عذیر بلوچ گرفتار مگر سہولت کار؟

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت تحویل میں لے لیا گیا ہے ۔ عزیر بلوچ پر حساس معلومات غیر ملکی خفیہ ایجنسی کو فراہم کرنے اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے تعلقات کا الزام ہے۔جسے حال ہی میں پاک فوج پھانسی کی سزا سنا چکی ۔ عزیر بلوچ کو لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار کہا جاتا ہے اور اس پر کراچی کے علاقے لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت دیگر جرائم کے درجنوں مقدمات درج ہیں۔

عزیر بلوچ 2013 میں حکومت کی جانب سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے پر بیرون ملک فرار ہوئے تھے، جبکہ عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے ریڈ وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔ پولیس کو مطلوب عزیر بلوچ کو مسقط سے بائے روڈ جعلی دستاویزات پر دبئی جاتے ہوئے انٹر پول نے 29دسمبر 2014 کو گرفتار کیا تھا۔ تاہم عزیر جان بلوچ کو پراسرار حالات میں جنوری 2016 کو کراچی کے مضافاتی علاقے سے رینجرز نے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیاتھا ۔

جس کے بعد سیکیورٹی فورسز کی مشترکہ انویسٹی گیشن کے بعد ایک جے آئی ٹی بھی تشکیل دی گئی ، جس میں کئی چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ ملک میں فوجی تنصیبات اور عہدیداران سے متعلق خفیہ معلومات ایران اور بھارتی انٹیلی جنس افسران کو فراہم کرتا تھا ، عزیر بلوچ نے اعتراف کیا کہ اس نے چئیرمین آصف زرداری اور دیگر رہنماوٴں جن میں سابق وزیرداخلہ سندھ ذوالفقار مرزا اور شرجیل انعام میمن کے حکم پر کراچی میں قتل عام کیا نہ صرف بلکہ وہ بھتہ خوری منشیات اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنماوٴں کو پہنچاتا تھا ۔ جبکہ ذوالفقار مرزا عذیر بلوچ کو کراچی کی اسٹیک ہولڈر جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف استعمال کرنے کا بیان بھی دے چکے ۔ عذیر بلوچ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس نے لسانیت کی آگ بھڑکانے کے لیے اردو اسپیکنگ نوجوانوں کو بسوں سے اتار کر بےدردی کے ساتھ قتل کیا ، بلکہ انہیں ٹارچر سیلز میں بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا ۔

اب عذیر بلوچ تو قانون کے شکنجے میں آچکا اور اپنے انجام کے قریب ہے ۔ مگر عذیر بلوچ کو گینگسٹر ، بھتہ خور ، قاتل بنانے والے اسے سہولت فراہم کرنے والے سہولتکار آج بھی قانون کی دسترس سے دور ہیں ۔ جس وقت عذیر بلوچ قتل عام ، بھتہ خوری اور غیر ملکی ایجنسیز کو ملک کی حساس معلومات فراہم کرہا تھا ، اس وقت یہ پیپلزپارٹی کی آنکھ کا تارا بنا ہوا تھا ۔ فریال تالپر ، قائم علی شاہ ، شرمیلا فاروقی اور نبیل گبول کی عذیر بلوچ کے ساتھ خوشگوار موڈ میں تصاویر بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔ لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ابھی تک پیپلزپارٹی کے کسی رہنما کو تفشیش کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا ؟ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جی ایچ کیو میں تقریر کرتے ہوئے دہشتگردوں کے سہولتکاروں کو کٹہرے میں لانے کے عزم کا بھرپور اظہار کیا تھا اور حکومتی وزراء سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سہولتکاروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے متعدد بیانات بھی دیے گئے ۔ لیکن اسکے باوجود عذیر بلوچ کے سہولتکار ابھی تک قانون کی گرفت سے کیوں باہر ہیں ؟

ہم نے اسی کراچی شہر میں دیکھا ہے کہ ایک سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے بانی کی تقاریر پر محض تالیاں بجانے پر اس جماعت کے رہنماوٴں پر مقدمات قائم ہیں ۔ سہولت کاری کے الزام پر کئی رہنما جیلوں میں اسیر ہیں ،مختلف تھانوں میں ایف آئی آر درج ہیں ۔ مگر اگر اس سے بھی گھناوٴنا جرم اگر دوسری سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کرے تو نہ تو کوئی مقدمہ قائم ہوتا ہے اور نہ قائم کرنے کی کوئی آواز بلند کرتا ہے ۔ اگر ایک سیاسی جماعت کے رہنما سہولتکاری کے مقدمات پر عقوبت خانوں میں قید ہیں تو دوسری سیاسی جماعت کے سہولت کار آزاد کیوں ہیں ؟

عذیر بلوچ پر الزام ہے کہ اس نے ملک کی حساس معلومات غیر ملکی ایجنسیز کو دیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک کرمنل گینگسٹر کو ملک کی حساس معلومات کس نے دیں ؟ ایک دہشتگرد کے پاس اتنی حساس انفارمیشن کہاں سے آگئی ؟ اگر ایسا ہے تو ناجانے اور کتنے دہشتگرد ملک کی حساس معلومات لیے گھوم رہے ہونگے ۔ لازمی ہے کہ ریاست کے کسی آفیشلز کے ذریعے عذیر تک وہ معلومات پہنچی ہونگی تو اب سوال یہ ہے کہ کیا عذیر کوحساس معلومات فراہم کرنے والے ریاستی آفیشلز کے نام بھی ڈسکلوز کیے جائینگے ؟ کیا ان ملک کے غداروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائیگا ؟ جنہوں نے ملک سے غداری کرتے ہوئے حساس معلومات ایک دہشتگرد کو فراہم کیں ؟

پاک فوج کی جانب سے عذیر بلوچ کو اپنی تحویل میں لے کر اس کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلانے کا اعلان ایک مثبت اور اہم اقدام ہے ۔ کیونکہ اگر یہ مزید پولیس کسٹڈی میں رہتا تو کمزور پراسیکیوشن اور ناقص تفشیش اور شواہد کے باعث آزاد ہوسکتا تھا ۔ جسکی مثال چند روز قبل انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ایک مقدمے سے بری کی ہے کہ جب پولیس کے شواہد پیش نہ کرنے پر عدالت نے بری کرنے کا حکم دیا ، اور کہا اگر یہی حال ہے پراسیکیوشن اور عدم ثبوت کا تو پھر عذیر بلوچ کو رہا کردیا جائے ۔ ایک سینئر صحافی کے مطابق عذیر بلوچ جیل میں نو موبائل کے استعمال کے ساتھ اپنا نیٹ ورک چلا رہا تھا جسے پیپلزپارٹی کی مکمل سپورٹ حاصل تھی ۔

پاک آرمی اگر عذیر بلوچ کو تحویل میں لے کر ٹرائل کرسکتی ہے تو اس کے سہولت کاروں کے گرد بھی گھیرا تنگ کرکے انہیں احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے ۔ ٹرائل کو صرف عذیر بلوچ تک محدود رکھا گیا تو کل کلاں کو اس کے ماسٹر مائنڈ مزید عذیر بلوچ پیدا کردیں گے ۔ ٹرائل سے یکطرفہ تاثر نہیں جانا چاہیے ، اگر ایک سیاسی جماعت پر محض تالیاں بجانے پر سہولت کاری کے مقدمات قائم ہوسکتے ہیں تو ایک ایسا دہشتگرد جس پر سینکڑوں قتل کے مقدمات اور حساس معلومات غیر ملکی ایجنسیز کو دینے کا الزام ہو ، تو اس کی سہولت کار جماعت اور اس کے رہنما ابھی تک قانون کے کٹہرے میں کیوں نہ کھڑے کیے جاسکے ؟؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو ہر پاکستانی کے اذہان میں کلبلا رہا ہے ۔ امید ہے ریاستی ادارے مجرم کے ساتھ اس کے سہولت کاروں کو بھی نشان عبرت بنا کر اس سوال کو دفن کردیں گے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے