عسکریت پسندوں سے مفاہمت کیوں؟

تبھی تو ہم صحافیوں کے حکومتی اور سیاسی عہدے لینے کے مخالف ہیں اور اسی لئے توہم صحافت اور سیاست کو خلط ملط کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ اسی وجہ سے پاکستان میں صحافت بے وقعت ہوگئی کہ یہاں لوگ سیاسی جماعتوں کے عہدیدار بھی ہیں اور وہ تجزیہ کار بھی ہیں ۔ سرکاری عہدہ بھی ساتھ رکھا ہے اور تبصرہ اور تجزیہ کرتے ہوئے غیرجانبداری کا دم بھی بھرتے ہیں ۔ صحافت ایشوز کی بنیاد پر کسی کی حمایت یا مخالفت کا تقاضا کرتا ہے لیکن پاکستان میں سیاست اس بات کی متقاضی ہے کہ پارٹی لیڈر کی پالیسی جیسی بھی ہو عوام کے سامنے آپ نے اس کے حق میں بولنا ہے ۔ا سی طرح سرکار کی نوکری ڈسپلن اور تابعداری کا تقاضا کرتی ہے لیکن صحافت میرٹ پر ہر کسی کی خبر لینے کی ۔ سرکار کی نوکری رازوں کو سینے میں دباکے رکھنے کا پابند بناتی ہے جبکہ صحافت سرکار کےرازوں سے پردہ اٹھانے کا نام ہے ۔ لیکن چونکہ پاکستان ہے اور یہاں سب کچھ چلتا ہے ، اس لئے صحافت میں بھی یہی سب کچھ چل رہا ہے اور بدقسمتی سے سب سے زیادہ ہمارے ہاں چلتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم جیسوں کی صف میں کھڑے یہ لوگ اگرچہ ہم سے زیادہ ذہین، زیادہ قابل ، زیادہ نیک ، زیادہ پڑھے لکھے اور زبان و بیان پر ہم سے کئی گنا زیادہ عبور رکھنے والے ہیں لیکن بسااوقات مصلحتوں اور تعصبات کے شکار ہوجاتے ہیں۔

ان کی عقل ہم سے زیادہ ہوتی ہے تبھی تو بیک وقت کئی کشتیوں پر سواری کرسکتے ہیں لیکن اس پر بعض اوقات مفاد یا مصلحت غالب آجاتا ہے اور چونکہ ذہین ہم سے زیادہ ہیں اس لئے اس انداز میں بات کو موڑ دیتے ہیں کہ مخاطب ان کی بات کو وزنی محسوس کرنے لگتا ہے ۔ جنگ کے اسی ادارتی صفحے پر لکھنے والے ہمارے ایک محترم دوست بھی اسی قبیلے میں شمار ہوتے ہیں حالانکہ اس میں ان کا زیادہ قصور اس لئے بھی نہیں کہ ان کو دو کشتیوں پر سواری کا یہ کام وراثت میں ملا ہے ۔سچی بات یہ ہے کہ میں کئی حوالوں سے ان کا مداح ہوں ۔ وہ اگرچہ والد صاحب کی طرح دوکشتیوںکے سوار ہیں لیکن کچھ حوالوں سے ان کی سوچ منفرد بھی ہے ۔ وہ آئوٹ آف دی باکس (Out of the box) سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ سیاست اور صحافت میں مذہب فروشی کے مخالف ہیں اور ان کا یہ مشن میرا بھی مشن ہے لیکن بس مسئلہ یہی ہے کہ اپنے بڑوں کی طرح وہ بھی نوازشریف اور ان کی حکومت کے عشق میں مبتلا ہیں اور جب بھی ہم اس حکومت کی پالیسی کے خلاف کوئی بات لکھتے یا بولتے ہیں توان کو اچھی نہیں لگتی ۔ ہم نوازشریف اینڈ کمپنی کی ان کی تحسین کے حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جب ہم ان پر تنقید کا اپنا حق استعمال کرتے ہیں تو انہیں اچھا نہیں لگتا ۔ پہلے انہوں نے کئی کالموں کے اندر اشاروں کناروں میں میری خبرلی لیکن میں مزہ لے کر خاموش ہوجاتا ۔ اب انہوں نے میرے عسکریت پسندوں کو عام معافی کی تجویز سے متعلق ،میرے گزشتہ سے پیوستہ کالم کا مذاق اڑا یا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اگر معاملہ میری ذات سے متعلق ہوتا تو ماضی کی طرح ہنس کر خاموش ہوجاتا لیکن چونکہ معاملہ انسانی زندگیوں اور پاکستان کی سلامتی کا ہے ، اس لئے مجھے کچھ حقائق سامنے لانے پڑرہے ہیں ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر میرے کالم نگار دوست نے مون مارکیٹ اور اسی طرح کے چند دلخراش مناظر دیکھے ہیں اور وہ ان کو نہیں بھلا سکتے تو میں نے آرمی پبلک اسکول سے کر باچا خان یونیورسٹی تک کے سینکڑوں دلخراش مناظر دیکھے اور بھگتے ہیں ۔ الحمدللہ طالبان کے ہاتھوں دوست کالم نگار کا قبیلہ نہیں بلکہ میرا قبیلہ بے گھر ہوا ہے اور آج تک در در کی ٹھوکریں کھارہا ہے ۔ میرے دوست نے طالبان کی قید نہیں کاٹی لیکن میں نے صحافت کے ابتدائی ایام میں طالبان کی قید کاٹی ہے اور معجزانہ طور پر زندہ بچا ہوں۔ میرے دوست کالم نگار کی ثقافت اور روایات عسکریت پسندی کی وجہ سے تباہ نہیں ہوئے بلکہ میرے ہوئے ہیں ۔ ان کے بھی چند دوست دہشت گردی کی نذر ہوئے ہیں تو میرے ڈاکٹر فارو ق خان اور صفت غیور جیسے درجنوں بھائیوں جیسے دوست اور عزیز تک اس راہ میں قربان ہوگئے ہیں ۔

میرے کالم نگار دوست کو شاید آج بھی سیکورٹی کا کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں لیکن میں سالوں سے اسلحہ لے کر پھرنے پر مجبور ہوں ۔ میرے کالم نگار دوست کو سرکاری گھر بھی دستیاب ہیں اور ذاتی مکان بھی لیکن میں اگر ذاتی مکان نہ ہونے کے باوجود بلٹ پروف گاڑی میں پھرنے پر مجبور ہوں تو اسی دہشت گردی کی وجہ سے ہوں ۔ اس لئے عسکریت پسندوں سے اگر ان کو کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی تو مجھے کیسے ہوسکتی ہے اور ا ن کے ہاتھوں پاکستانیوں کے قتل کا معاملہ اگر ان کے نوٹس میں ہے تو میری نظروں سے کیسے پوشیدہ رہ سکتا ہے ۔ ہاں میں چونکہ کسی شریف کے عشق میں مبتلا ہوں اور نہ کسی عہدے یا منصب کا خواہش مند ہوں ، اس لئے سب پاکستانیوں کو ایک نظر سے دیکھتا ہوں ، سب کو ایک پیمانے پر پرکھنا چاہتا ہوں ۔ میں لاہور اور پشاور میں مرنے والوں کا دکھ یکساں محسوس کرتا ہوں اورپختون یا پنجابی طالبان کو بھی ایک جیسا سمجھتا ہوں ۔ میرے دوست کالم نگار کو یاد ہوگا کہ جب ہم پختون، فوج اور اے این پی کے رہنمائوں کی قیادت میں عسکریت پسندی کا مقابلہ کررہے تھے اور لاہور کی مون مارکیٹ کی طرح پشاور کے ہر چوک میں دھماکے ہورہے تھے تو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کیمروں کے سامنے طالبان سے کہا تھا کہ آپ سے تو ہماری کوئی لڑائی نہیں لیکن تب میرے دوست کالم نگار نے اس کے خلاف کوئی کالم نہیں لکھا۔ پھر جب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ سے ہاتھ آنے والے مواد امریکیوں نے ڈی کلاسیفائی کرلئے تو اس میں وہ ساری تفصیل درج تھی کہ کس طرح شریف برادران نے ٹی ٹی پی سے اپنی الگ ڈیل کرنے کی کوشش کی تھی ۔میں اس وقت بھی انتظار کررہا تھا کہ میرے طالبان مخالف کالم نگار دوست شریف برادران کی اس حرکت کے خلاف چند کالم لکھ دیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میرے دوست کالم نگار کو اگر یاد نہ ہو تو میں یاد دلاتا ہوں کہ جب فیصل آباد جیل میں پنجابی طالبان کے ایک بندے کو پھانسی دی جانے تھی تو پنجابی طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ نے ایک بیان میں دھمکی دی کہ اگر پھانسی پر عمل درآمد روک نہ دیا گیا تو وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو اے این پی کے ساتھ کررہے ہیں اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھ لیا کہ چند ہی روز بعد ہمارے ہی نیوز اخبار میں یہ خبر صفحہ اول پر چھپی کہ حکومت نے پھانسیوں پر عمل درآمد روک دیا۔

تب بھی شاید مذکورہ مصلحت آڑے آئی اور میرے کالم نگار دوست نے نوازشریف کے اس اقدام کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ صرف یہ نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد اسی نوازشریف کی حکومت میں اسی عصمت اللہ معاویہ کے ساتھ رابطے مستحکم کرلئے گئے حالانکہ وہ اسی پنجابی طالبان کے امیر تھے جنہوں نے پریڈلائن سے لے کر گلگت میں غیرملکی سیاحوں پر حملے تک کئی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ۔اسی عصمت اللہ معاویہ کو معافی دے دی گئی ۔ ان کے ساتھ صلح کی گئی ۔ جواب میں انہوں نے صرف یہ اعلان کردیا کہ وہ مزید پاکستان میں نہیں لڑیں گے اور افغانستان میں ہی جنگ جاری رکھیں گے ۔ اس کے بعد عصمت اللہ معاویہ اور ان کے ساتھیوں کے ماضی کو بھلا کر ان کو نئی زندگی کے مواقع دے دئیے گئے ۔ میں نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اس کو خوش آمدید کہا ۔ کیونکہ میری نظر میں پنجاب کے طالبان اور پختون طالبان میں کوئی فرق نہیں اور میرے نزدیک پختون کا قاتل اور پنجابی کا قاتل ایک جیسا ہے۔ میں ہر اس عمل کو سپورٹ کرتا ہوں کہ جس کے نتیجے میں پاکستانیوں کے خون بہنے کا راستہ رکے لیکن افسوس کہ عسکریت پسندوں کے لئے عام معافی کی تجویز پر سیخ پا ہونے والے میرے کالم نگار دوست نے آج تک عصمت اللہ معاویہ کے ساتھ اس ڈیل کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔

کیااس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تجویز میاں نوازشریف کی تھی اور یہ تجویز سلیم صافی کی ہے۔ یا پھر کیا اس وجہ سے کہ وہ پنجابی طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ سے متعلق تھی اور سلیم صافی نے جو تجویز دی ہے کہ وہ پختون سے لے کر بلوچ اور مہاجر تک سب کا احاطہ کرتی ہے ۔ یا پھر کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ عصمت اللہ معاویہ کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں لاہور میں امن آنے کا امکان تھا جبکہ سلیم صافی کی تجویز پر عمل کی صورت میں پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات کو امن نصیب ہوسکتا ہے ۔ تعصب کے لئے بدنام ہم لیکن لاہور کے دانشور کی طرف سے ایسا تعصب کہ پختون اور پنجابی طالبان کے لئے بھی پیمانے الگ الگ ہوگئے ۔ استغفراللہ ۔تبھی تو میں کہتا ہوں کہ سرکاری اور پارٹی کے عہدے اور صحافت ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور تبھی تو میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ عہدہ اور مفاد ، تعصب اور مصلحت کو عقل کا ہمرکاب بنا دیتا ہے ۔ میںنے تو جس کالم میں اسلامی عسکریت پسندوں کے لئے عام معافی کا مطالبہ کیا تھا ، اسی ہی میں بلوچ اور مہاجروں کے لئے بھی اس آپشن کو آزمانے کی درخواست کی تھی اور اسی کالم میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ اس کے بعد بھی جو لوگ نہ مانے تو ان سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے۔ غیرملکوں میں بیٹھ کر پاکستانی ریاست سے لڑنے والے حربیار مری کے سگے بھائی میاں نوازشریف کی جماعت کے صوبائی صدر رہے تو میرے دانشور دوست کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو لیکن مولانا صوفی محمد کے وہ بیٹے جن کا اپنا باپ کی سوچ یا پھر اقدامات سے کوئی سروکار نہیں ، اپنے باپ کے جرم میں رگڑے کھائیں تو اس عمل کو شاباش دی جائے ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ۔ اصول وہ ہوتے ہیں جو سب کے لئے یکساں ہوں اور قانون وہ ہوتا ہے جس کا سب پر یکساں اطلاق ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے