فیض صاحب یاد آ گئے!

جو کچھ ہو رہا ہے‘ کیا یہ نیا ہے جس پر ہمیں گھبرانا چاہیے اور ہاتھ پائوں چھوڑ دینے چاہئیں؟

نہ شکاری نئے ہیں‘ نہ ہی ان کے شکار۔ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کس نے کب تیر چلانا ہے اور کس نے سینے پر کہاں کھانا ہے۔ شکار اور شکاری‘ دونوں کو اپنے اپنے کردار کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے۔ ایک شکاری سے بچ کر دوسرے کی طرف لپکتے ہیں کہ اس کی جان بچائے گا‘ تو پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی بروٹس کی طرح آستین میں خنجر چھپائے کھڑا ہے‘ جبکہ سیزر کی لاش پر اس کا جنرل مارک انٹنی کونے میں چھپ کر کھڑا دھواں دھار تقریر کر کے اقتدار پر قبضہ کرنے کو تیار ہے۔

تو کیا انسانی تاریخ میں یہ سب کچھ ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا؟

انسانی تاریخ کا تو پتہ نہیں لیکن کم از کم پاکستان میں لگتا ہے ایسے ہی چلتا رہے گا۔ ذرا تصور کریں جو کچھ پاکستان کے وزیر اعظم، سپریم کورٹ کے ججوں اور آرمی چیف کے بارے میں سرعام کہا گیا‘ وہ اگر کسی سیاستدان، صحافی، دانشور یا عام پاکستان نے کہا ہوتا تو کیا حشر برپا ہو جانا تھا؟ یوں لگتا ہے پاکستان پر کوئی آسمان گر پڑا ہے۔ نواز شریف کی سربراہی میں ایک سرکاری اجلاس کی خبر باہر نکلی تھی تو قیامت ڈھا دی گئی تھی۔ اب ایک ایک کا نام لے لے کر فتوے جاری ہوئے لیکن مجال ہے کہیں سے ‘چوں‘ تک بھی ہوئی ہو۔

ہم ہر دفعہ سمجھتے ہیں اس دفعہ جو ریاست نے ڈیل کی ہے اس سے خیر برآمد ہو گی اور ہر دفعہ ہم غلط نکلتے ہیں۔ایک تشریح اس سارے ہنگامے کی یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ جو سیاسی حکمران آج رونا رو رہے ہیں کہ ریاست کو چند لوگوں نے یرغمال بنا لیا ہے‘ انہوں نے خود بھی کبھی سوچا ہے کہ ان کا اس میں اپنا کیا قصور ہے؟ چلیں ہم زیادہ پیچھے نہیں جاتے۔ پچھلے دس سالوں کو دیکھ لیتے ہیں۔ اس دوران جب سیاسی حکومتیں تھیں‘ انہوں نے اپنی رعایا کو بہتر انسان بنانے اور اچھی تربیت دینے کے لیے کیا کیا؟

جب آصف زرداری ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے جعلی اکائونٹس کا دفاع کرتے ہوئے مذہبی عدم برداشت کا لیکچر دیتے ہیں‘ تو کتنے لوگوں پر اس کا اثر ہوتا ہو گا؟ جب نواز شریف اور ان کا گروہ اسی گروہ کے ہاتھوں یرغمال بن چکے تھے تو انہوں نے بھی سوچا تھا کہ دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں بنانا اہم تھا یا اپنی رعایا کو اس مقام پر لے جانا کہ وہ چند لوگوں کے بہکاوے میں نہ آتے؟ ان سب محروم طبقات کو وہ سوشل اور معاشی سٹیٹس اور ایسی اچھی زندگی فراہم کرتے کہ انہیں بھی محسوس ہوتا‘ ریاست ان کی ماں جیسی ہے اور اپنی ماں کے خلاف کوئی گستاخی برداشت نہیں کرتا۔ اپنے بچوں کو کم عمری میں ارب پتی بنانے والے حکمرانوں کے عوام پھر ایسے ہی ہوتے ہیں جو ہمیں پچھلے ہفتے نظر آئے کہ ریڑھی والے بچے کے کیلے تک لوٹ لیے گئے۔

جب حکمران لندن، دبئی، نیویارک، یورپ سے سوئٹزرلینڈ تک جائیدادیں اور بینک اکائونٹس بھریں گے تو پھر یقیناً عوام کا اعتبار ریاست اور قانون سے اُٹھ جائے گا۔ بادشاہ اگر کسی کے باغ کا انار توڑ کر کھائے گا تو پھر اس کی فوج یا عوام کہہ لیں پورا باغ اجاڑ دے گی۔جب عمران خان کی کابینہ میں شامل وزیر فہمیدہ مرزا چوراسی کروڑ روپے کا بینک قرض معاف کرا رہی تھیں تو انہوں نے بھی نہیں سوچا وہ انہی لوگوں کے حق پر ڈاکا مار رہی ہیں جو ریڑھی سے کیلے تک لوٹ لیتے ہیں۔

اعظم سواتی صاحب ایک گائے کے معاملے کو لے کر ایک خاندان کو جیل بھجوا دیں گے اور آئی جی پولیس جان محمد تک کو بھی برطرف کرا دیں گے تو پھر عام آدمی کی نفرت قانون اور حکمرانوں سے یقیناً بڑھ جائے گی۔ ایک لمبی فہرست ہے کہ کس نے کیا کیا لوٹا‘ لیکن آج وہ سب عوام کو سڑکوں پر لوٹ مار کرتے دیکھ کر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ شدت پسندی کا شکار ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے شدت پسندی صرف ان طبقات میں کیوں پھیلی‘ جن کی مشکل سے زندگی بسر ہوتی ہے؟ جب لوگ کاروں کو جلا اور ڈنڈے مار رہے تھے تو لگ رہا تھا کہ وہ کار نہیں کوئی زندہ انسان ہے جس پر وہ غصہ نکال رہے تھے۔ موٹر سائیکل والوں نے کاریں جلائیں کہ ان کے پاس صرف موٹر سائیکل ہے جبکہ کوئی اور کار پر فراٹے بھر رہا ہے۔ جنہوں نے موٹر سائیکلوں کو جلایا‘ وہ زیادہ تر سائیکل سوار ہیں کہ میرے پاس کیوں نہیں۔

آپ نے ان پورے ہنگاموں میں کوئی سائیکل جلتی دیکھی ہے؟ کیونکہ جو یہ سب جلائو گھیرائو کر رہے تھے زیادہ تر وہ تھے جن کے پاس سائیکل ہے۔ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تو وہ دوسرے کے پاس بھی نہیں دیکھ سکتے۔ انسانی تاریخ میں جتنے بھی حملہ آور دیگر تہذبیوں اور ملکوں پر حملہ کرکے انہیں تباہ و برباد اور قتل و غارت کرتے رہے‘ اس کے پیچھے بھی یہی صدیوں پرانی سوچ تھی۔ لہٰذا پہاڑوں اور صحرائے گوبی سے اٹھے حملہ آوروں نے اس دور کی خوشحال قوموں پر حملے کرکے سب کچھ لوٹ کر تباہ کر دیا۔

عام پاکستانی کا ردِ عمل سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ سارا سال پولیس سے لے کر عام بیوروکریسی تک کے استحصال کا سامنا کرتے ہیں، مہنگائی کے ہاتھوں پستے ہیں، حکمرانون کو دیکھتے ہیں جن کی لوٹ مار پر ان کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔ اگر پکڑے جائیں تو بھی چند دن بعد انہیں رہا کر دیا جاتا ہے‘ جبکہ عام آدمی کا مقدمہ برسوں تک لٹکا رہتا ہے۔

ابھی میں قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایک فہرست پڑھ رہا تھا۔ عاصمہ ارباب اپنا نام ای سی ایل سے ہٹوا کر دنیا بھر کے دورے کر آئی ہیں۔ موصوفہ نے اس دور میں لندن سے لے کر دبئی تک جائیدادیں خریدیں اور کھل کر مال بنایا جب ان کا شوہر گیلانی کے وزیر مواصلات تھا۔ نیب کا ریفرنس ان کے خلاف عرصہ ہوا چل رہا ہے‘ مجال ہے کسی نے ہاتھ لگایا ہو۔ زبیدہ جلال توانا پاکستان پروگرام کے دو ارب روپے پر ہاتھ صاف کرکے بھی وزیر بن گئیں۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جو ایک عام انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ جب قانون بڑے لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو ان کا کیا کر لے گا۔

ان کا یہ خیال بالکل درست ثابت ہوا ہے۔ ابھی دیکھ لیں کہ پنجاب سے اسلام آباد تک ان لوگوں نے کھل کر تباہی مچائی آپ کو کہیں کوئی قانون یا سپاہی نظر آیا جو ان کے ہاتھ روکتا؟ ایک عام پاکستانی نے بندوق نکال کر ہوائی فائر کیے‘ پوری قوم بھاگ گئی۔ قانون سے کچھ بھی نہ ہو سکا۔ پولیس اب کام کرنے کو تیار نہیں کہ اسے سیاستدانوں نے گھر کی لونڈی بنا لیا ہے۔ ایماندار پولیس افسر اب کسی کو سوٹ نہیں کرتا۔ سہیل تاجک جیسا پولیس افسر اگر پنجاب کے حکمرانوں کو سوٹ نہیں کرتا تو جان محمد جیسا افسر اسلام آباد کے حکمرانوں کو قبول نہیں۔ تو پھر کرپٹ اور نالائق پولیس افسران اپنی نوکریاں اور جانیں کیوں خطرے میں ڈال کر ان حکمرانوں کی حکومت اور عوام کو عذاب سے بچائیں؟

ماڈل ٹائون لاہور کے واقعے کے بعد پولیس نے سمجھ لیا تھا کہ سیاستدان انہیں استعمال کرکے اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ سے شہباز شریف تک سب مکر گئے کہ ہم نے تو حکم ہی نہیں دیا تھا۔ اب موجودہ حکمران کہتے ہیں کہ جو ہماری بات نہیں مانے گا وہ برطرف ہوگا‘ جبکہ جنہوں نے حکمرانوں کی ماڈل ٹائون میں مانی وہ بھی برطرف ہوئے اور مقدمے الگ بھگت رہے ہیں۔ تو پھر پولیس عوام کو بچانے کیوں نکلے اگر ان کے منتخب کردہ حکمران ایماندار افسران کو نوکری کا حق دینے کو تیار نہیں؟ ایک ایماندار افسر نے کہا: ہم کہاں جائیں‘ حکومت کی غلط باتیں نہیں مانتے تو وہ کہتے ہیں گھر جائو، اگر مانتے ہیں تو عدالت جواب طلبی کرتی ہے۔ اب اچھے افسران کہتے ہیں: گھر جائو‘ پیشیاں، گرفتاریاں اور بدنامی کون بھگتے۔ پوسٹنگ نہ ملے وہ بہتر ہے اس تمام ذلت سے جو چند حکمرانوں کی ہوس پوری کرنے کے لیے اٹھانا پڑے۔

حضور پاکﷺ کا فرمان یاد آتا ہے: تم سے پہلے قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ طاقتور کو سزا نہیں ملتی تھی۔ وہی کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ عوام یہ سب کچھ برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ طاقتور کا کچھ نہں بگڑتا۔ ریاست کا خوف اور قانون کا ڈر ختم ہو گیا ہے۔ حکمرانوں کی گیدڑ بھبکیاں سنیں تو یہ سب سنبھالے نہیں جاتے‘ لیکن اگر آگے سے کوئی جواب دینے والا ہو تو پھر یہ کئی دنوں تک نظر نہیں آتے۔ فیض صاحب یاد آ گئے جن سے کسی محفل میں پوچھا گیا تھا: پاکستان کا کیا بنے گا؟

وہ بے نیازی سے بولے: کچھ نہیں ہو گا… ایسے ہی چلتا رہے گا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے