قائد اعظم اور نوے سال پرانا مسئلہ

1927ء کا برس تھا۔ بمبئی شہر سے مسلمان نمائندے محمد علی جناح نے ہندوستان کی مجلس قانون ساز میں شادی کی کم از کم عمر کے بارے میں ایک مسودہ قانون پیش کیا۔ ٹھیک سو برس پہلے 1829 ء میں راجہ رام موہن رائے کی تحریک پر گورنر جنرل ولیم بین ٹنک نے ستی کی مکروہ رسم کو خلاف قانون قرار دیا تھا ۔ محمد علی جناح انسانوں کی زندگی میں سہولت ، انصاف اور خوشی مہیا کرنے کی روشن روایت کو آگے بڑھا رہے تھے۔ مسلمان علما نے اس مسودہ قانون کی سخت مخالفت کی ۔ نابالغ بچیوں کے نکاح پڑھانے کی تحریک چلائی گئی۔ ہزاروں مسلمان بچوں کا مستقبل تاریک کرنے کی اس مہم کے سرخیل افراد کے برگزیدہ نام تاریخ کے حافظے میں محفوظ ہیں۔ نشان دہی میں خلط مبحث کا اندیشہ ہے۔ مقابلہ محمد علی جناح جیسے نکتہ داں سے تھا جن کی قانونی دلیل برہان قاطع کا درجہ رکھتی تھی۔ کم عمر بچوں کی شادی کے امتناع کا یہ قانون 1929 ء میں منظور ہوا اور ہماری قانونی روایت کا حصہ ہے۔ قدامت پسند مسلمان ذہن نے اس معاملے میں مزاحمت ترک نہیں کی۔

 

 

1961ء میں مسلم عائلی قوانین کے نفاذ پر یہ قضیہ اٹھا ۔ 1979ء میں حدود کے قوانین سے معاملے میں پیچیدگی پیدا ہوئی۔ 1984ء میں قانون شہادت میں ترمیم کی گئی۔ 2006ء میں عورتوں کے تحفظ کا مسودہ قانون پیش کیا گیا تو حمایت اور مخالفت کرنے والوں کے نام ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ مسئلہ نوے برس پرانا ہے ۔ نوے برس پرانے مسئلوں کے بارے میں تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انہیں کتاب قانون کے لفظ سے نہیں ، سیاسی بصیرت سے حل کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم میں سیاسی بصیرت کی کمی نہیں ۔ پاکستان کی مایہ ناز خاتون فلم ساز شرمین عبید چنائے کی فلم آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد کی گئی ہے۔ جمعے کے روز وزیراعظم نواز شریف نے انہیں مبارکباد کا پیغام دیا اور ایوان وزیراعظم میں ’گرل ان دی ریور‘ کی افتتاحی نمائش کی دعوت دی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ نام نہاد غیرت کی آڑ میں عورتوں کے قتل کے بارے میں مناسب قانون سازی کی جائے گی۔ وزیراعظم نے سرمایہ کار ی کانفرنس میں جمہوری اور روشن خیال پاکستان کا عندیہ دیا تھا ۔ جمہوری اور روشن خیال پاکستان کے بنیادی خدوخال عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کے بارے میں ریاست کے رویوں سے طے پائیں گے۔ وزیراعظم نے دیوالی کے موقع پر کراچی میں ہندو ہم وطنوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تو پہلا اشارہ دیا۔ غیرت کے نام پر قتل کی مخالفت کاعزم ظاہر کیا تو گویا ریاست کی تصویر میں ایک اور مناسب رنگ بھردیا۔

 

 

سیاسی رہنما علمی مقالے نہیں لکھا کرتے، اشارہ کرتے ہیں اور اشارے میں جہان معنی پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہمیں اقلیتوں اور عورتوں کے بارے میں وزیراعظم کے اچھے خیالات کی تائید کرنی چاہیے ۔ جمعے کے روز ہی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کا اجلاس حافظ عبدالقیوم کی صدارت میں منعقد ہوا۔ مسلم لیگ نواز کی رکن اسمبلی ماروی میمن نے کم عمری کی شادی کے بارے میں مجوزہ مسودہ قانون کا دفاع کرنا چاہا ۔ وزارت مذہبی امور نے قائمہ کمیٹی کو مطلع کیا کہ وزارت تعلیم اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اس مسودہ قانون کو اسلامی اقدار کے منافی اور توہین رسالت کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس موقع پر ’مذہبی اقدار ‘اور ‘مغربی اقدار ‘کی موہوم اصطلاحات میں اظہار خیال کیا گیا ۔ ماروی میمن نے مسودہ قانون واپس لے لیا۔ شرمین عبید چنائے کے نام وزیراعظم کے پیغام اور قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کی کارروائی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جسد اجتماعی میں رخنے موجود ہیں اور ہمارے سیاسی مکالمے میں سکتہ پڑتا ہے۔ ریاست میں قانون اور پالیسی کی سطح پر وزیراعظم کے وژن کی مخالفت موجود ہے۔ اس پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ استفسار کیا جا سکتا ہے کہ کم عمری کی شادی کے بارے میں مسودہ قانون پر وزارت تعلیم سے استصواب کیوں کیا گیا؟

 

 

 

 

پاکستان میں تقریباً 17فیصد لڑکیوں کی شادی 18سال کی عمر سے پہلے ہی ہوجاتی ہے۔ کم عمری کی شادی سے بچیوں کی صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ زچگی کے دوران اموات واقع ہوتی ہیں۔ فسٹولا جیسی پیچیدہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ شیرخوار بچوں کی موت کی شرح بڑھتی ہے۔ کیا اس مسودہ قانون پر وزارت صحت سے رائے لی گئی؟ کم عمری کی شادی سے عورتوں کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آبادی میں اضافے سے ملکی وسائل پر دبائو بڑھتا ہے۔ معیشت کی تصویر خراب ہوتی ہے۔ کیا اس مسودہ قانون پر وزارت خزانہ ، اکنامک ڈویژن اور پلاننگ کمیشن سے رائے لی گئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کئی برس پہلے اپنی حتمی رپورٹ پیش کر چکی ہے ۔ اس ادارے کا آئینی جواز محل نظر ہے اور یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ اپنے قیام کے طویل برسوں میں نظریاتی کونسل نے معاشرت ، معیشت اور جمہوریت کے لئے کیا خدمت سرانجام دیں؟ اس سے بھی اہم سوال یہ کہ اگر پارلیمنٹ کے منتخب ادارے کے حق قانون سازی پر ایک نامزد ادارے کا حق استرداد تسلیم کر لیا جائے تو آئینی بندوبست کے خدوخال مسخ ہو جاتے ہیں۔ اگر مقننہ بااختیار نہیں ہے تو مقننہ کے بطن سے جنم لینے والی حکومت بھی یرغمال ہو جائے گی۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ’ مذہبی ‘اور’ مغربی ‘ اقدار کے مجادلے میں حتمی سوال پارلیمنٹ کے جواز کا ہے۔ یہ دونوں اصطلاحات دراصل آئین اور پارلیمنٹ کی بنیادوں میں بچھائی گئی بارودی سرنگیں ہیں۔

 

 

 

مسئلہ مذہبی احکامات کی بالادستی کا نہیں ، تشریح اور تعبیر کے اختیار کا ہے۔ مسئلہ محض شادی کی عمر متعین کرنے کا نہیں بلکہ یتیم پوتے کے حق وراثت اور تعداد ازدواج سے لے کر نکاح کے لئے ولی کی رضامندی کے تنازع تک بنیادی قضیہ یہ ہے کہ ہم شہریوں کے حقوق کو مرد اور عورت کی جسمانی خصوصیات کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ خاندان کے ادارے کو بنیادی انسانی وقار کے خلاف ایک غیر منصفانہ بندوبست اور مجرمانہ سازش میں بدلنا چاہتے ہیں ۔ استاد محترم فرمایا کرتے ہیں کہ ستر برس سے پاکستان کا معاشرتی مکالمہ عورتوں کی آزادی کے سوال کا اسیر ہے۔ پاکستان کا آئین عورتوں اور مردوں کی مساوات کی ضمانت دیتے ہوئے واضح اعلان کرتا ہے کہ صنف کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ صنفی مساوات کی اس ضمانت کو بامعنی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ امتیازی قوانین کو ختم کیا جائے نیز ایسی قانون سازی کی جائے جو بنیادی انسانی احترام کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ شادی کے ادارے کو مردانہ بالادستی اور عورتوں کی محکومی کا آلہ کارنہیں بنایا جا سکتا۔ اگر معاشرہ گھر کی چار دیواری میں بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ مساوات، آزادی اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہے تو یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ گلی کوچوں میں مذہبی رواداری کا چلن ہو سکے گا، زبان کی بنیاد پر کسی گروہ کا معاشی استحصال نہیں کیا جائے گا اور عددی اقلیت میں ہونے کی بنا پر کسی وفاقی اکائی کو سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

 

 

ہمارے وزیراعظم کے چاہنے والے انہیں قائداعظم ثانی قرار دیتے ہیں۔ اپنے رہنمائوں سے محبت کے ایسے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ مگر خیال رہے کہ قائداعظم اوّل کم عمری کی شادی کے خلاف مسودہ قانون کے محرک تھے اور انہوں نے کم نظر طبقات کی مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔

 

 

قائداعظم ثانی سے توقع کی جانی چاہئے کہ وہ اپنے نقش اول کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت اور حکومت کو اس معاملے پر یکسو کرنے کی کوشش کریں گے۔ آئینی بندوبست کی حامی سیاسی قوتوں کو اس اچھے مقصد میں حکومت کا ساتھ دینا چاہئے۔ قائداعظم کے نام پر وعظ اور تلقین کی دست فروشی کرنے والوں سے بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ قائداعظم کے افکار کی روشنی میں اس معاملے پر آواز اٹھائیں۔ 1938 ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے عورتوں کے حقوق اور ترقی کے بارے میں جو خوبصورت باتیں کہی تھیں انہیں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں فاطمہ جناح کے بھائی کا نقطہ نظر کچھ ایسی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ یہ مسئلہ نوے برس پرانا ہے اور نوے برس پرانے مسئلے کتاب قانون کے لفظ سے نہیں، سیاسی بصیرت سے حل ہوتے ہیں۔ –

 

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے