فیشن انڈسٹری اور ایف بی آر

پاکستان میں غربت کی شرع میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، مڈل کلاس کو بھی شامل کر لیا جائے تو اسی فیصد آبادی کا رہن سہن ایسا ہے کہ سر ڈھانپیں تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں، زندگی، بنیادی ضروریات روٹی کپڑا مکان حاصل کرنے کے گرد گھومتی ہے۔

جب کہ دوسری طرف ایسا طبقہ ہے جو جدی پشتی رئیس ہے، ان میں زمیندار، سیاستدان، کاروباری لوگ شامل ہیں،
ایک طبقہ اور بھی ہے جسکا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے، یہ امراء کا ایسا طبقہ ہے جنکو ھر آسائش زندگی ضخیم مقدار میں میسر ہیں مگر سورس آف انکم مشکوک ہے۔

پچھلے دنوں ایک غیر مقبول ماضی کی اداکارہ، اور اب مارننگ شوز کی ہوسٹ ، جویریہ سعود، جنکے شوہر، سعود ماضی کے فلمی اداکار ہیں، ایک ویڈیو میں اپنا محل نما گھر دکھاتی نظر آئیں۔ اگر تو یہ گھر ماہرہ خان یا ایسی چوٹی کی ماڈل کا ہوتا تو شاید میرے ذہن میں یہ سوال نا آتا کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا۔

ویڈیو دیکھنے کے بعد میں نے جویریہ اور سعود پر ریسرچ کی، نا تو انکی فیکٹریز ہیں، نا شوگر ملز نا بظاھر کوئی کاروبار پھر یہ پر تعیش گھر بنانا کیوں کر ممکن ہوا۔ گھر کی ہر چیز سونے کے بھاؤ اور بیرون ملک سے امپورٹ کی گئی ہے، انہوں نے اپنا ذاتی بیڈروم یہ کہہ کر نہیں دکھایا کہ وہ بہت پرائیویٹ جگہ ہے۔

خدا جویریہ کو یہ گھر مبارک کرے اور مزید دولت سے نوازے، سوال یہ ہے کہ شبر زیدی صاحب کی نظر اس پر پڑی ؟ ایف بی آر آج کل امراء کو ٹیکس بریکٹ میں لانے کیلئے سرگرم ہے، تنخواہ دار طبقے کا انکم ٹیکس بڑھایا گیا، کاروباری حضرات کو نیب میں طلب کیا جا رہا ہے، سیل ٹیکس کلیکشن پر سختی سے عمل درآمد ہو رہا ہے، ایک طرح سے میرا تعلق ایف بی آر سے ہے اور میں آگاہ ہوں کہ ٹیکس وصولی کیلئے یہ ادارہ کتنا سنجیدہ ہے۔

باعث حیرت بات یہ ہے کہ فیشن انڈسٹری سے جُڑے امرا پر ایف بی آر کی نظر کیوں نہیں جاتی؟ جس سندھ میں گورننس کے حالات سے ہم سب واقف ہیں، وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو نا کاروباری ہیں نا سیاست دان نا زمین دار ، ارب سوا ارب کا گھر بنانے میں کیسے کامیاب ہو جاتے ہیں، یہ التجا ہے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے کہ حضور ایک نظر یہاں بھی ہو جائے اور خود جاننے کے بعد عوام کو سمجھایا جائے کہ گمنامی میں رہ کر محل کیسے تعمیر ہو پاتے ہیں۔ ⁦

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے