عدالت اور اسمبلی آمنے سامنے؟ خودمختار کون

فہیم اختر گلگت بلتستان اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں متفقہ منظور ہونے والا پراسکیوشن ایکٹ متنازعہ بن گیا ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی سے منظور ہونے اور دوران اجلاس عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی وجہ سے وکلاء نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ایک طویل احتجاج کیا ہے۔ اس دوران ہونے والی سماعت میں ممبران اسمبلی کے علاوہ چیف سیکریٹری و دیگر زمہ داران کو بھی گلگت بلتستان چیف کورٹ نے طلب کرلیا ہے اور ان سے جواب مانگا ہے۔

پراسکیوشن ایکٹ کی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب محکمہ قانون و پراسکیوشن میں تعینات ہونے والے لاء آفیسران کی مستقلی کا معاملہ شروع ہوا۔ ان آسامیوں پر گلگت بلتستان کی وکلاء برادری کا موقف تھا کہ یہ گریڈ 17 کی آسامیاں ہیں لہٰذا ان کو ایف پی ایس سی کے زریعے باضابطہ طریقے سے پُر کئے جائیں اور اسی موقف کو لیکر انہوں نے چیف کورٹ گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ اس دوران پراسکیوشن ایکٹ کو اسمبلی نے سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کردیا جس کے پہلے چیئرمین غالباً صوبائی وزیر غلام حسین ایڈوکیٹ تھے لیکن بعد میں ان کے بجائے رکن اسمبلی تحریک انصاف راجہ جہانزیب کو چیئرمین منتخب کرلیا گیا۔ سلیکٹ کمیٹی کی سفارشات اسمبلی میں پیش ہونے سے قبل ہی ’لیک‘ ہوگئیں جس پر چیف کورٹ گلگت بلتستان نے نوٹس لیتے ہوئے اسے توہین عدالت قرار دیا اور سلیکٹ کمیٹی کے پانچوں ممبران کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

اسمبلی میں پیش ہونے سے قبل سپیکر فدا محمد ناشاد نے صوبائی وزیر قانون اورنگزیب ایڈوکیٹ کو اپنے چیمبر میں طلب کرکے اس پر تشویش کااظہار کیا جس پر وزیر قانون نے سپیکر کو انہیں وہی بریفنگ دی جسے انہوں نے اسمبلی میں اپنے خطاب کے زریعے سامنے لایا۔ وزیر قانون نے اپنی رائے دیتے ہوئے سپیکر کو بتایا کہ اسمبلی کو قانون سازی میں مکمل اختیار حاصل ہے اور عدالت کی جانب سے توہین کا نوٹس بھجوانا قانون سازی سے روکنے کی ایک سازش ہے جو کہ خودمختاری پر حملہ ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے توسیع کے معاملے میں بھی عدالت نے معاملہ اسمبلی کو منتقل کیا تھا کیونکہ قانون سازی کرنا صرف اور صرف عدالت کا کام ہے۔اس سلیکٹ کمیٹی کی سفارشات میں وزیر قانون نے اختلافی نوٹ بھی لکھ دیا تھا۔

اسمبلی اجلاس میں سلیکٹ کمیٹی کی سفارشات پیش ہوئیں تو سپیکر نے اس کو بحث کے لئے سامنے رکھتے ہوئے وزیر قانون سے سوال کیا کہ آپ نے اس پر اپنا نوٹ کیوں لکھا ہے۔ وزیر قانون نے اپنے جواب میں جو بات شروع کردی وہاں سے اسمبلی کا ماحول ہی تبدیل ہوگیا، تین ممبران اسمبلی نے اعلانیہ طور پر کہا کہ اس ضد اور مجبوری کی وجہ سے اس بل کی حمایت کررہے ہیں ورنہ ہم اس کی مخالفت کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ وزیر قانون نے کہا کہ اگر عدالت ہمیں قانون سازی کے معاملے میں ڈکٹیشن دیتی ہے تو میں اسمبلی میں رہنا اپنی بے توقیری سمجھتا ہوں۔ دنیا میں کہیں پر بھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ عدالت نے اسمبلی کو ہدایات دئے ہوں یا قانون سازی سے روکنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر قانون کے اس ماہرانہ اور قانونی رائے کے بعد اسمبلی کا ماحول گرماگرم ہوگیا، تقریباً سبھی ممبران اسمبلی نے عدالت کے خلاف سخت ریمارکس دئے، البتہ پیپلزپارٹی کے رکن جاوید حسین نے عدالت پر کسی بھی قسم کی رائے دینے کی بجائے کہا کہ یہ بھی ہمارے ہی بھائی ہیں، اگر سپریم اپیلیٹ کورٹ سے ایسا نوٹس آتا تو کسی نے نہیں بولنا تھا۔

اسمبلی اجلاس کے اختتام کے ساتھ ہی وکلاء برادری نے اپنا احتجاج شروع کردیا۔ احتجاج کے پہلے مرحلے میں انہوں نے صوبائی وزیر قانون اورنگزیب ایڈوکیٹ کی بار کونسل کی رکنیت معطل کردی اور لائسنس بھی منسوخ کرنے کی سفارش کردی۔اسی دوران احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے۔

وکلاء کا موقف ہے کہ پہلے سے ہی عدالت میں زیر بحث کیس پر سلیکٹ کمیٹی ہی کیوں بنائی گئی؟سلیکٹ کمیٹی نے اپنی سفارشات اسمبلی میں پیش کیوں کردی؟ اور جو ریمارکس گزارے ہیں وہ بھی عدالتی آٹانومی پر حملہ ہے۔ توہین عدالت کے نوٹسز پر ممبران اسمبلی چیف کورٹ گلگت بلتستان میں پیش ہوئے لیکن جواب ابھی تک نہیں بن سکا ہے جس پر عدالت نے اب چیف سیکریٹری و دیگر کو بھی طلب کردیا ہے۔ اسی اثناء میں چیف الیکشن کمشنر راجہ شہباز خان کے دفتر میں وکلاء اور ممبران اسمبلی کے مابین مذاکرات ہوگئے جہاں پر اطلاعات کے مطابق حکومت نے یہ تجویز دی کہ جن 11 آسامیوں کی مستقلی ہوئی ہے اسے چھوڑا جائے باقی وکلاء کے لئے ہم آسامیاں تخلیق کریں گے لیکن مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔

یہ انتہائی تشویشناک امر ہے کہ مخصوص لوگوں کی مستقلی کے لئے قانون سازی کی جارہی ہے۔ ممبران اسمبلی کا بنیادی کردار تو قانون سازی میں ہی ہے، مگر اسمبلی میں ہمیشہ بحث ترقیاتی منصوبوں اور فنڈز پر ہوتی ہی رہتی ہے اور جب قانون سازی بھی کی گئی تو مخصوص لوگوں کو نوازنے کے لئے۔ گلگت بلتستان میں متعدد سرکاری محکموں میں ملازمین سروس سٹریکچر کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، کنٹریکٹ ملازمین اور عارضی بنیادوں پر کام کرنے والے ملازمین کے مسائل بھرے پڑے ہوئے ہیں لیکن ان سب کو چھوڑ کر محض چند افراد مبینہ طور پر ’اپنے رشتہ داروں‘ کو نوازنے کے لئے قانون سازی کرنا تو اسمبلی کے اپنے وقار پر طمانچہ ہے۔

اسمبلی اور عدالت کی اس بحث کا کیس کس رخ جاتا ہے وہ عدالت کی کاروائی کے مکمل ہونے کے بعد سامنے آئیگا لیکن دونوں اطراف سے آگ خوب لگائی گئی ہے جسے بجھانا اتنا آسان نہیں۔ جہاں سب سے زمہ دار فورم اسمبلی نے اپنے الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا ہے وہی پر وکلاء نے بھی روایتی غیر زمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈھکوسلا جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اس وقت اسمبلی اپنے بحث کی بنیاد بھی اسمبلی کے سامنے ہے، لیکن حیران کن طور پر انہوں نے مذاکرات کی ایک کوشش کرلی جو ناکام ہوگئی، اگر اسمبلی حق پر تھی اور لاء آفیسران کے قابلیت کے حق میں دلائل جھوٹے نہیں تھے تو پھر چیف الیکشن کمشنر کے دفتر کی ملاقات اور مذاکرات ایک سوالیہ نشان ہے۔

دلچسپ امر یہی ہے کہ ملک بھر کے روایات سے دونوں ادارے ہٹے ہوئے ہیں، ہماری اسمبلی قانون ساز اسمبلی ہے جبکہ ہائیکورٹ چیف کورٹ ہے۔ دیگر صوبوں میں صرف اسمبلی ہی ہے۔ ملکی روایت سے کمزور نہج والے دونوں اداروں میں خود مختاری کی بحث دلچسپ مرحلے کی طرف جارہی ہے، عدالت کی آئندہ سماعت اہمیت کی حامل ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے