عدالتی خبریں اور سوشل میڈیا: ڈومینک کیشانی

ٹوئٹر کی آمد نے عدالتی رپورٹنگ کی روایت کو تبدیل کر دیا ہے کیونکہ اب صحافی عدالتی کارروائی کو پلک جھپکتے اپنے سامعین تک پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن عدالتی رپورٹنگ میں خبر کا درست ہونا نہایت ضروری ہے۔ دیکھتے ہیں کہ بی بی سی کے نامہ نگار ڈومینک کیشانی عدالتی رپورٹنگ میں سوشل میڈیا کے کردار کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

ٹوئٹر کی آمد نے عدالتی رپورٹنگ کی روایت کو تبدیل کر دیا ہے کیونکہ اب صحافی عدالتی کارروائی کو پلک جھپکتے اپنے سامعین تک پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن عدالتی رپورٹنگ میں خبر کا درست ہونا نہایت ضروری ہے۔ دیکھتے ہیں کہ بی بی سی کے نامہ نگار ڈومینک کیشانی عدالتی رپورٹنگ میں سوشل میڈیا کے کردار کے بارے میں کیا کہتے ہیں

ذیل میں صحافیوں کے لیے کچھ عمومی مشورے دیے گئے ہیں۔ یہ قانون کی کوئی جامع شکل نہیں، اس لیے ان مشوروں سے کسی خبر کے قانونی پہلوؤں کے بارے میں کسی قسم کی رائے قائم کرنا غلط ہو گا۔ بی بی سی سے منسلک صحافیوں کو چاہیے کہ عدالتی رپورٹنگ کرتے ہوئے وہ ہمیشہ بی بی سی کی قانونی ماہرین سے مشورہ کریں۔

ہر صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدالت سے رپورٹنگ کرتے ہوئے کچھ بنیادی باتوں کا ضرور خیال رکھے، مثلاً عدالت میں خاموشی سے بیٹھیں اور آپ جو بھی سنیں اسے حرف بحرف لکھیں اور جب باہر جانا ہو تو مناسب لمحے پر خاموشی سے باہر آ جائیں اور پھر اپنی خبر بھیجیں۔

اگر دیکھا جائے تو عدالتی کارروائی کی خبروں میں سترہویں صدی سے اب تک ایک ہی تبدیلی آئی ہے اور وہ عدالت کے باہر سے براہ راست ٹی وی یا ریڈیو پر خبر پڑھنا ہے۔اگر آپ میری بات کا مطلب زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہئیے کہ آپ برطانوی عدالت اولڈ بیلی کی ویب سائیٹ پر جائیےاور وہاں پر جادو ٹونہ کے مقدمے کی کارروائی پڑھیئے۔

[pullquote]انصاف اور عوام[/pullquote]

سنہ 2010 میں انگیلینڈ اور ویلز کے لارڈ چیف جسٹس نے تجرباتی بنیاد پر ایک پروگرام کی منظوری دی جس کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ آیا ٹوئٹر کا استعمال عوام میں نظامِ انصاف کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے میں مددگار ہو سکتا یا نہیں۔

کئی صحافیوں نے اس پائلٹ پراجیکٹ میں حصہ لیا اور انھوں نے دیکھا کہ ٹیکسٹ میسیج کی کسی بھی شکل میں کیسے خبریں بھجوا سکتے ہیں۔ انھوں نے عدالت سے نکلے بغیر اپنے نیوز ڈیسک کو تازہ ترین خبریں بھیجنے کا تجربہ کیا۔ اس میں عدالت کا بھی فائدہ دیکھنے میں آیا کیونکہ اب صحافی عدالتی کارروائی کے دوران بار بار اندر باہر بھی نہیں جا رہے تھے اور عدالتی کام میں خلل بھی نہیں پڑ رہا تھا۔

لیکن ٹوئٹر کے ذریعے عدالتی خبریں بھیجنے کی طاقت کا احساس اس وقت ہوا جب سات جولائی سنہ 2005 کے لندن دھماکوں کی عدالتی کارروائی کی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں۔

اس سلسلے میں گیارہ مئی 2011 کے روز لیڈی جسٹس نے بہت سے فیصلے سنائے۔ میں نے ان کی کہی ہوئی ہر سطر کو ٹویٹ کے ذریعے بھجوانا شروع کر دیا۔ جوں جوں میں ٹویٹ کر رہا تھا، تو میں نے دیکھا کہ لوگوں نے مجھے ٹوئٹر پر فالو کرنا شروع کر دیا اور وہ میری اگلی ٹویٹ کا انتظار کرنے لگے۔ اس کے جواب میں میں جو بھی خبر اپنے دفتر کو بھیج رہا تھا، وہ میں نے ٹوئٹر پر بھی شئر کرنا شروع کر دیا۔

ایک لحاظ سے یہ ایسا ہی تھا جیسے میں کسی کیفے یا پب میں بیٹھا لوگوں سے بات کر رہا ہوں۔ بڑے مقدمات کی رپوٹنگ کرنے والے میرے دوسرے ساتھیوں کا تجربھ بھی ایسا ہی رہا۔

[pullquote] سٹیفن لارنس کا مقدمہ[/pullquote]

لیکن سوشل میڈیا کے ذریعہ عدالتی کارروائی کی خبریں بھیجنے کا سب سے بڑا تجربہ لندن میں ایک سیاہ فارم لڑکے کے قتل کا مقدمہ تھا، کیونکہ اس میں عام لوگوں کی دلچسپی بہت زیادہ تھی۔ اس مقدمے نے ثابت کر دیا کہ اب عدالتی خبروں میں سوشل میڈیا کا استعمال آپ کے کام کا ضروری حصہ بن چکا ہے۔

جب یہ مقدمہ شروع ہوا تو استغاثہ نے عدالت سے درخواست کی کہ سوشل میڈیا کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اس سے مقدمے کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کا خدشہ ہو سکتا تھا۔ اگلی ہی صبح جب بی بی سی کے ایک صحافی نے استغاثہ کی درخواست کو چیلنج کیا تو جج نے اس کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو چاہیے کہ وہ ٹوئٹر پر تبصرہ نہ کریں لیکن وہ عوام کو باخبر رکھنے کے لیے عدالتی کارروائی کی خبریں ٹوئٹر کے ذریعے بھیج سکتے ہیں۔

اور پھر جب سٹیفن لارنس کے قاتلوں کو سزا سنائے جانے کا دن آیا تو ٹوئٹر پر لوگوں کی دلچسپی اتنی زیادہ تھی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ جب سزائیں سنائی جا رہی تھیں تو ہم نے دیکھا کہ نئے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے ہمیں ٹوئٹر پر فالو کرنا شروع کر دیا ہے۔

ہماری ہر ٹویٹ نہ صرف ان لوگوں تک پہنچ رہی تھی بلکہ اس کی بنیاد پر ریڈیو کے سامعین اور ہماے ٹی وی اور لائیو پیج کے ناظرین میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔

[pullquote]نئے ضوابط[/pullquote]

اب لارڈ جسٹس نے عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ میں ٹوئٹر کے استعمال کی باقاعدہ اجازت دے دی ہے اور توقع ہے کہ شمالی آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ بھی جلد ہی ایسا کرنے جا رہے ہیں۔

لارڈ جسٹس کی اس ہدایت کے بعد اب کسی بھی میڈیا سے منسلک رپورٹروں کے لیے عدالت سے اجازت لینا ضروری نہیں کیونکہ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ ان کی ٹویٹ درست خبروں پر مبنی ہو گی اور وہ کسی قسم کے تبصرے سے گریز کریں گے، مثلا یہ کہ کٹہرے میں کھڑا ہوا شخص پکّا دھوکے باز دکھائی دیتا ہ

جہاں تک ججوں کا تعلق ہے تو وہ آپ کی رپورٹنگ پر صرف اسی صورت میں پابندی لگائیں گے جب انھیں محسوس ہوگا کہ آپ کی خبر انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔مثلاً ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جج کو خدشہ ہو کہ کوئی گواہ آپ کی کسی خبر سے مثاثر ہو کر اپنا بیان بدل لے۔

تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹوئٹر یا سوشل میڈیا پر خبریں شائع کرنا صحافت کے لیے اچھا ہے؟

میرا جواب یہ ہے کہ یہ اچھی چیز ہے، لیکن ہمیں کچھ حوالوں سے خبردار رہنا چاہیے۔

[pullquote]آپ کے سامعین و ناظرین[/pullquote]

ٹوئٹر صحافیوں کو یہ سہولت دیتا ہے کہ وہ روائتی طریقوں کی نسبت ٹوئٹر کے ذریعے خبریں زیادہ تیزی سے شیئر کر سکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کسی بھی جدید ذرائع ابلاغ کے لیے ٹوئٹر کا کوئی توڑ نہیں۔ لیکن ابھی تک بی بی سی کے دوسرے ذرائع کے مقابلے میں ٹوئٹر پر ہمارے سامعین و ناظرین کی تعداد کم ہے۔ٹوئٹر کا استعمال کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنے دیگر طریقوں کو بالکل بھول جائیں۔ اسی لیے کئی میڈیا آرگنائزیشن نے یہ اصول اپنایا ہے کہ ’اپنی خبر پہلے شیئر کریں، اس کے بعد ٹویٹ کریں۔‘

[pullquote] کام کا بوجھ[/pullquote]

جہاں تک عدالتی رپورٹنگ اور اس کے ساتھ ساتھ ٹویٹ کرنے کا تعلق ہے، صحافیوں پر کام کے اضافی بوجھ کے حوالے سے کئی ایسے سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ مثلاً جب میں سٹیفن لارنس والے مقدمے کی رپورٹنگ کر رہا تھا تو میری کوشش تھی کہ ہر اہم خبر جلد سے جلد ٹوئٹر پر بھیجوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ شارٹ ہینڈ میں عدالتی کارروائی کے نوٹس لینا بھی ضروری تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ بعد میں اپنی خبر میں کسی چیز کی دوبارہ تصدیق کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کی ٹویٹ کا معیار قابل بھروسہ ہو۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ نے باالکل درست خبر ٹویٹ کے ذریعے بھیج دی تھی تو بعد میں اس ٹویٹ کی مزید وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس سے آپ کی خبر کے معنی تبدیل نہیں ہوں گے۔

قصہ مختصر، کبھی بھی جلدی میں ایسی ٹویٹ نہ کریں جس پر بعد میں آپ کو پچھتاوا ہو، کیونکہ جب آپ ٹیوٹ کر دیتے ہیں تو اس کے بعد اس پر آپ کا کوئی اختیار نہیں رہتا اور وہ ٹویٹ خود ایک زندہ چیز بن جاتی ہے۔ آپ یقیناً کوئی ایسی غلط ٹویٹ نہیں کرنا چاہیں گے جسے آپ کو بعد میں ہٹانا پڑے۔

[pullquote]آپ کے فالوورز[/pullquote]

کیا عدالتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو ان لوگوں کو جواب دینا چاہیے جو انھیں سوشل میڈیا پر فالو کرتے ہیں؟

سٹیفن لارنس کیس میں مجھے کچھ لوگوں کی طرف سے ایسی ٹویٹس بھی موصول ہوئیں جو محض مجھ سے بحت کرنا چاہتے تھے۔دیگر لوگ ایسے تھے جو قانونی عمل کے بارے میں معقول سوال پوچھ رہے تھے، لیکن عموماً میرے پاس ان سوالوں کے جواب کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا۔

اس حوالے سے یاد رکھنے کی چیز یہ ہے کہ جس طرح آپ ریڈیو یا ٹی وی پر کسی مقدمے کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کہتے، ٹوئٹر پر بھی آپ کو اسی اصول کا خیال رکھنا چاہیے۔

اگر آپ بی بی سی میں کام کرتے ہیں تو ہم عدالتی رپورٹنگ کے حوالے سے فیس ٹو فیس کورسز بھی کراتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے