عبداللہ گل کی عظیم والدہ مرحومہ

عبداللہ حمید گل انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ان کے والد محترم جنرل حمید گل نے اس دنیا کو چھوڑا ‘تو عبداللہ گل کے بازوؤں میں چھوڑا اور اپنے اللہ کے پاس چلے گئے اور اب‘ ان کی والدہ محترمہ نے دنیا کو الوداع کہا‘ تو بیٹے عبداللہ گل کے بازوؤں میں الوداع کہا اور اگلے جہان میں چلی گئیں۔ اللہ کریم نے قرآن میں ہر بیٹے کو یہ نصیحت ہے کہ ”اپنے ماں باپ کے لئے اپنا نرم بازو بچھائے رکھ‘‘ ۔

جنرل حمید گل کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے عطا فرمائے۔ ایک مجلس کہ جس میں احباب کے ہمراہ میں بھی موجودتھا اور دونوں بیٹے عمر اور عبداللہ بھی موجود تھے‘ تو فرمانے لگے؛ میں نے بڑے بیٹے کا نام عمر اس لئے رکھا کہ حضرت عمرؓ میرے آئیڈیل ہیں اور چھوٹے بیٹے کا نام عبداللہ اس لئے رکھا کہ اللہ تعالیٰ کو حضورؐ کے فرمان کے مطابق ؛دو نام عبداللہ اور عبدالرحمن بہت پسند ہیں۔ جناب عمر گل تو آسٹریلیا میں جا بسے‘ جبکہ عبداللہ گل کو جنرل صاحب نے اپنے عملی ورثہ کا امین اور جانشین بنایا۔ جنرل صاحب نے اسلام اور پاکستان کیلئے ‘جس قدر جدوجہد کی‘ عبداللہ گل ان کے ہمراہ اور شانہ بشانہ رہے اور آج بھی وہ پرچم اٹھائے ہر محاذ پر کھڑے نظر آتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ سعادت انہیں اس لئے ملی ہے کہ انہوں نے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے لیے نرم بازو بچھائے رکھا۔ عبداللہ گل مجھے بتلا رہے تھے کہ جب ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو وہ اپنی والدہ محترمہ کو اپنے بازوؤں میں لئے ہوئے تھے۔ اپنے سینے سے لگائے ہوئے کہ فجر کے وقت مؤذن نے اللہ اکبر کہا اور پھر جب اللہ اپنی زبان سے نکالا تو میری والدہ محترمہ اس دنیا کو چھوڑ چکی تھیں ‘یعنی اللہ اور اللہ کے درمیان ”اکبر‘‘ کے لفظ پر ان کی روح اپنے بدن کو چھوڑ چکی تھی۔ بہت بڑی سعادت کی بات ہے کہ کیسے سہانے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بندی کو اپنے پاس بلایا۔ انا للہ و انا الیہ راجعوان۔

مرحومہ کی سعادت مندی اور خوش قسمتی پر غور کر ہی رہا تھا‘ اسباب کی کھوج میں لگا ہوا ہی تھا کہ عبداللہ حمید گل بولے؛ راولپنڈی کا ہسپتال جو محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کے نام منسوب ہو چکا۔ عبداللہ گل کی والدہ محترمہ نے وہاں بچوں کیلئے ایک وارڈ تعمیر کروایا ‘جس کی تزئین و آرائش کا کام جاری ہے۔ جی ہاں! یہ ایک صدقہ جاریہ ہے کہ جہاں جو بچہ بھی صحت یاب ہوگا‘بچے کی ماں کے سینے کو ٹھنڈک پہنچے گی ‘تو عبداللہ گل کی والدہ کا درجہ اِن شاء اللہ بلند ہوگا۔ مرحومہ کی لمبی بیماری بھی درجات کی بلندی کا باعث ہے۔ عبداللہ گل پھر بولے؛ جب وہ وردی میں تھے‘ افغان اور مظلوم کشمیری ان کے پاس آتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ صرف مسلمان مظلوم ہی نہیں‘ غیر مسلم مظلوم بھی ان کے گھر آتے‘ ان کی ضیافتیں ہوتیں‘ ان ضیافتوں میں ملازموں کے ساتھ ساتھ عبداللہ گل کی والدہ بھی کام کرتیں۔ کھانوں کی تیاری میں پورا پورا حصہ لیتیں۔

قارئین کرام! دفاع پاکستان کونسل کا مارچ جب لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوا ‘تو جنرل صاحب اور عبداللہ گل کے ہمراہ ایک ہی گاڑی میں‘میں نے بھی سفر کیا۔ گجرات میں ایک ہی گھر میں اکٹھے رات گزاری۔ اس سفر میں‘ میں نے جنرل صاحب سے افغان جہاد کے دوران کوئی خاص گھریلو واقعہ پوچھا تو انہوں نے بتلایا؛ جب ہمارے گھر میں رات کو کوئی خصوصی میٹنگ ہوتی تو میری اہلیہ محترمہ تیتروں کی ڈش اپنے ہاتھ سے تیار کرتیں‘ جنرل ضیا الحق مرحوم کی خصوصی فرمائش ہوتی تھی کہ باقی کھانا ملازموں کے ہاتھوں‘ مگر تیتر کا سالن ہماری بہن کے ہاتھوں کا۔ جی ہاں! اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے ” السلام علیکم پھیلاؤ‘کھانے کھلاؤ‘ لوگ سو رہے ہوں ‘تو نمازیں ادا کرو‘ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ‘‘ (بخاری)۔

عبداللہ گل پھر بولے؛ انہیں گزشتہ 33سال سے گردن میں کینسر تھا‘ عمر 78سال تھی‘ یعنی 45سال کی عمر میں کینسر ہوا۔ اس دوران ان کے 17آپریشن ہوئے‘ جن میں ایک دل کا بائی پاس بھی شامل ہے۔ ایسی لمبی اور انتہائی تکلیف دہ بیماری ایک مومنہ کیلئے کس قدر مبارک ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتے ہیں ؛میں نے اپنی بندے کو (بیماری) کی قید میں ڈالا‘ تو اس کی روح کو قبض کیا تو بخش دوں گا‘‘ (سلسلہ صحیحہ:1611)۔

مزید فرمایا ”دنیاوی (بیماری) کی کڑواہٹ اگلی زندگی کی مٹھاس ہے‘‘ (صحیحہ:1817)۔ یہ بھی فرمایا ”مؤمن بندہ اور بندی دنیا کی تکالیف اور مصائب جھیل کر اگلی دنیا میں جاتے ہیں تو اللہ کی رحمت میں آرام فرماتے ہیں‘‘ (مؤطا امام مالک:241.1)۔

جب جنرل حمید گل فوت ہوئے‘ تو میں نے ان کے ساتھ اپنی یادوں پر مبنی کالم لکھا۔ جنرل صاحب کے ساتھ میرا تعلق 30برسوں پر مبنی ہے‘ جب وہ ملتان کے کور کمانڈر تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بہت ہی گہرا ہوتا چلا گیا‘ اسی تعلق کی وجہ سے میری زوجہ بشریٰ امیر بھی ان کے گھر گئیں اور جنرل صاحب کی خوشگوار گھریلو زندگی پر کالم لکھا۔ وہ مجھے بتلا رہی تھیں کہ جنرل صاحب کی وفات پر ان کی اہلیہ محترمہ سے گفتگو ہوئی تو دورانِ گفتگو کہنے لگیں؛ جب جنرل صاحب سے (موت کے بعد) ملاقات ہوگی تو کہوں گی؟ میری دل لگی اور حوصلگی کی خاطر مجھے ساتھ ساتھ لئے پھرتے تھے اور جب اللہ کے پاس جانے لگے تو مجھے اکیلا چھوڑ گئے۔ اب محترمہ مرحومہ اپنے شوہر سے ملی ہوں گی‘ تو محبت آمیز شکوہ ضرور کیا ہوگا۔ حضورؐ کے فرمان کے مطابق‘ موت کے بعد فوت شدہ عزیزوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ جب جنرل حمید گل فوت ہوئے تھے تو انہیں ریس کورس گراؤنڈ آرمی قبرستان ویسٹریج راولپنڈی میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔

یاد رہے! مذکورہ قبرستان پاک فوج کے شہداء کا قبرستان ہے۔ جنرل حمید گل ہزاروں شہیدوں کے روحانی باپ تھے‘ اس لئے انہیں مذکورہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ عبداللہ گل مجھے بتا رہے تھے کہ شہیدوں کے اس قبرستان میں ان کی والدہ پہلی خاتون ہیں‘ جنہیں اپنے شوہر کے قدموں میں ہزاروں شہیدوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔ یقینا محترمہ مرحومہ کیلئے یہ ایک بڑا اعزاز ہے۔ پاک فوج کی قیادت کا یہ فیصلہ لائق تحسین ہے کہ نمازیوں‘ مجاہدوں اور دلاوروں کی بہن اور ماں کو مذکورہ اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ میری دلی دعا ہے کہ مولا کریم مرحومہ محترمہ شہناز گل کو اپنے خاوند اور دیگر شہداء کے ہمراہ جنت فردوس عطا فرمائے۔ (آمین)

قارئین کرام! اللہ کے پیارے رسولؐ کا فرمان ہے ”جو لوگ موت کو زیادہ یاد کرتے ہیں اور موت کے بعد آنے والے مراحل کے لئے زیادہ اچھی تیاری کرتے ہیں ‘وہی عقلمند ہیں‘‘ (ابن ماجہ: 4259۔حسن)۔

جی ہاں! جس جسم کی راحت اور سکون کے لیے انسان دن رات ایک کیے ہوئے ہے اور آخرت میں اپنی روح کے سکون کو بھولا ہوا ہے‘ اس کے لئے اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے‘ ارشاد فرمایا ”(لوگو!) کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب بندہ فوت ہوتا ہے ‘تو اس کی نظر پچھلی جانب کو مڑ جاتی ہے۔ صحابہ نے کہا؛ جی! اسی طرح ہی ہوتا ہے۔ فرمایا؛ یہ اس وقت ہوتا ہے‘ جب مرنے والے کی آنکھ روح کا پیچھا کرتی ہے‘‘ (مسلم:2132) ۔گویا جسم یہ کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ کر جا رہی ہے۔ اب میں مٹی میں مٹی ہو جاؤں گا۔ ہاں‘ اے انسان! اُس اصل انسان ‘یعنی روح کی راحت اور پاکیزگی کی فکر کر۔ جنرل حمید گل اور ان کی اہلیہ محترمہ شہناز گل اپنے اللہ کے پاس ہیں۔ اِدھرعبداللہ گل کے ساتھ ساتھ ان کی باجی محترمہ عظمیٰ گل بھی اہل کشمیر کے درد میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنے والد اور والدہ کے مشن پر چلنے اور کامرانیاں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔

قارئین کرام! دو ہفتے قبل میں نے دائیں آنکھ کا آپریشن کروایا۔ پٹی کھلی تو اللہ کے مبارک نام اور قرآن کو دیکھا۔ آپریشن کے بعد پہلا کالم عبداللہ گل‘ عمر گل اور عظمیٰ گل کی والدہ پر لکھا ہے۔ صحت کے لئے درخواست ہے کہ آنکھیں اور ہاتھ یونہی کتاب و سنّت کی روشنی میں لکھتے رہیں۔ (آمین)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے