فتاویٰ مفتی محمودؒ اور مسئلہ تکفیر

::: :::

میری گزشتہ پوسٹ ’’مجلس عمل کی بحالی‘‘ پر کچھ جذباتی نوجوانوں نے ایک سوال اٹھایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے اپنے ’’فتاویٰ مفتی محمود‘‘ میں اہل تشیع کی تکفیر کی ہے، جبکہ ان کے صاحبزادہ صاحب ان سے اتحاد بناتے رہتے ہیں جو کہ ناجائز ہے ۔‘‘

یہی سوال کافی عرصہ سے ہم تقریروں اور تحریروں میں بھی پڑھتے اور سنتے چلے آرہے ہیں، مناسب معلوم ہوا کہ اس بارہ میں کم از کم اپنے احباب کو کچھ بتایا جائے ۔

* سب سے پہلی بات تو یہ ہے جو کہ اکثر معترضین کو معلوم نہیں کہ ’’فتاویٰ مفتی محمود‘‘ میں سارے فتاویٰ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے نہیں بلکہ ان کے معاون مفتیان کرام کے بھی ہیں ، جن پر ان کے باقاعدہ دستخط موجود ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے ’’فتاویٰ رشیدیہ‘‘ میں سب ہی فتاویٰ فقیہہ العصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے نہیں بلکہ دیگر مفتیان کرام کے بھی ہیں ، لیکن چونکہ ان کے فتاویٰ کی کتاب ہے لہٰذا ان ہی کی طرف ان کی نسبت کی جاتی ہے ، گو حقیقتاً وہ ان کے فتاویٰ نہیں ہیں ما سوائے ان فتاویٰ کے جن پر حضرت گنگوہیؒ اور حضرت مفتی محمود صاحبؒ کے صراحۃً دستخط موجود ہیں ۔

* دوسری بات یہ ہے کہ حضرت مفتی صاحبؒ نے اپنے ان فتاویٰ میں اہل تشیع کو من حیث الجماعۃ اور علی الاطلاق کافر قرار نہیں دیا بلکہ جمہور علماء امت کے نظریہ کے مطابق شخصی اور مشروط طور پر تکفیر کی ہے ، گو اس کی زد میں ان کا کوئی ذیلی پورا فرقہ ہی کیوں نہ آتا ہو ، جن حضرات نے براہ راست ان فتاویٰ کو پڑھا ہے ، وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں ۔

* تیسری بات یہ ہے جو کہ معترضین پر ایک سوال کی صورت میں بھی موجود ہے کہ ’’آیا ان کے ہاں مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ قولاً و فعلاً قابل اعتماد و اعتبار شخصیت بھی ہیں یا نہیں؟

اگر ان کا جواب نفی میں ہے تو پھر ان کے فتاویٰ کو پیش کرنا ابلہہ پن کے سوا کچھ بھی نہیں ، اور اگر ان کا جواب ہاں میں ہے تو پھر ان کے فتاویٰ ان کے صاحبزادہ صاحب پر تھوپنے سے پہلے خود حضرت مفتی صاحبؒ پر کیوں نہیں ٹھونسنے کی جرأت کی جاتی ، جنہوں نے اپنی تحریکی زندگی کے ہر محاذ پر اہل تشیع کو بھی ساتھ شامل رکھا ، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ العیاذ باللہ حضرت مفتی صاحبؒ کے قول و فعل میں تضاد تھا ، کچھ تو خدا کا خوف ملحوظ رکھنا چاہئے ، جب کسی شخصیت کے فتویٰ کے ساتھ اس کا عمل بھی موجود ہو تو اس فتویٰ کی تشریح کرنا ما و شما کا کیا حق بنتا ہے ، اس فتویٰ کی تشریح ان کا عمل اور کردار ہی کیا کرتا ہے ، جو ہر ذی شعور کے سامنے ظاہر و باہر ہے ۔

* چوتھی بات یہ ہے کہ جب متعدد فرقوں کا آپس میں اتحاد ہوتا ہے تو وہ مخصوص شرائط اور ضابطۂ اخلاق کے تحت ہوا کرتا ہے ، جس میں نہ کوئی اپنا مسلک چھوڑتا ہے اور نہ ہی دوسرے کا مسلک اپناتا ہے بلکہ وہ اتحاد صرف قومی مفادات کے تحت ہوا کرتا ہے ، چنانچہ اسی کے مطابق ہمارے تمام اکابر و اسلاف قدیماً و حدیثاً ایسے اتحادوں میں شریک رہے ہیں ، جو اب کچھ لوگوں کے ہاں شجر ممنوعہ ہو چکا ہے ۔
* اور پانچویں بات یہ ہے کہ ہمارے خیال میں اس مسئلہ کو اعتقادی مباحث کی بجائے تاریخی اور سماجی تناظر میں دیکھنا اور بیان کرنا چاہئے ، حضرت مفتی صاحبؒ نے شیعہ کی تکفیر اگر کی بھی ہے تو اس فتویٰ کے بعد وہ متعدد دینی و سماجی اتحادوں کا حصہ رہے ہیں جن میں اہل تشیع قیادت میں شامل تھے ، اسی طرح عم مکرم امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے شیعہ کی تکفیر پر مستقل کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ لکھی ہے مگر مجلس عمل تحفظ ختم نبوت اور پاکستان قومی اتحاد وغیرہ کا باقاعدہ حصہ رہے ہیں ، دونوں تحریکوں میں مشترکہ جلوسوں کی قیادت کی ہے اور گرفتاری دے کر مہینوں جیل میں رہے ہیں جبکہ انہوں نے اپنی بیماری کے ایام میں اسی متحدہ مجلس عمل کا ساتھ دیا تھا اور اس میں شیعہ حضرات کی شرکت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ یہ قومی ضرورت ہے جبکہ انتخاب میں پاکستان متحدہ مجلس عمل کے امیدوار بلال قدرت بٹ صاحب کو جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ، اعلانیہ حمایت کر کے گکھڑ سے ووٹ دلوائے تھے جس پر گکھڑ کے ہزاروں لوگ گواہ ہیں اور اب تک یہ بات کہی جاتی ہے کہ بلال قدرت بٹ صاحب گکھڑ سے الیکشن جیت گئے تھے اور وہ صرف حضرت امام اہل سنتؒ کی حمایت کی وجہ سے جیتے تھے ، اس لئے ہمیں بھی اپنے دلوں اور دماغوں کو وسیع رکھنا چاہئے ۔

اللہ کریم ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور جمہور علماء امت کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رکھے ، آمین یا رب العالمین ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے