عدم برداشت کا رجحان اور اسلام

معاشرے کی مختلف اقسام ضرور ہوتی ہیں جیسے مذہبی معاشرہ، کمیونسٹ معاشرہ وغیرہ، مگر ان میں بھی ہر طرح کے افراد پائے جاتے ہیں، کسی غالب اکثریت کی وجہ سے ایسے معاشرے کو ایک خاص قسم سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔ جیسے روس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کمیونسٹ معاشرہ ہے اسی طرح ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مذہبی معاشرہ ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ان معاشروں میں دوسرے مکتبہ فکر کے لوگ موجود نہیں ہیں ، وہاں ہر نسل، ہر سوچ اور مذہب کے افراد موجود ہیں مگر غالب اکثریت چونکہ اقتدار میں بھی ہے اس لئے انھی کا رنگ زیادہ نظر آتا ہے ۔میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا اور انصاف کرنا یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ جن معاشروں میں ان خوبیوں کی کمی ہو تی ہے وہاں بے چینی ، شدت پسندی ، جارحانہ پن ، غصہ، تشدد، لاقانونیت اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں، معاشرے کا ہر فرد نفسا نفسی میں مبتلا نظر آتا ہے، یہ نفسانفسی معاشرے کی اجتماعی روح کے خلاف ہے اور اسے گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے رجحان میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے افراد کی اکثریت کی قوت برداشت ختم ہو چکی ہے اور رواداری جیسی اعلیٰ صفت معاشرے سے عنقا ہو چکی ہے ۔ ہر فرد دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے، بے صبری ، بے چینی اور غصہ ہر کسی کے ماتھے پر دھرا دکھائی دیتا ہے۔ مذہب انسان کو اخلاق کا درس دیتا ہے، اس کے اندر ایسے اعلٰی اوصاف پیدا کرتا ہے کہ وہ بہترین انسان بنے اور معاشرے کے لئے مفید ثابت ہو ، مگر ہمارے معاشرے میں مذ ہب کو ہی سب سے زیادہ جارحیت کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ، مختلف مکتبہ فکر کے اختلافات کو اس حد تک بڑھا دیا گیا ہے کہ مختلف فرقے کے افراد ایک دوسرے کے خون کے پیا سے ہیں ۔ اب تک ہزاروں افراد فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ کچھ مذہبی گروہ مذہب کو بالکل ہی مختلف انداز میں استعمال کر رہے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ان کا پسندیدہ مذہب نافذ کیا جائے اور اس کے لئے مسلح جد وجہد کو جائز سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام تو میانہ روی اور رواداری کا درس دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو معاف کر دینے کو افضل قرار دیا گیا ہے ، اسی طرح دوسرے مذاہب چاہے وہ الہامی ہیں یا انسانوں کے بنائے ہوئے سب میں دوسروں کو برداشت کرنے کا درس دیا گیا ہے ، مگر بدقسمتی سے مذہب کی اصل روح کو سمجھنے کی بجائے اس کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کی جاتی ہے، یوں مذہب سوسائٹی کی اصلاح کی بجائے لڑائی جھگڑے اور فساد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔جو کہ انتہائی غلط روش ہے ۔ آئیے مذہب کا مطالعہ کرتے ہیں کیا واقعہ حقیقت میں فرقہ واریت اور تشدد کا منبع ہے یا نہیں ۔

قرآن حکیم نے اتفاق اور اتحاد کا درس دیا۔ ارشاد فرمایا :
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُو۔۔۔ اٰل عمران، 3 : 103
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو ‘‘۔
مذہبی منافرت کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہے :وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ.(البقره، 2 : 113)’’اور یہود کہتے ہیں کہ نصرانیوں کی بنیاد کسی شے (یعنی صحیح عقیدے) پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودیوں کی بنیاد کسی شے پر نہیں، حالاں کہ وہ (سب اللہ کی نازل کردہ) کتاب پڑھتے ہیں، اسی طرح وہ (مشرک) لوگ جن کے پاس (سرے سے کوئی آسمانی) علم ہی نہیں وہ بھی انہی جیسی بات کرتے ہیں‘‘۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اتفاق اور برداشت کا حکم دیا۔ صحیح مسلم میں ہے :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : تین باتوں سے خدا خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناخوش ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی رسی کو اتفاق سے پکڑو اور فرقوں میں نہ بٹو‘‘۔

شعب ابی طالب کا واقعہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برداشت اور تحمل کا عظیم واقعہ ہے۔ یہ محاصرہ تین سال تک رہا۔ بنی ہاشم درختوں کے پتے اور طلح گھاس کی پتیاں کھا کھا کر زندگی بسرکرتے تھے اور بچے بھوک سے تمام رات روتے تھے۔ محاصرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بنی ہاشم اتنے کمزور ہوئے کہ کسی کی صورت نہیں پہچانی جاتی تھی مگر سب نے کمال برداشت کا مظاہرہ کیا۔حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبرو تحمل کا سلسلہ جاری رکھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا بھی رخصت ہوئیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غم کا پہاڑ ٹوٹا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان مصیبتوں سے نہ گھبرائے اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ 10 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 13 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے لئے انتہائی ابتلاء و مصیبت کا دور تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبرو برداشت سے دین اسلام کی ترویج کا سلسلہ جاری رکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طائف تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تو ان بدبختوں نے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام ٹھکرایا بلکہ شہر کے غنڈوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے لگا دیا۔ انہوں نے اس قدر پتھر مارے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لہولہان ہوکر زمین پر گر پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم حضرت زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باغ میں لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زخم دھوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر بھی بددعا نہ دی بلکہ فرمایا : ’’اے اللہ تو ان لوگوں کو ہدایت دے۔ یہ نادان ہیں مجھ کو نہیں پہچانتے‘‘۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ مذہب کی اصل تعلیمات پر عمل کیا جائے تو وہ فرقہ واریت ، تشدد کے بجائے اتحاد رواداری اور امن کا درس دیتا ہے ۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور صبر کی تلقین کرتا ہے ۔ اگر تمام مسالک اتحاد امت کی بات کریں اور برادشت و تحمل کا مظاہرہ کریں تو مذہب ہی اس دنیا میں امن ، محبت اور برداشت کے فروغ کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے