”عزت” کے بوجھ تلے سسکتی عورت!

پہلے تو یہ طے کرلیا جائے کہ جس طریقے کو ہم حرفِ آخر مانتے ہیں کیا وہ مرد و عورت کی عزت اور حرمت میں کوئی فرق کرتا ہے؟ کہ یہی بنیاد ہمیں ہمارے رویے تبدیل کرنے کی طرف مدد دےسکتی ہے۔

مذہب اسلام عورت اور مرد کی عزت اور وقار میں کوئی فرق نہیں رکھتا۔ وہ زانی کو بھی وہی سزا دیتا ہے جو زانیہ کو ہے۔ جھوٹ چاہے عورت بولے یا مرد سزا ایک ہے۔ بلکہ اسلام اس سے ایک قدم آگے بڑھتاہے اور عورت ذات کی سزاوں میں مزید نرمی کا رویہ رکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے ایک مرتد مرد کو تو قتل کی سزا کی حمایت ملتی ہے مگر عورت کے معاملے میں یہاں بھی نرمی کا حکم رکھا گیا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں جو لونڈیاں تھیں ان میں سے ایک کو زنا کرنے پر سزا سے بچا لیا گیا۔ کیوں کہ اس کو سزا دینے سے پہلے یہ دیکھ لیا گیا تھا کہ اس کو وہ ماحول نہیں ملا وہ تربیت نہیں ملی جو ایک انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس ماحول میں اخلاقی اقدار کو شامل رکھا جاتا ہے۔ جہاں خیر اورشر کی تعلیم انسان کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ حتی کہ وہ مرضی سے جس راستے کو چُننا چاہے چُن سکتاہے۔ مگر جب ایک انسان کو ماحول ہی ایسا ملا جہاں اسکی تربیت سے وہ جوہر سامنے نہ آسکے تو ایسی صورت میں کسی بھی جرم کرنے پر سزا دینا غیرانسانی عمل کہلاتا ہے۔

اب آجائیں پاکستانی معاشرے کی طرف . . .

ہم ایسے معاشرے کے رہنےوالے ہیں جہاں مذہب کے برعکس عزت شرف، حیا پاکدامنی اور کردار کا تعلق بس عورت سے منسوب ہے۔ یعنی ہم مذہب کے اس حکم کو پاوں تلے روند رہے ہیں کہ اگر مرد برائی کرے تو اسے بھی وہی سزا دی جائے جو عورت کوہے۔ آپ اب دیکھ لیجے گا اس پر ہوسکتا ہے کوئی دینی بھائی مجھ پر غصہ بھی کرے۔ مگر یہ بات کوئی باغیرت انسان جھٹلانہیں سکتا کہ کردار کے معاملے میں ہم مرد فرشتوں کی طرح پاک ہیں۔ ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ بےحیا مرد بھی ہوسکتا ہے۔ بدکردار ایک بھائی بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ ہمارے سامنے ایک جنس نے ان ساری ذمہ داریوں کے لیے خود کو پیش کیا ہوا ہے۔ عورت ہے نا کردار کے صاف شفاف ہونے کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے۔ بد کرداری پر قتل ہونے کے لیے ایک جنس ہم نے مخصوص کرلی ہوئی ہے۔ اور خود سانڈ کی طرح جسے چاہے پکڑ لیں جسے چاہے اپنی ہوس کے سامنے زیر کرلیں۔

مجھےیاد ہے ایک بار ایک مولانا مکی صاحب تھے جن کا میں بیان سُن رہا تھا اور وہ مکہ شریف کے حرم میں کسی جگہ پر کسی عرصے سے بیان فرمایا کرتے تھے۔ کہ جب ایک شوہر گھر پر ائے اور عورت سے اپنی خواہش کااظہار کرے مگر عورت انکار کردے تو چونکہ یہ خواہش بھی ایک طرح کی بھوک ہے اور جب انسان کو بھوک لگی ہو اور اسے گھر سے کھانے کو نہ ملے تو پھر وہ باہر تو جائےگا اور اس کی ذمہ دار ظاہر ہے عورت ہوگی۔

یہ ذہنی تربیت اس طرح کا مواد جب ہم اپنے ذہنوں میں اپنے اماموں سے لے کر نکلیں گے تو لامحالہ مردوں کا معاشرہ گھر سے باہر جا کر اپنی بھوک مٹانے کو مذہبی فریضہ بھی سمجھے گا مگر ایسی ہی صورتحال کو اگر عورتوں پر فرض کیا جائے تو کسی صورت بھی ہم ماننے کو تیار نہ ہوں گے کہ اگر مرد اپنی عورت کی خواہش کا احترام نہ کرے اور عورت باہر جا کر اپنی خواہش پوری کرے تو ایسی صورت میں اس کی ذمہ داری بھی مرد پر ہوگی۔

یہ ہے وہ سوچ جس نے غیرت کے نام پر قتل کو فروغ دیا ہے۔ اسلام نے تو صاف کہہ دیا کہ غیرت اور عزت کا تعلق مرد اور عورت دونوں سے ہے مگر ہم نے اسے اٹھا کر عورت سے منسلک کردیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے