”قائداعظم نےبلند آواز میں کہا: خود کھڑے ہو جاو!،تقسیم کے دنوں میں لاہور کی فضاء4 بہت مکدّر تھی”:وائس چئیرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ ، سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ، کارکن تحریک پاکستان ڈاکٹر رفیق احمد سے خصوصی انٹرویو

ڈاکٹر رفیق احمد اصلی لاہوری ہیں ۔ان کا بچین پرانے لاہور میں گزرا. طالب علمی کا دور اسلامیہ ہائی اسکول اور پھر اسلامیہ کالج میں گزرا. تقسیم کے ہنگام ان کی عمر 30برس تھی . مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں بہت متحرک رہے . اس دوران کئی بار قائداعظم سے ملنے کا موقع ملا . لاہور میں‌1947کے بعد پھوٹ پڑتے والے خون ریز فسادات کے عینی شاہد ہیں . اس دور میں‌لٹے پٹے مہاجرین کے کیمپوں میں امدادی کاروائیوں میں سرگرم رہے . آپ پیشہ معلمی سے وابستہ رہے ، 80ء کی دہائی کے دوسرے نصف میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں ۔ آج کل لاہور میں قائم ”نظریہ پاکستان ٹرسٹ” کے وائس چیئرمین ہیں۔عمر پچانوے سال سے اوپر ہے ۔

 

 

میں ماہ اگست کی ایک گرم دوپہر میں‌اپر مال روڈ پر واقع گھر میں حسب وعدہ پہنچا . ڈاکٹر رفیق احمد اجلا سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھے اور دائیں کان میں آلہ سماعت لگا ہوا تھا . میں نے محسوس کیا کہ وہ ذرا اونچا سنتے ہیں . دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت مرتب انداز میں بات کرتے ہیں . سوال غور سے سنتے ہیں اور پھر جواب سے قبل پورا پس منظر بیان کرتے ہیں . ہماری ملاقات قریب پون گھنٹہ جاری رہی اس دوران تقسیم کے دنوں‌کے مشاہدات پر دلچسپ گفتگو ہوئی . خاص طور پر قائداعظم محمد علی جناح سے جڑی بہت سی یادیں‌ گفتگو کا حصہ بنیں . ان سطور میں‌اس گفتگو کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے (فرحان خان)

میں بنیادی طور پر لاہوری ہوں۔ شاہ عالمی بازار اور موچی گیٹ کے پاس سید مٹھا بازار ہے، میں وہاں میں رہتا تھا۔ 1947ءمیں میری عمر تیس برس تھی۔ہم اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں ففتھ ائیر کے طالب علم تھے۔ایم کا امتحان 48ء میں ہوا۔میں ایم اے میں پنجاب یونیورسٹی کاطالب علم تو تھا ہی لیکن اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے تعلق زیادہ تھا۔ میں نے وہاں سے ایف اے اور بی اے کیا۔

ہندو مسلم لیگ کے جلسوں میں پانی چھوڑدیتے تھے

اس زمانے میں زیادہ تر اسکول لاہور میں ہندوؤں سکھوں کے تھے ، انجمن حمایت اسلام مسلمانوں کا ایک ادارہ تھا۔اس نے مسلمانوں کے لیے بہت سے ادارے کھولے ہوئے تھے۔اسی کے تحت اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ بھی تھا، میں 1940ء میں وہاں نویں کا طالبعلم تھا۔اس وقت پاکستان کا نام تو اتنا نہیں چلا تھا لیکن قائداعظم اور مسلم لیگ کا ذکر اسکولوں میں چلتا رہتا تھا۔ہم نے اس وقت اشتہارات لگے دیکھے جن میں بتایا گیا تھا کہ لاہور میں23 مارچ کو مسلم لیگ کا ایک بڑاجلسہ ہو رہا ہے اور بہت بڑے لیڈر قائداعظم تشریف لا رہے ہیں۔اسکول میں ہمارادس بارہ لڑکوں کا ایک گروپ تھا۔ہم میں شوق پیدا ہوا کہ ہم وہ جلسہ جا کر سنیں۔اسلامیہ کالج ریلوے روڈ اس وقت مسلم لیگ کی تحریک کامرکز تھا۔مسلمانوں کی آبادیاں اس زمانے میں لاہوری گیٹ ، شاہ عالمی گیٹ ، دہلی گیٹ کے آس پاس پھیلی ہوئیں تھیں۔مسلمان یا مسلم لیگ کے لوگ ان دروازوں کے باہر موجود باغوں میں جلسے کرتے تھے۔جب کہیں مسلم لیگ کا جلسہ ہوتا تو ہندو اس میں پانی چھوڑ دیتے تھے کیونکہ لاہور کی ساری انتظامیہ ہندوئوں اور سکھوں کے پاس تھی۔

قائداعظم نے مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں پرچم کشائی کی
جلسے کا اعلان ہو جانے کے بعدخدشہ پیدا ہوا کہ ایسی ہی تصادم کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔اسلامیہ کالج کے طلبہ نے کہا کہ ہمارے گراونڈ میں جلسہ کیا جائے، ہم دیکھتے ہیں کون روکتا ہے۔ پھر اس جگہ جلسے ہوتے تھے۔پھر اطلاع ملی کہ 23`مارچ کا جلسہ منٹو پارک میں ہو رہا ہے۔وہاں تین دن کا سالانہ جلسہ تھا،خیمے لگے ہوئے تھے۔کھانے پینے کاانتظام بھی تھا۔وہیں باہر چبوترے پر رسم پرچم کشائی ہونی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ 22مارچ کی شام کو قائداعظم پرچم کشائی کر رہے ہیں۔منٹو پارک میں بڑی رونقیں تھیں۔مسلم لیگ کے کارکنان پشاور ، بنگال ، مدراس، یوپی سمیت بہت دور دارزسے آئے ہوئے تھے۔ہم مغرب کے وقت وہاں پہنچے ہی تھے کہ شور مچا کہ رسم پرچم کشائی کے لیے قائداعظم آ رہے ہیں۔ قائداعظم کی گاڑی منٹو پارک پہنچی۔ وہ گاڑی سے نکلے اور چبوترے کے پاس کھڑے ہوئے گئے۔ ہم انہیں پہلی بار دیکھتے ہی بہت متاثر ہوئے۔ ایک لمبے قد کا آدمی ،سفید رنگ کاچوڑی دار پاجامہ، نیچے بڑی اچھی غرغابی ،اوپر اچکن ڈالی ہوئی اورسر پر جناح کیپ لیکن ذرا بانکے انداز میں ٹیرھی سی۔ وہ بڑے باوقار انداز میں چلتے ہوئے بڑے اچھے لگے، ہم وہیں کھڑے ہو گئے اور ان کی تقریر سنی۔انہوں نے سب کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ کل ہم سالانہ جلسہ کررہے ہیں۔ آپ سب کو دعوت دی جاتی ہے۔ یہ ہماراقائداعظم سے پہلا آمنا سامنا تھا۔

ہمیں پارک میں جانے سے روکا گیاتو قائداعظم نے کہا : انہیں مفت جانے دو
پھردوسرے دن ہم جلسہ سننے مغرب سے ذرا پہلے پہنچے۔پارک میں جانے لگے تو ہمیں یہ کہہ روک دیا گیا کہ ٹکٹ کے بغیر نہیں جا سکتے ، ہم تو طلبہ تھے ، پیسے تو ہمارے پاس تھے نہیں۔ اسی اثناء4 میں قائداعظم آ گئے اور ان کی گاڑی وہاں رکی ،ہم نے ان کے پاس جا کر بڑے زور سے شور مچایا قائداعطم۔۔۔ قائداعظم ۔۔۔ انہوں نے اندازہ لگالیا کہ طلبہ مجھ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے ہماری طرف رخ کر کے بڑی زور دار آواز میں پوچھا وٹس دا میٹر بوائز!(نوجوانو! کیا مسئلہ ہے؟)ہم نے کہا ہم آپ کا جلسہ سننا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس داخلے کی ٹکٹوں کے پیسے نہیں ہیں اور یہ لوگ ہمیں اندر نہیں جانے دیتے۔ وہ بہت ہنسے اور ہمارے سامنے انہوں نے منتظمین کو ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا ان سب نوجوانوں کوکو فری جانے دو۔ہم نے وہاں گراونڈ میں بیٹھ کر وہ جلسہ سنا۔کچھ تقاریرانگریزی اور کچھ اردو میں تھیں۔کچھ سمجھ میں آئیں اور کچھ نہیں مگر ایک بات تھی کہ وہاں جلسے میں کہا گیا کہ ہمارا علیحدہ ملک بنے گا۔قائداعظم نے کہا جہاں ہماری اکثریت ہے وہاں ہمارا ملک بنے گا۔

قائداعظم اسلامیہ کالج ریلوے روڈ 13بار آئے
پھر ہم اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ پہنچے تو ہیڈ ماسٹرصاحب نے ہمیں کہا جو کچھ آپ دیکھ کر آئے ہیں وہ مضمون کی صورت میں لکھیں۔ہم نے اس پر بڑا اچھا مضمون لکھا۔اس کے بعد جب دسویں کے امتحان کارزلٹ آیاتو میں اتفاق سے میں ان طلبہ میں سے تھا جس کی دو تین مضامین میں فرسٹ ڈویژن آئی تھی۔ ہمیں براہ راست گورنمنٹ کالج میں داخلہ مل گیاتھا لیکن میری والدہ نے کہا کہ عیسائیوں کے کالج میں نہیں پڑھنا۔انہوں نے اسلامیہ کالج میں پڑھنے کا حکم دیا۔ میں اس وقت تھوڑا سا ناراض تو ہوا تھالیکن بعد میں پتا چلا کہ یہ بہت اچھا اسکول ہے۔1940ء سے سینتالیس کے دوران قائداعظم لاہورمیں 19 بار آئے جن میں 13 مرتبہ وہ اسلامیہ کالج بھی تشریف لائے کیونکہ اسلامیہ کالج تحریک کا گڑھ بن گیا تھا۔قائداعظم حدیبیہ ہال میں باقاعدہ تقریرکیا کرتے تھے۔ وہ حدیبیہ ہال میں جلسہ کرنے کے بعد نوجوانوں کے جھرمٹ میں بیٹھ جاتے تھے۔انگریزی اوربمبئی کی اردو میں باتیں کرتے تھے۔سوال جواب بھی ہوتے تھے.

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے گر پڑا تو قائداعظم بلند آواز کہا: خود کھڑے ہو جاو!

ایک بار مجھے قائداعظم سے ہاتھ ملانے کا موقع بھی ملا۔ وہ اس طرح کہ میں نے جب بی اے کا امتحان پاس کیا تو دو مضامین میں میری فرسٹ ڈویڑن آئی،اسلامیہ کالج والے بڑے خوش ہوئے،انہوں نے ایک جلسہ تقسیم اسناد منعقدکیااوراچھے نمبر لینے والے طلبہ کو قائداعظم کے ہاتھ سے انعامات دلوانے کا اہتمام کیا۔جلسہ تقسیم اسناد میں اسٹیج پر جانے کے لیے لکڑی کی سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں۔ وہاں میرے ساتھ ایک واقعہ ایسا ہوا جو اس وقت کے اخباروں میں رپورٹ ہوا۔میں اس وقت بہت پرجوش تھا،جب سیڑھیاں چڑھنے لگا تو پھسل کر گرپڑا تو توقائداعظم نے بڑی بلند آواز میں کہا۔(My dear young boy no body is going to lift up…stand up and come on your own feet) میرے عزیز نوجوان! تمہیں کوئی نہیں اٹھائے گا ، خود کھڑے ہو جاو اور اپنے قدموں پر چل کر آو‘‘۔یہ ایک میسج تھا۔میں اٹھا اور تقریباً بھاگتا ہوا ان کے پاس گیا اور یوں مجھے قائداعظم سے ہاتھ ملانے کا موقع ملا۔

تقسیم کے دنوں میں لاہور کی فضاء4 بہت مکدّر تھی
تقسیم سے قبل بھی لاہور میں فسادات ہو جاتے تھے۔ ہندوئوں نے یہ کام شروع کیا کہ جہاں مسلم لیگ والے جلسے کرتے تھے وہاں اپنے طبلے وغیرہ لے کر پہنچ جاتے تھے،مساجد کے آگے بھی کبھی جھگڑے ہوجاتے تھے۔ان دنوں میں لاہور میں ہندو مسلم فسادات بڑھ گئے تھے لیکن مسلمانوں میں ایک جوش تھا۔لاہورمیں مسلمانوں کی ایک آبادی راج گڑھ تھی،وہاں بہت سے نوجوان اور پہلوان رہتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ ایک بارہندوئوں نے اس زمانے میں منصوبہ بنا کر وہاں حملہ کیا اور بہت سوں کو زخمی کردیا تو بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ جب فسادات ہوتے تھے تو انگریز لاہور میں کرفیو لگا دیتے تھے۔آنا جانا بند ہو جاتا تھا۔مجھے یاد ہے اس واقعہ کے بعداس وقت مسلمانوں نے بڑے احجاجی جلوس نکالے۔فضاء4 بڑی مکدر تھی۔

ہمارے ہاتھ میں گتکے جبکہ ان کے پا س ڈانگیں ہوتی تھیں
ہمارے اسلامیہ اسکول کا مقابلہ ڈی اے وی اسکول سے تھا۔پنجاب یونیورسٹی کے ہال میں مسلمان اور ہندو لڑکے جاتے تو کئی بار وہاں ہمارے جھگڑے بھی ہوتے تھے۔ہمارے ہاتھ میں گتکے جبکہ ان کے پا س ڈانگیں ہوتی تھیں۔ وہ حملہ کر دیتے تھے۔جہاں تک تعلق ہے بازاروں کا تو آئے دن فسادات کی وجہ سے بازار بند ہوتے رہتے تھے۔ وہ ہماری آبادیوں میں اور ہم ان کی آبادیوں میں جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ہندووں نے پاکستان بننے سے پہلے لاہور میں تین چار جگہ حملے کئے تو اس کے بدلے میں مسلمانوں نے شاہ عالمی کوآگ لگائی جس کے نتیجے میں بڑے بڑے گودام جل گئے۔جب پاکستان بن گیا تو اس سے پہلے ہندووں نے مشہور کر دیا تھا کہ لاہور انڈیا کو مل رہا ہے لیکن جب واضح ہو گیا کہ لاہور پاکستان کا حصہ ہے تو ہندووں کو خدشہ پیدا ہو گیا تو انہوں نے لاہور سے کوچ کرنا شروع کر دیا۔

ان دنوں لاہوریوں نے دہلی دروازے اور موچی گیٹ کے باہر دیگیں بنانی شروع کیں
مجھے یاد ہے کہ جب پاکستان کا قیام ہوا۔ ہندووں نے مشرقی پنجاب کی مسلمان آبادی پر حملے کر دیے اور وہاں سے بے شمار لوگ زخمی حالت میں مہاجر ہو کر آئے۔یہاں ان کے کیمپ لگے ہوئے تھے۔ہم ایم ایس ایف کے رکن طلبہ ان کی مدد کرتے تھے۔ان دنوں لاہوریوں نے دہلی دروازے اور موچی گیٹ کے باہر دیگیں بنانی شروع کیں۔یہ دیگیں مہاجرین کے لیے ٹانگوں ٹرکوں پر جاتی تھیں۔مجھے انہی مہاجر کیمپوں میں کام کی بنیاد پر سرٹیفیکٹ بھی ملا ہے۔پھر مسلم لیگ نے یہ بھی کیا کہ پنجاب کے جن علاقوں سے سکھ اور ہندو بھاگ کر گئے تھے،ان علاقوں میں مہاجروں کو ٹرکوں کے ذریعے بھجوا دیتے تھے تاکہ وہ اس جگہ کو آباد کریں۔
اس وقت ٹرینیں چلنی شروع ہوئیں تو ہندو اور سکھوں نے ان کے ذریعے انڈیا جانا شروع کیا۔ وہ مختلف محلو ں سے تانگوں کے ذریعے اسٹیشن جاتے تھے۔انہوں نے اپنی دکانیں بند کر دیں اور مال و اسباب سب لاد کر لے گئے۔ وہاں سے جو مسلمان آتے تھے ان کا حال بہت برا تھا جبکہ مغربی پنجاب سے جانے والے ہندواور سکھ تقریباً سلامت انڈیا پہنچے۔

ستر برس میں پاکستان میں بہت کچھ بہتر ہوا ہے

قائداعظم کاویژن ایک جمہوری اسلامی ریاست قائم کرناتھا۔پاکستان کے ابتدائی دور میں مسلمان بڑے اچھے طریقے سے رہے۔ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے۔ مہاجرین کی مدد کی ، ہم نے اس وقت عزم کیا تھا کہ ایک اسلامی جمہوری ملک بنائیں گے اور وہاں انصاف کے ساتھ رہیں گے۔اب جوپاکستان قائم ہوا،اس کے مثبت پہلو بھی ہیں اور اور قابل اصلاح پہلو بھی ہیں۔مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ملک قائم ہے ، ہمیں ایک جگہ مل گئی ہے، پہلے مسلمان تاجر نہیں تھے ، اب تاجر بن گئے ہیں ،پڑھے لکھے نہیں تھے اب پڑھ لکھ گئے ہیں ، بازار آباد ہو گئے ہیں ، منڈیاں آباد ہو گئی ہیں ، پاکستان کا دنیا میں بڑا وقار ہے،اب یہاں ڈیڑھ سو سے زیادہ یونیورسٹیاں، ہزاروں کالج ہیں، ہم نے ہر اعتبار سے بڑی ترقی کی ہے ،مسلمان غریب ہوتے تھے ، اب گو کہ اسلامی مساوات پر مبنی معاشرہ تو نہ بنا سکے لیکن ملک بہرحال بن گیا ، ہم ایٹمی طاقت بن گئے،ہماری فوج بن گئی ،ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔دنیا بھر میں ہمارے تعلقات ہیں۔ ایک بالکل پس ماندہ ملک اب بہت آگے پہنچ چکا ہے۔ ستر سالوں میں پاکستانیوں نے بہت کچھ بہتر کیا ہے۔ صرف مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اس معاشرے کو مساوات پر مبنی معاشرہ بنانا تھا اس میں ہم ذرا پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارے انصاف کا تصور بہت اچھی طرح نمونہیں پا سکا۔

 

ڈاکٹر توفیق احمد کی عمر پچانوے برس سے کچھ اوپر ہے . قدرے نحیف محسوس ہوتے ہیں‌ لیکن یادداشت ابھی تک قابل رشک ہے . انہیں ستر برس پرانی جگہیں ، واقعات اور کردار بالکل اسی طرح ازبر ہیں . ملاقات کے دروان ڈاکٹر توفیق کو ورزش کرانے والے جواں سال فزیشن بھی کمرے میں‌تشریف لے آئے تھے . یہ شاید ان کی روزانہ ورزش کا وقت تھا ، میں سوال سمیٹنے لگا تو انہوں‌نے کہا : ” آپ نے تو براہ راست سوال کر ڈالا” ، حالانکہ اس تک پہنچنے کے لیے سیاق وسباق کا بیان اہم ہے ” . سوال یہ تھا کہ ان ستر سالوں میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا ؟ . ڈاکٹر توفیق نے پاکستان کے تشکیل کے بعد کے مثبت پہلو گنوائے اور دیگر پہلوئوں پر بات کے لیے دوسری نشست کا مشورہ دیا . یہ کہہ کر وہ ورزش کے لیے اور میں‌اپنے دفتر کے لیے روانہ ہو گیا . اگلے دن کوشش کے باوجود ان سے رابطہ نہ ہو سکا ، سو اسی پر اکتفا کیا جو بات چیت محفوظ ہو چکی تھی .

یہ انٹرویو روزنامہ 92 سنڈے میگزین کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے