عالمی اجتماع،اہل حق کی نشاۃ ثانیہ کی انگڑائی

پشاور میں صدسالہ عالمی اجتما ع کا آغاز ہوچکا ،اپنی نوعیت کاایک منفرد ،تاریخی ،یادگار اور حیران کن اجتماع ۔۔۔یہ اجتما ع صرف جمعیت علماء اسلام کا جلسہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی انگڑائی ،ایک پیغام اور حریت فکر وعمل اور جہد مسلسل کا استعارہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیزپاکستان عالمی استعماری قوتوں کی سازشوں ،شرارتوں اور ریشہ دوانیوں کا ہدف بنا ہوا ہے بالخصوص لادینیت کو ایک منظم منصوبے کے تحت رواج دیا جارہا ہے اور سیکولرازم کو پاکستان کا مقدر باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے میں یہ عالمی اجتماع پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے اسلام پسندوں ،دین کے ساتھ محبت اور تعلق رکھنے والوں اور امت کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھنے والوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے وہ تمام عناصرجو پاکستان کے نظریے کو مسخ کر کے اور اس کے قیام کے مقاصد کو نظر انداز کر کے اس پاک وطن کے چہرے پر سیکولرازم کی کالک ملنا چاہتے ہیںیہ اجتما ع ان سب کے لیے کھلا پیغام ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ،اسلام ہی اس ملک کا سامان بقا ء ہے اور اسلام ہی اس ملک کا مستقبل اور مقدر ہے ۔

یہ اجتماع ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب دنیا میں تہذیبی کشمکش جاری ہے اور مغرب مسلمانوں کی اقدار وروایات ،تہذیب وشناخت ،شرم وحیا ء اور کلچر پر حملہ آورہے۔کبھی ذرائع ابلاغ کے ذریعے مادر پدر تہذیب کی تشہیر کی جاتی ہے ،کبھی لباس اور تزئین وآرائش اور نت نئی آسائشوں کے نام پر مغربی تہذیب کو رواج دیا جاتاہے ،کبھی سیاستدانوں کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار کروایا جاتا ہے ،کبھی دوسرے شعبوں کے وابستگان کے ذریعے اپنی فکر وفلسفہ اقوام عالم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی مختلف این جی اوز اور سیاسی جماعتیں تشکیل دے کر انہیں مغربی اقدار وافکار کو فروغ دینے کا ٹاسک سونپا جاتا ہے اور پھرمحض سینماؤں اور تھیٹروں میں ہی نہیں چوکوں اور چوراہوں پر ،گلیوں اور بازاروں میں حتی کہ تعلیمی اداروں میں رقص وسرود ،بے حیائی اور بدتہذیبی کے ایسے مظاہر سامنے آتے ہیں کہ انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے ایسے میں جمعیت علماء اسلام نے اتنے عظیم الشان اجتماع کے انعقاد کا بیڑہ اٹھایاتو ظاہر ہے کہ اس کے پیش نظر محض ایک جلسہ کرلینا نہیں بلکہ اس خطے میں آباداس خاموش اکثریت کوجو اسلام پسند اور محب وطن ہے ،جسے اپنی تہذیب اور کلچر پر فخر ہے ،جس کے لیے اپنی اقدار وروایا ت ہی سب سے قیمتی متاع ہے یہ اجتماع اس خاموش اکثریت کو زبان دینے کی ایک مثالی کوشش ہے جس پر جمعیت علماء اسلام کے قائدین سے لے کر کارکنان تک سب کو بھرپور خراج تحسین پیش کیاجانا چاہیے ۔

یہ اجتما ع ایک ایسے خطے میں ہورہا ہے جو مدتوں سے عالمی استعماری قوتوں کے لیے میدان جنگ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اس خطے کو دنیا پر قیادت کے خواب دیکھنے والے ہمیشہ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے رہے ہیں اور یہاں قدم جمانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا نے کے بعد جب ان سب کو منہ کی کھانا پڑی ،بدترین شکست وہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں اندازہ ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظام ہو یا سوشلز م یا کوئی اور فلسفہ وازم اسلام کے آفاقی نظریے کا مقابلہ تو دور کی بات سامنا تک نہیں کر سکتا چنانچہ ان قوتوں نے یہاں اسلام ،جہاد ،خلافت اور اسلامی فکر وفلسفہ کی بنیادوں کے بارے میں ابہام پیدا کرنا شروع کیا ،یہاں کے باسیوں کو مختلف گھمن گھیریوں میں الجھانے کی کوشش کی اور بتدریج ایسا ماحول بنایا گیا کہ لوگ اسلام سے دور ہو جائیں ،اسلامی سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھنے لگیں اور پاپائیت اور رہبانیت کی راہوں پر چل نکلیں ،جہاد کو فساد کاسبب قرار دیں اور اسلام دشمنوں کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے ،ڈاڑھی پگڑی اور مسجد ومدرسہ کو اس حد تک مطعون کیا جائے کہ لوگ ان کے نام سے بدکنے لگیں ،بتدریج مسلمانوں کے تابناک ماضی کی ساری اجلی یادیں پس منظر میں چلی جائیں ایسے میں جمعیت علماء اسلام نے اس اجتماع کے انعقاد کا فیصلہ کرکے صرف ایک جلسے اور اجتماع کے انعقاد کی طرف پیش قدمی نہیں کی بلکہ ان تمام قوتوں کے اعلان مبارزت کو قبول کیا ہے جو دنیا بھر میں اسلام کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ملا کو ہندو افغان کے کو ہ ودمن سے نکال باہرکرنے کے جتن کر رہے ہیں ۔توقع کی جانی چاہیے کہ یہ اجتماع اسلام کے روشن چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے ،اسلام کے اعتدال پر مبنی پیغام کو پورے عالم تک پہنچانے کا باعث بنے گا ۔

مفکر اسلام مولانا زاہد الراشد ی سے کسی نے کہا کہ’’ آج پوری دنیا دیوبندیت کے پیچھے لگی ہوئی ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟‘‘انہوں نے برجستہ فرمایا ’’تو دیوبندیت کس کے پیچھے لگی ہوئی ہے؟‘‘ چونکہ دارالعلوم دیوبند نے دنیا میں آنے والے انقلابات ،اسلام کے دفاع اور ترویج واشاعت کے معاملے میں اس قدر دوررس اثرات مرتب کیے کہ اب دیوبندیت کو محض ایک فرقہ یا مکتب فکر قرار دینا سراسر ناانصافی ہے بلکہ اگر انصاف سے کام لیا جائے تو دیوبندیت مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی ایک ایسی عالمگیر تحریک کے طور پر سامنے آئی ہے جسے اسلام دشمن اپنا سب سے بڑا فکری ،نظریاتی اور علمی وعملی حریف قرار دے کر دیوبندیت کونشانے پر رکھے ہوئے ہیں اور علماء دیوبند کے شاندار ماضی کے بارے میں شکوک وشبہات اور غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں ایسے میں جمعیت علماء اسلام نے دارالعلوم دیوبند کی سیاسی جدوجہد کی امین جمعیت علماء ہندکی قیادت اور دارالعلوم دیوبند کے علمی اور تدریسی تسلسل کو برقرار رکھنے والے اہل علم کو مدعو کیا اور پاکستان میں دارالعلوم دیوبند کی سیاسی جدوجہدکی علمبردار جمعیت علماء اسلام اور علمی خدمات کی وارث تحریک وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے جس ہم آہنگی اور اشتراک عمل کا مظاہرہ کیا اس سے دنیا کو بھرپور طریقے سے یہ پیغام جائے گا کہ برصغیر میں اسلام کی بقاء کے لیے سرگرم عمل سیاسی اور علمی تحریکیں آج بھی نہ صرف یہ کہ فعال ومتحرک ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر مضبوط روابط اور گہرے تعلقات کی حامل ہیں کہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہورہی ہیں ۔

عالمی اجتماع کے تناظر میں یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اب کچھ عرصے سے منظر نامہ بڑی تیز ی سے بدل رہا ہے اور پہلے کی طرح محض گروہی ،جماعتی اورمسلکی بنیادوں پر نہیں بلکہ اب ایک واضح لکیر کھینچی جارہی ہے جو اسلام پسندوں اور ملحدین کے مابین ہے اس لیے اسلام کا نام لینے والے کسی بھی پر چم کے ساتے تلے خدمات سرانجام دے رہے ہوں ، کسی بھی مورچے پر ڈٹے ہوئے ہوں ،کسی بھی فکر وفلسفہ پر یقین رکھتے ہوں ،کسی بھی مسلک سے وابستگی کا دم بھرتے ہوں انہیں اس اجتماع کو عصبیت کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے،اپنی سوچ کے محدود دائروں میں قید نہیں کرنا چاہیے اور بے بنیاد الزام تراشی ،افواہ سازی سے گریز کرنا چاہیے بلکہ اسے اسلام پسندوں کی قوت وشوکت قرار دیتے ہوئے اس کے پیغام اور اثرات کو زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز بنانے کی سعی کرنی چاہیے اور اس با ت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یہ اجتماع ہر مسجدومدرسہ کی پاسبانی کا ذریعہ بنے گا خواہ اس کا تعلق کسی بھی بھی وفاق یا تنظیم سے ہو ،یہ اجتماع ہر ٹوپی پگڑی کی عزت وتوقیر کو بلند کرنے کی کوشش ہے خواہ اس کارنگ اور ڈیزائن کوئی بھی کیوں نہ ہو ۔۔۔اسلام سے محبت کا دعوی ٰ کرنے والوں کو اگر اس اتنے عظیم الشان اجتماع کے انعقاد پر خوشی نہیں ہو رہی ،اس اجتما ع کی کامیابی کے لیے فکر منداور دعا گو نہیں اوراس کے اثرات کو پوری دنیا تک پہنچانے کے حوالے سے پرعزم نہیں تو پھر انہیں اپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے۔

اللہ رب العزت مولانا فضل الرحمن اور ان کے جملہ رفقاء کو اجر جزیل عطا فرمائیں جنہوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے اتنے بڑے اجتماع کے انعقاد کا بیڑہ اٹھایا محض بیڑ ہ نہیں اٹھا یا رسک لیا ہے بہت بڑا رسک بلکہ اسلام دشمنوں کی دعوت مبارزت کو قبول کیاہے آج دنیا بھر کی نظریں اس اجتما ع پرلگی ہیں اور دنیا بھر سے قافلے اجتماع گاہ میں پہنچ چکے ہیں ۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ اجتماع امت مسلم کے زوال وانحطاط کے اس دور میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی انگڑائی ثابت ہو گا ۔ان شاء اللہ

اللہ رب العزت اسے مفیداورنتیجہ خیز بنا دیں ۔آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے