فیاضیاں ( چوتھی قسط )

اپنے گھر کی خوشی اور کرائے کے مکان کا غم کیا ہوتا ہے اس کا صحیح اندازہ مجھے جون 2013 میں ہوا جب پروفیشنل مجبوریوں اور بچوں کے بہتر مستقبل کی تلاش میں، میں بیوی بچوں کے ساتھ، ٹینچ بھاٹہ والا آبائی گھر چھوڑ کر جی الیون اسلام آباد میں ایک کرائے کے گھر میں منتقل ہوگیا۔ اپریل 1982 سے جون 2013 تک زندگی کے 31 برس جس گھر میں گزرے، اس گھر کو چھوڑتے وقت میرے جذبات کیا تھے، اس کا ذکر آگے آئے گا مگر سرد ست چلتے ہیں واپس 1982 میں۔۔۔۔۔۔

اپریل 1982 میں اپنا گھر خریدنے کے بعد امی جان کی خواہش اور ابو جان کی محنت رنگ لا چکی تھی۔ ان دنوں ہم بہن بھائیوں کے دل میں جس اگلی خواہش نے سر نکالا وہ گھر میں ایک عدد ٹیلی ویژن سیٹ لانے کی تھی۔ ٹھیک 2 ماہ بعد جون 1982 میں ہمارے والدین نے ہماری یہ خواہش بھی جیسے تیسے پوری کر ہی ڈالی۔ فلپس کمپنی کا 24 انچ کا رنگین ٹیلی ویژن اور نیشنل کپمنی کا دیوہیکل فریج، ایک بڑے سے ریڑھے پر سے جب ہمارے گھر اتارا گیا تو گھر کا صحن محلے کے بچوں سے گویا بھر سا گیا تھا۔ گتے کے ڈبے کھولے گئے تو اندر سے برآمد ہونے والا ٹیلی ویژن سیٹ دیکھتے ہی سب بچوں کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے تھے۔

ایک بات بتاوں، اگر مانیں تو۔۔۔۔۔اعجاز بھائی، جو اس وقت 20 برس کے اور ناصر بھائی جو اس وقت 16 برس کے تھے، مزدروں کے ساتھ مل کر ٹی وی اور فریج کے ڈبے اتروا رہے تھے۔ جوش اور خوشی میں، میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا، دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی، صحن زرا سا اونچا تھا، مجھے ٹھوکر لگی اور میرا ماتھا پکے فرش سے جا ٹکرایا۔ مجھے اتنا یاد ہے ہے کہ درد کا احساس بلکل نہیں جاگا تھا، ہاں ! دل سے زرا نیچے، بائیں طرف، پیٹ میں ایک اینٹھن سی ہوئی تھی جس کو اس وقت میں کوئی نام نہ دے سکا تھا بس یہ جان سکا تھا کہ کہ یہ اینٹھن بالکل ویسی ہی تھی جیسی تب محسوس ہوئی جب ساجدہ نے میرا ماتھا چوما تھا۔

اگلا مرحلہ تھا تین کمروں ( دو بیڈ روم اور ایک بیٹھک ) والے اس گھر میں ٹیلی ویژن سیٹ کو سیٹ کرنے کا۔ ہم سب بہن بھائی ٹیلی ویژن کو آن کرنے اور اس کا دیدار کرنے کے لئے بری طرح بے چین تھے۔ ڈبہ کھولتے ہوئے اعجاز بھائی نے بتادیا تھا کہ ٹیلی ویژن بلیک اینڈ وہائٹ نہیں، رنگین ہے۔ 24 انچ کا فلپس کا رنگین ٹیلی ویژن جو لکڑی کے فریم میں بند تھا۔ دو دروازوں کے ہینڈل پکڑ کر انہیں ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کھینچا جاتا تھا تو اندر سے ٹیلی ویژن کی سکرین نظر آنے لگتی تھی۔ لکڑی کے فریم کے نیچے چار پاوں بھی تھے جن پر وہ ٹی وی سیٹ کھڑا ہوتا تھا۔

اعجاز بھائی جو بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ٹیلی ویژن سیٹ کو رکھنے کے لئے ان کا کمرہ یعنی بیٹھک کو چنا گیا تھا۔ بیٹھک کے آخری سرے والے کونے میں اعجاز بھائی کا بیڈ تھا جبکہ دوسرے کونے میں دیوار کے ساتھ ٹی وی کو سیٹ کردیا گیا کیونکہ اعجاز بھائی کا کہنا تھا کہ ٹی وی کی اسکرین کو کم ازکم 8 یا 10 فٹ( اب مجھے صحیح یاد نہیں ) دور سے دیکھنا چاہیئے۔

"دی بگ بگ ببل گم، مے فیئر ببل گم” یہ وہ سب سے پہلا اشتہار تھا جو ہم سب بہن بھائیوں نے اپنے ذاتی گھر میں اپنے ذاتی ٹیلی ویژن پر سب سے پہلے دیکھا۔ جی ہاں! یہ وہی اشتہار ہے جس میں ریل گاڑی نما ایک جھولا، ریل کی پٹڑیوں مانند راستے پر آسمان کی بلندیوں کو جا چھوتا ہے اور اس جھولے میں بیٹھے مرد و خواتین اور بچوں کو صرف اس لئے ڈر نہیں لگتا کیونکہ وہ اس وقت ” مے فیئر ببل گم "چبا رہے ہوتے ہیں۔

اگر میں بھول نہیں رہا تو ان دنوں جمعرات کے روز ڈرامہ سیریز ” دائرے ” نشر ہوتا تھا۔ جمعہ کو اسکول سے چھٹی ہوتی تھی اور اعجاز بھائی نے ” اپنے کلیئے ” کے تحت ہمیں صرف جمعرات کے روز ہی ” لیٹ نائٹ ” جاگنے اور 8 بجے والا ٹی وی ڈرامہ دیکھنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ بدھ کے روز 8 بجے انگریزی فلم دکھائی جاتی تھی۔ ہفتے کے باقی 5 دن، پی ٹی وی کے پانچوں سینیٹرز کراچی۔ لاہور، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد اسٹیشن کے تیار کردہ ڈرامے نشر کئے جاتے تھے۔ یہ پانچ ڈرامے، سیریل یعنی قسط وار ہو اکرتے تھے جبکہ ہماری قسمت میں آنے والا جمعرات کے روز کا ڈرامہ ” دائرے ” سیریز تھی یعنی کردار وہی مگر ہر بار کہانی نئی۔۔۔

8 سے 9 بجے والے پی ٹی وی ڈرامے میں ان دنوں صرف دو وقفے ہوا کرتے تھے اور اسکرین پر باقاعدہ لکھا ہوا آتا تھا ” وقفہ "۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ڈرامہ سیریز ” دائرے ” کے وقفوں کے دوران جب بہن بھائی ڈرامہ دوبارہ شروع ہونے کا انتظار کرتے تھے تو میں مواصلاتی رابطے کے زریعے ٹینچ بھاٹہ کے اپنے گھر سے علامہ اقبال کالونی والے محلے میں پہنچ جاتا تھا جہان انکل حمید اور آنٹی کے ہاں ڈرامے کا دوسرا وقفہ شروع ہوتے ہی آنٹی کی آواز گونجتی تھی۔ ” ساجدہ پتر! ایک کپ چائے تو پلادے، اور ساجدہ برا سا منہ بنا کر اٹھتی تھی اور وقفہ ختم ہونے کے تھوڑی دیر بعد چائے کا کپ آنٹی کے ہاتھ میں پکڑا تے ہوئے جھلا کر پوچھتی تھی، آگے کیا ہوا تھا ؟؟؟ نجانے ساجدہ نے ” دائروں ” کا سفر کتنے ” وقفوں ” میں طے کیا ہوگا؟؟؟ ( جاری ہے )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے