہوئیں کہ دوبارہ سنبھل نہ سکیں اور اس کا اپنے ہاتھوں سے بسایا گیا مدینۃ الزہرا ایک دن کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ مؤرخ بادشاہ عبدالرحمن سوم کے ان چودہ دنوں کو ہی اس کی اصل کامیابی سمجھتے ہیں‘ جب وہ بہت خوش تھا۔ اگرچہ اس نے اپنے دور میں اندلس کی حالت بدل دی تھی۔ اس نے اندلس کو ایک ایسی شناخت دی تھی‘ جوزمانوں تک زندہ رہی‘ لیکن ایک ایسا بادشاہ جو اتنی فتوحات اور کامیابیوں کے باوجود اپنی زندگی کے آخری دنوں میں یہ لکھ کر مر گیا کہ ان اٹھارہ ہزار دنوں کے اقتدار میں صرف چودہ دن ایسے تھے جن میں وہ خوش تھا۔

میں نے عبدالرحمن سوم پر لکھی گئی کتاب Abd al Rahman iii (The fist Cordoban Caliph) ایک طرف رکھی۔ ایک گہری سانس لی اور دن گننے شروع کیے کہ میری زندگی میں ایسے کتنے دن تھے جن میں‘ میں بہت خوش تھا۔ گنتی بڑھتی گئی اور بڑھتی گئی اور مجھے لگا‘ ہم عام انسان خواہ مخواہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہوں کی زندگی کتنی عالی شان ہوتی ہے اور وہ پتہ نہیں کتنی زندگی انجوائے کرتے ہوں گے‘ لیکن اتنی طویل سلطنتیں، ہیرے جواہرات، لاکھوں افواج، لوگوں کی زندگیوں موت کے فیصلے کرنے کے اختیارات رکھنے کے باوجود وہ بستر مرگ پر صرف چودہ روز تلاش کر پاتے ہیں جب وہ واقعی خوش تھے۔

ایک بادشاہ کو بھی لگا کہ اس نے صرف چودہ دن ہی اصل زندگی گزاری تھی!
جی ہاں صرف چودہ دن!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے