عقول کی ہجرت، برین ڈرین

نواز شریف نے 2013 میں جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت ایک امید سی جا گ اٹھی تھی کہ ملکی معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے۔ ان کی عمدہ پالیسیز کی بدولت پاکستان ایشین ٹائیگر بنے گا،ملک سے بھوک وافلاس ختم ہو جائے گی۔ ہم اتنے امیر ہو جائیں گے کہ امداد لینے کے بجائے دینا شروع کر دیں گے۔لیکن افسوس کہ نہ ملک بدلا نہ ملک کےحالات بدلے اور نہ ہی قرضہ اترا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ قرضہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔صرف یہی نہیں حکومت تعلیمی شرح بڑھانے اور عام کرنے میں بھی ناکا م رہی۔ ناکامی کی وجہ کرپشن اور کرپٹ عناصر کی صورت میں اعلی عہدوں پر بیٹھے افسران شرح خواندگی کو بڑھنے سے روکنے کا کردار بڑے احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔

بجلی کابحران پہلےسے زیادہ بڑھ گیا۔ گھسیٹنے کا اعلان کرنے والے اب خاموش رہنے میں ہی بہتری سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانے میں ناکا م رہے۔

نون لیگ کی چار سالہ کارکردگی کا جائزہ بڑھتی ہوئی برین ڈرین کی شرح سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برین ڈرین کیا ہے اور برین ڈرین کا حکومت کی کارکردگی سے کیا تعلق؟

(برین ڈرین ) ذہین نوجوانوں اور باصلاحیت افراد کا معاشی و معاشرتی ناہمواری، انسانیت کی قدروقیمت میں کمی کے باعث اپنا ملک اور اپنا علاقہ چھوڑنا برین ڈرین کہلاتا ہے۔

پاکستان کے غیر مستحکم حالات کی وجہ سے وطن عزیز کا شمار برین ڈرین سے متاثرہ ممالک میں ہوتا ہے۔۔ ایسے ملک میں بھلا کوئی کیوں رہنا چاہے گا جس میں قاتل لٹیروں کی تاج پوشی کی جاتی ہو،جہاں انسانی حقوق کیے جاتے ہوں اور فراہمی انصاف پر توجہ نہ دی جاتی ہو۔ جہاں تعلیم و صحت جیسے شعبوں کو نظرانداز کرنا جرم نہ سمجھا جاتا ہو ۔ عدم برداشت، بیروزگاری،کرپشن اور کرپٹ حکمرانوں کا راج ہو ۔جہاں سوالات کے جوابات نہ ملتے ہوں وہاں کون رہنا چاہے گا؟

اب تھوڑا حقائق کی بات ہوجائے۔۔

2013 سے لے کر اپریل 2017 تک ملک چھوڑنے والوں کی تعداد۔

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے اپریل 2017 تک 25725 انجنیئرز بہتر مستقبل کی خاطر ملک سے باہر گئے۔ 18171 اکائونٹنٹس نے ملک کو خیر آباد کہا،جبکہ ملک سے ہجرت کرنے والے ڈاکٹر ز کی تعد اد 8722 رہی،اسی عرصے دوران 4703 اساتذہ نے بھی ملک چھوڑنے میں بہتری سمجھی۔یہ تو کچھ گنےچنے شعبے ہیں۔مجموعی طور پر گزشتہ چارسالوں میں 33 لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار کے حصول کے لیے بیرون ملک اب تک ہجرت کر چکے ہیں۔

بیرون ملک جانے والوں میں زیادہ تر فنی مہارتیں رکھنے والے نوجوانوں کی ہے۔ایک لاکھ 52913 مکینک ملک سے باہر گئے اسی طرح اگر ٹیکنیشنز کی بات کی جائے تو 73ہزار741ٹیکنیشنز نے زندگی بہتر بنانے کی خاطر ملک چھوڑنے کو ترجیح دینا مناسب سمجھا۔

اپنے ملک میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ملنے کی وجہ سے بیرون ملک جانیوالوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ لمحہء فکریہ ہے۔

جو لوگ بیرون ملک مقیم پاکستا نیوں کی رقوم پاکستانی معیشت کے لیے اہم سمجھتے ہیں انہیں اس سے جڑے دیگر پہلوؤں پر غور وفکر کرنا چاہیے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی بھی ملک سے اگر بڑی افرادی قوت ہجر ت کر جائے تو اس سے سماجی اثرات کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ روزگار کے مواقع تو ہیں مگر موزوں امیدوار نہیں ملتے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قابل لوگوں نے اپلائی نہیں کیا یااہل امیدواروں کی پاکستان میں کمی ہوگئی ہے؟ بہر حال یہ ایک کڑوی حقیقت ہے اس سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔حکومت وقت کو چاہیے کہ جو پاکستان میں رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہاں روزگار کے مناسب مواقع پیدا کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان کو ہنرمنداور اعلی تعلیم یافتہ قابل افراد کی قلت کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے ۔۔

آخر میں موجودہ حکمرانوں سے چند سوال جو ہر پڑھا لکھا با شعور انسان پوچھنا چاہتا ہے۔۔

آخر کب تک نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انہیں صرف جلسوں کی رونق بڑھانے کیلئے استعمال کیا جاتا رہے گا؟کیا حکومت کی ذمہ داری صرف لیپ ٹاپ دینا ہے ؟کیا حکومت کا کام روزگار کے مناسب مواقع فراہم کرنے کے بجائے صرف سبز باغ دکھانا ہے؟ کب تک اقرباپروری کا سلسلہ چلتا رہے گا؟ کیاسرکاری نوکری کی اہلیت پارٹی ورکر ہونا ہے؟

اور بھی ایسے کئی سوالات ہیں جو ذہنوں میں آتے ہیں مگر زبان پر نہیں آتے اور اگر زبان تک آبھی جائیں تو ان کے جوابات نہیں ملتے۔۔۔اگر حکومت نےایکشن نہ لیا تو پاکستان سے ذہین افراد جاتے رہیں گے..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے