فحش کی جدلیات

فحش بینی کی لَت یا فحش بینی کی عادت جسے انگریزی میں PORN ADDICTION کہا جاتا ہے سے مراد کسی شخص کی ایسی حالت جب وہ بار بار فحش دیکھے اور دوبارہ نہ دیکھنے کی قوتِ فیصلہ سے بھی محروم ہو جائے. یہ دراصل کسی فرد کے جسمانی، ذہنی، سماجی یا مالی بہبود کے لئے منفی نتائج کے باوجود فحش مواد کے استعمال کی ایک عادت ہے. اِس عادت کے نتائج میں ڈپریشن، سماجی تنہائی، کیریئر کا نقصان، منفی رویہ کی پرورش یا مالی نقصانات شامل ہو سکتے ہیں.

ابھی تک میڈیکل سائنس سے وابستہ کسی ادارے نے باضابطہ طور پہ فحش بینی کی لت کو ایک خرابی/ عارضہ کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے. تاہم چند سائنسی ثبوتوں اور دوسرے تجربات کے پیشِ نظر آج انٹرنیٹ کے دور میں فحاشی کی بے مثال دستیابی ایک ناقابل تردید مسئلہ ضرور بن چکا ہے جو کہ افراد اور اس سے آگے مجموعی طور پر سماج کیلیے تباہ کن ہے.

فحش بینی کی لت کو جسمانی اور نفسیاتی عوارض کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے. جسمانی کمزوری، تھکاوٹ، چڑچڑاپن، جنسی صحت میں نقص جیسے مسائل سمیت خوداعتمادی میں شدید کمی، شرم کا احساس، حوصلہ افزائی کی کمی، جنسی تعلقات میں عدم دلچسپی، شعور و تخلیقی صلاحیتوں میں کمی جیسے مسائل مسلسل فحش بینی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں.

علاوہ ازیں فحش نگاری کی صنعت میں فنکاروں اور خاص طور پر خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے. فحش نگاری کی پیداوار کے دوران معاشی جبر کے تحت خواتین ماڈلز کا جسمانی اور نفسیاتی استحصال کیا جاتا ہے. یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ لبرل منطق کے مطابق خواتین ماڈلز اِس سارے معاملے سے لطف اندوز ہوتی ہیں حالانکہ فحش نگاری خواتین کے حوالے سے مکمل طور پر توہین آمیز اور وحشیانہ ہوتی ہے. ٹریسی لارڈز اور لنڈا بورمین جیسی مشہور پورن سٹارز نے خود اعتراف کیا کہ فحش نگار خواتین کسی نہ کسی جبر کے تحت اِس کام میں ملوث ہوتی ہیں.

فحش بینی کا عالمانہ اور ثقافتی مطالعہ تحریک نسواں میں اِس موضوع کے بارے میں تنازعات کی وجہ سے محدود ہے. فحاشی کے مطالعہ کے بارے میں سب سے پہلا تعلیمی جریدہ "پورن اسٹڈیز” 2014 میں شائع کیا گیا تھا. لیکن ابھی تک اِس موضوع پر جتنا بھی لکھا گیا ہے وہ فحش بینی کی لت کو انفرادی سطح پہ ہی پرکھتی ہے، ریاستی قانون سازی بھی افراد کو غلط اور صحیح ثابت کرنے پہ تلی ہوئی ہے. حالانکہ یہ معاملہ خالصتاً اِس نظامِ زر کا قانونی و غیرقانونی دھندہ ہے اور اِس کو اِسی بنیادوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے.

فحش بینی کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے. آج سے بیس سال قبل لفظ "پورن” ہی کسی کو نامناسب اور غیرمعتبر ثابت کرنے کیلیے کافی تھا، مگر آج تو اگر آپ کے پاس اینڈرائیڈ فون ہے یا انٹرنیٹ تک رسائی ہے تو فحش بینی اِس وقت انسانی تاریخ کا آسان ترین معاملہ ہے. فحاشی کی دنیا ایک وسیع دنیا ہے جس کی حدود کا تعین ہی شاید ممکن نہیں ہے. رپورٹس کے مطابق صرف 2016ء میں ایک پورن ویب سائٹ کو فحش بینی کیلیے 23 ارب مرتبہ استعمال کیا گیا تھا یعنی 729 افراد فی سیکنڈ کے حساب سے اِس ویب سائٹ کو وزٹ کرتے رہے ہیں، تقریباً ساڑھے چھ کروڑ لوگ یومیہ! کیا واقعی یہ محض فرد کی سطح کا معاملہ ہے؟

قطعاً نہیں! یہ ہوس زدہ، بیمار ذہن اور پاگل سرمایہ داروں کا گھناؤنا کاروبار ہے. فحش مواد کی الگ سے ایک انڈسٹری ہے جس کے کاروباری حجم کا صرف امریکہ میں 2001ء میں تین ارب ڈالر تخمینہ لگایا گیا تھا جو آج بڑھتے بڑھتے پچاس ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے. اسلحہ اسمگلنگ، منشیات کی اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ کی مانند یہ کاروبار بھی انسان دشمن ہے مگر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھر رہا ہے.

سنہ 2000ء میں دنیا بھر میں فحش ویب سائٹس کی تعداد تین ہزار سے زائد نہیں تھی مگر آج بی بی سی کی 2013ء کی ایک رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ کا 37 فیصد حصہ فحش مواد پہ مشتمل ہے. ایک محتاط اندازے کے مطابق اِس وقت چالیس لاکھ ویب سائٹ پر فحش مواد دستیاب ہے جن کے سالانہ کاروبار کا تخمینہ سو ارب امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے.

یہ ایک محکم سچائی ہے کہ فحش نگاری سرمایہ دارانہ نظام کا حقیقی اور فحش چہرہ ہے. منافع اور دولت کی اندھی ہوس کی بیماری میں مبتلا سرمایہ داروں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ دنیا بھر کی آبادی کو کیسے غلیظ خطرات لاحق ہیں. اِس میں کوئی شک نہیں کہ فحاشی، فحش، فحش نگاری اور فحش بینی سرمایہ دارانہ نظام سے پہلے بھی موجود تھی مگر سرمایہ دارانہ نظام میں اِس کو لامحدود "ترقی” دی ہے. 1990ء کے آغاز میں انٹرنیٹ فحاشی کے دھماکے دار آغاز سے ہی سرمایہ داروں کو بےپناہ منافع نکلا. فحش نگار صنعت میں منافع کی شرح مائیکروسافٹ، گوگل، ایمیزون، یاہو اور ایپل سے بھی زیادہ ہے.

فحش نگاری کے بےپناہ منافع کی وجہ سے اِس کے پروڈیوسر زیادہ سے زیادہ مارکیٹ شیئر پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں. وہ کبھی کم سن عورتوں کو پیش کرتے ہیں، تو کبھی زیادہ آمیز حرکات اور کارروائیوں کے ساتھ زیادہ متشدد فحاشی پیدا کرتے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں مثبت اقدار اور اخلاقیات کی بجائے منافع کی شرح سب سے بڑھ کر ہوتی ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے